’محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘: گورداسپور کے مقبول جو انڈین اور پاکستانی جوڑوں کو قریب لانے میں مدد کرتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Dec 24, 2023

BBC

پنجاب کے ضلع گورداسپور کے قصبے قادی کے رہائشی مقبول احمد کا کہنا ہے کہ ’جب بھی کوئی پاکستانی لڑکا یا لڑکی شادی کرنے کے لیے اٹاری سرحد کے راستے انڈیا میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں اپنا وقت یاد آ جاتا ہے۔‘

مقبول احمد انڈیا اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف رہنے والے شادی کے خواہشمند لڑکوں اور لڑکیوں کی کاغذی کارروائی مکمل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ان کا بنیادی کام ویزا کے عمل کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کرنا ہے۔

عام طورپر یہ ’پراسیس‘ بہت مشکل اور طویل ہوتا ہے۔ مقبول احمد پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور وہ بغیر پیسے لیے جوڑوں کو ملانے کا کام کرتے ہیں۔

وہ حال ہی میں اس وقت خبروں میں نمایاں ہوئے جب پاکستان کے شہر کراچی کی رہائشی جویریہ خانم ان کی مدد سے انڈیا پہنچیں۔

جویریہ جنوری کے مہینے میں کولکتہ کے رہنے والے سمیر خان سے شادی کرنے والی ہیں۔

جویریہ جب اٹاری کے راستے انڈیا پہنچیں تو انھوں نے مقبول احمد کا شکریہ بھی ادا کیا۔

مقبول کا کہنا ہے کہ جب سمیر خان نے ان سے رابطہ کیا اور ویزا کے لیے مدد مانگی اس وقت تک جویریہ کا ویزہ دو بار مسترد ہو چکا تھا۔

مقبول کے مطابق انھوں نے جویریہ کو ضروری مدد فراہم کی جس کے بعد جویریہ کو ویزا مل گیا۔

ان کے مطابق ’میں نے سمیر کو مشورہ دیا تھا کہ اس بار صرف جویریہ کے ویزا کے لیے ہی درخواست دیں، والدین کو رہنے دیں۔‘

اس کے بعد پھر جویریہ کو ویزا مل گیا۔

BBCمشہور جوڑے کی شادی کیسے ہوئی

مقبول احمد کی شادی پاکستان کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی طاہرہ مقبول سے ہوئی لیکن یہ شادی آسان نہیں تھی بلکہ اس کے لیے انھیں کافی کاغذی کارروائی اور جدوجہد سے گزرنا پڑا۔

مقبول کی شادی سنہ 2001 میں طے ہوئی تھی اور اس کے لیے انھیں پاکستان بارات لے کر جانا تھا لیکن اس دوران انڈین پارلیمنٹ پر مسلح حملہ ہو گیا۔

اس حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا اور سرحدیں بند کر دی گئیں۔ طاہرہ پاکستان میں اور مقبول احمد انڈیا میں پھنس کر رہ گئے۔

مقبول احمد کا کہنا ہے کہ وہ علیحدگی کے درد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انھوں نے طاہرہ کو انڈیا لانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

مقبول اور طاہرہ کی محبت کی کہانی اس وقت بین الاقوامی اور قومی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنی تھی۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی مدد سے طاہرہ کو انڈیا کا ویزا ملا اور اس طرح ان کی شادی سات دسمبر 2003 کو ہوئی۔

BBCیہ کیسے ایک خاص شادی تھی؟

سنہ 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے تعلقات خراب ہو گئے جس کے بعد تقریباً دو سالوں میں یہ پہلی ’سرحد پار‘ شادی کی تقریب تھی۔

اس وقت اس کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک کے میڈیا میں خوب چرچا تھا۔ کڑی میں رہنے والے اس جوڑے کے تین بچے ہیں۔

اپنی شادی کے لیے طویل جدوجہد سے حاصل ہونے والے تجربے کے ساتھ وہ اب دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔

ان کی مدد سے اب تک تقریباً 10 جوڑے شادی کر چکے ہیں۔ وہ یہ مدد مفت فراہم کرتے ہیں۔

صحافی اور سماجی کارکن مقبول کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام بلا معاوضہ اور خدمت کے جذبے سے کرتے ہیں کیونکہ طاہرہ کو انڈیا لانے میں بہت سے لوگوں نے ان کی مدد کی تھی۔

BBCجدائی کا درد

مقبول احمد کی اہلیہ طاہرہ مقبول کا کہنا ہے کہ جب جویریہ اٹاری بارڈر کے راستے انڈیا آئیں تو انھیں اپنے دن یاد آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’جس انداز میں وہ انڈیا آئے تھے ہمارا بھی ایسے ہی پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔‘

پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے طاہرہ کہتی ہیں کہ سنہ 2003 میں وہ سب سے پہلے دہلی سے لاہور اور پھر دہلی سے قادیان سدا سرحد بس کے ذریعے آئیں۔

طاہرہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے دور میں فون کالز اور خطوط کے ذریعے ہی رابطہ ممکن ہوتا تھا۔ لیکن اب انٹرنیٹ کے ذریعے بات چیت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔‘

BBC

طاہرہ کے مطابق جویریہ خانم انڈیا آئی تھیں اور جلد ہی ان کی شادی ہو جائے گی لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ ان کے والدین انڈیا نہیں آ سکے۔

انھوں نے کہا کہ ایک خاتون ہونے کے ناتے وہ اس بات کو زیادہ سمجھتی ہیں۔ طاہرہ کے مطابق لڑکی کی رخصتی ان کے والدین کے گھر سے ہونی چاہیے۔

انھوں نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ شادی شدہ جوڑے کے لیے ویزا کے عمل میں آسانی پیدا کریں کیونکہ ’محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘۔

BBCمدد کیسے کی جائے

مقبول احمد کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کے چرچے کی وجہ سے جوڑے ان سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔

وہ ویزا کے کاغذی کام کو مکمل کرنے اور پھر انڈیا آمد پر ویزا کی توسیع سے متعلق مدد فراہم کرتے ہیں۔

مقبول احمد بتاتے ہیں کہ انڈیا میں شادی کرنے کے بعد انڈین شہریت حاصل کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور لوگ ان سے معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں۔

BBC

قادی کی رہائشی ماہی بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پاکستانی لڑکے سے رابطے میں آئیں اور اب اس سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔

ماہی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ لڑکا پہلے انڈیا آئے اور وہاں شادی کرے لیکن انڈیا کا ویزا ان کے دوست کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے جس میں مقبول احمد ماہی کی مدد کر رہے ہیں۔

مقبول احمد ماہی کے دوست شندے اور ان کے والدین کو انڈیا آنے کے لیے کاغذات بھیج رہے ہیں تا کہ ماہی کی شادی ممکن ہو سکے۔

چمڑے کے تھیلے کا کاروبار کرنے والی ماہی نے بتایا کہ وہ گذشتہ دو سال سے شندے کے ویزے سے متعلق پریشان ہیں، جس کی وجہ سے شادی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More