BBC
آٹھ اکتوبر 2005 وہ دن تھا جب سمیعہ اور کرن دونوں لڑکیوں کے والد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 7.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے میں ہلاک ہو گئے مگر اب کئی سال بعد انٹرمیڈیٹ کی ان طالبات نے اپنے سکول کو ماحولیاتی تحفظ کے منصوبے کے لیے ایک عالمی اعزاز دلایا ہے۔
اس پراجیکٹ کی لیڈر کشمیر اورفن ریلیف ٹرسٹ (کورٹ) کی سیکنڈ ایئر کی طالبہ سمیعہ ہیں جنھوں نے متحدہ عرب امارات میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تحفظ کی کانفرنس کے دوران ’زید سسٹیبینبلٹی پرائز‘ کے تحت گلوبل ہائی سکول ایوارڈ وصول کیا۔
کشمیر میں زلزلے کے بعد یتیم بچوں کے لیے قائم کورٹ سکول نے پانی کے تحفظ اور نامیاتی کاشتکاری سے متعلق ایک جدید پراجیکٹ پر دسمبر 2023 کے اوائل میں اس منفرد عالمی اعزاز کے ساتھ ایک لاکھ ڈالر کا انعام حاصل کیا۔
اس ایونٹ کی کیٹیگری میں ججز نے پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے سکولوں کو فائنلسٹ کے لیے منتخب کیا تھا۔
سمیعہ کے والد ایک دیہاڑی دار مزدور تھے جن کی 2005 کے زلزلے میں ہلاکت ہوئی تھی۔ گذشتہ 14 سال سے کورٹ سکول میں زیرِ تعلیم سمیعہ کہتی ہیں کہ ’جب میڈیا پر میری ایوارڈ وصول کرنے کی ویڈیو آئی تو مجھے میرے گاؤں میں سب نے مبارکباد دی۔‘
وہ سکول جو زلزلے سے متاثرہ بچوں کا سہارا بنا
سنہ 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعد کشمیر اورفن ریلیف ٹرسٹ قائم کیا گیا جس کا مقصد وہاں بچوں کو تعلیم، تربیت اور رہائش فراہم کر کے ان کی زندگیاں تبدیل کرنا تھا۔
کورٹ سکول کے بانی چیئرمین چوہدری محمد اختر بتاتے ہیں کہ وہ برطانیہ میں مقیم تھے جہاں وہ اپنا کاروبار اور کام کرتے تھے۔ ان کے مطابق ایک وہ وقت بھی تھا جب 21 سال کی عمر میں پہلی بار تین ماہ پاکستان رہنے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کبھی مڑ کر پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔
کشمیر کے بدترین زلزلے سے ہونے والی تباہی دیکھ کر انھوں نے سوچا ’مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ میرا یہ دورہ صرف تین، چار روز کے لیے تھا۔ کشمیر کے باغ شہر میں دیکھا کہ بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے۔ مجھے ان بچوں کے لیے کچھ کرنا تھا۔‘
اس طرح انھوں نے کرایہ پر ایک عمارت حاصل کی جہاں 40 بچوں کو محفوظ پناہ دی گئی۔ چھ ماہ تک برطانیہ سے بار بار آنے سے ان کا کاروبار متاثر ہو رہا تھا۔ ان کی اہلیہ وہیل چیئر پر تھیں اور ان کی ساڑھے آٹھ سال کی بیٹی تھی۔ اس کے باوجود وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے تھے کہ ان پر اب مزید 40 بچوں کی ذمہ داری ہے۔
’اب میرے پاس دو ہی آپشن تھے۔ یا تو اس جگہ کو بند کر کے واپس برطانیہ چلا جاؤں۔ یا پھر اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کر دوں۔‘ یوں انھوں نے یتیم بچوں کا باغبان بننے کا ایک مشکل فیصلہ کر لیا۔
مگر چوہدری محمد اختر کی رائے میں تمام مراحل ایک، ایک کر کے خود بخود طے ہوتے چلے گئے۔ انھیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق نے میرپور میں زمین دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پورے کمپلیکس کو بہت کم پیسوں، صرف پچاس کروڑ روپے، میں مکمل کیا تھا‘ جس کے لیے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے ان کی مدد کی۔
’میری اہلیہ نے وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود میرا ساتھ دیا۔ انھوں نے اس پر بہت قربانیاں دی ہیں۔ مجھے کبھی روکا نہیں حالانکہ ان کو بھی میری ضرورت ہوتی تھی۔ میری بیٹی نے بھی بہت ساتھ دیا۔ 2006 میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کو میرپور کشمیر منتقل کر دیا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرپور میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں جس کے واش روم کا دروازہ اتنا کھلا ہو کہ وہیل چیئر واش روم جا سکے۔‘
BBCماحول دوست سکول: ’ہم 40 فیصد سے زیادہ پانی ری سائیکل کرتے ہیں‘
چوہدری اختر بتاتے ہیں کہ کورٹ سکول ایک ایسا آشیانہ ہے جہاں نہ صرف بچوں کو رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولیات دی جاتی ہیں بلکہ یہاں بچوں کو ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں بھی تربیت ملتی ہے۔
’ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے خطرات لاحق ہیں۔ ہم نے شروع دن سے بچوں کے ساتھ مل کر اس پورے کمپلیکس کو کچن گارڈن، پانی کے بچاؤ، بائیو گیس اور دیگر اقدامات سے ماحول دوست بنایا۔‘
کورٹ سکول میرپور کی پرنسپل زیب النسا نے کوپ 28 میں پیش کیے گئے پائلٹ پراجیکٹ کے بارے میں ہمیں بتایا ہے جس کے دو حصے ہیں: پہلا نامیاتی کچن گارڈن ہے اور دوسرا پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا منصوبہ۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ دونوں پراجیکٹ آپس میں جڑے ہوئے ہیں جس میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے باغبانی اور زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
’450 سے زیادہ طلبہ کے اس سکول میں ہم چالیس فیصد سے زیادہ سبزیوں کی ضرورت اپنے کچن گارڈن سے پوری کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنا چالیس فیصد سے زیادہ پانی ری سائیکل کر کے ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔‘
اس ماحول دوست کمپلیکس میں پائیدار ترقی کے لیے کچن گارڈن، پانی کی ری سائیکلنگ، سولر پینل اور بائیو گیس جنریش شامل ہیں جن پر طلبہ خود کام کرتے ہیں۔
https://twitter.com/Kort_org_uk/status/1731209976373522613
ان کا کہنا تھا کہ ’کچن گارڈن میں نامیاتی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں ہم کیمیکل استعمال نہیں کرتے۔ یہ سبزیاں اور پھل صحت مند اور غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ کچن میں استعمال ہونے والا پانی ری سائیکل ہوتا ہے۔‘
زیب النسا کا کہنا تھا کہ ’دس سال سے کم عمر بچوں کو خالص دودھ فراہم کرنے کے لیے مال مویشیوں کا فارم بنا رکھا ہے۔ اس فارم کے فضلے کو بائیو گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کچن ویسٹ کو بھی زرعات اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
زیب النسا تسلیم کرتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان اور کشمیر کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ ’ہر سال قدرتی آفات پاکستان اور کشمیر میں تباہی مچا دیتی ہیں۔ کبھی لینڈ سلائیڈنگ اور کبھی سیلاب کی شکل میں معاشی، معاشرتی، جانی ومالی نقصاں پہنچتا ہے۔‘
اسی لیے ماحول دوست کمپلیکس بنانے کا مقصد ’ماحولیاتی مسائل کے خلاف عملی جنگ لڑنا ہے۔‘
کوپ 28 میں سکول کو ملنے والے ایوارڈ پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں امید نہیں تھی کہ ہمارے اس پراجیکٹ کو گلوبل انعام ملے گا۔ جب ہمیں فائنلسٹ کے لیے منتخب کیا گیا تو ہمارے ان تمام پراجیکٹ پر کوپ 28 کی انتظامیہ نے ایک ڈاکو مینٹری بنائی تھی۔‘
’اگر پورا معاشرہ اور طالب علم حساس ہوجائیں اور کورٹ جیسے پراجیکٹ ہر سکول و کالج میں طالب علموں کی مدد سے شروع کیے جائیں تو اس کے بہت مثبت اثرات نکل سکتے ہیں۔‘
’ہم نے یہ پراجیکٹ اپنے لیے نہیں بلکہ معاشرے کے لیے بنایا‘
پراجیکٹ پر کام کرنے والی انٹرمیڈیٹ کی طالبہ کرن کے والد بھی 2005 کے زلزلے میں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ اب کمپلیکس پر اس پائیدار ترقی کے منصوبے پر کام کرتی ہیں۔
کرن کہتی ہیں کہ درخت پورے علاقے کو تازہ ہوا دیتے ہیں ویسے ہی اس طرح کے پراجیکٹ ماحول کی بہتری کے لیے اہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف اپنے کورٹ کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
’ہمارا کمپلیکس ماحول کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ ہم کچن اور اپنے مال مویشی کے کچرے اور فضلے کو ری سائیکل کرتے ہیں۔ اس طرح ہم ہر ایک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نامیاتی کچن گارڈن کو بڑھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ آنے والے وقت میں ہم اپنی سو فیصد ضرورت کو اس سے پورا کریں۔ ہم مزید کچن گارڈن فارم لگائیں گے اور سوسائٹی کو شامل کریں گے۔‘
’ہمیں جو تربیت فراہم کی گئی ہے یہ تربیت ہم معاشرے میں منتقل کریں گے۔‘