بالی وڈ کی اداکارائیں اور معروف انڈین شخصیات ڈیپ فیک پورن بنانے والوں کے نشانے پر کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 24, 2023

Getty Imagesبالی وڈ اداکارہ سمرتی مندانا

ایک بالی وڈ سٹار کو کیمرے کی طرف فحش اشارے کرتے جبکہ دوسرے کو انتہائی کم لباس میں پوز دیتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بس اتنی سی بات ہے کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔

یہ ڈیپ فیک ویڈیوز کے سلسلے کی تازہ ترین ویڈیوز ہیں جو حالیہ ہفتوں میں وائرل ہوئی ہیں۔

اداکارہ رشمیکا مندانا، پرینکا چوپڑا جوناس اور عالیہ بھٹ ان بالی وڈ سٹارز میں شامل ہیں جنھیں ایسی ویڈیوز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں ان کے چہرے یا آواز کی جگہ کسی اور کے چہرے یا آوازیں تھیں۔

ایسی ویڈیوز بنانے کے لیے تصاویر اکثر سوشل میڈیا پروفائلز سے لی جاتی ہیں اوران کی رضامندی کے بغیر استعمال کی جاتی ہیں۔

تو بالی وڈ ڈیپ فیکس میں اضافے کے پیچھے کیا ہے؟

ڈیپ فیکس ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور مشہور شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشیل انٹلیجنس (اے آئی) کی ماہر آرتی سامانی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ابھی تک ہالی وڈ اس کا خمیازہ بھگت رہا تھا' اور یہ کہ ہائی پروفائل متاثرین میں نٹالی پورٹ مین اور ایما واٹسن جیسی اداکارہ شامل ہیں۔

لیکن انھوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت میں حالیہ پیش رفت نے لوگوں کی جعلی آڈیو اور ویڈیو بنانا اور بھی آسان بنا دیا ہے۔

مز آرتی نے کہا: 'گذشتہ چھ ماہ سے لے کر ایک سال کے دوران یہ ٹولز بہت زیادہ نفیس ہو گئے ہیں اور یہ اس بات کی وضاحت ہیں کہ ہم دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کے مواد دیکھ رہے ہیں۔

'اب بہت سے ٹولز دستیاب ہیں، جو آپ کو بہت کم یا بغیر کسی قیمت کے حقیقت پسندانہ مصنوعی تصاویر بنانے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور اس تک رسائی بھی عام ہے۔'

سمانی نے بتایا کہ انڈیا میں اس طرح کے مواد کے لیے کچھ منفرد عوامل بھی ہیں، جن میں نوجوانوں کی بڑی آبادی، سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال، اور 'بالی وڈ سے دلچسپی اور مشہور شخصیات کی ثقافت کا جنون' شامل ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'اس کے نتیجے میں ویڈیو کلپس تیزی سے پھیلتے ہیں، مسئلے کو بڑھاتے ہیں' اور اس طرح کی ویڈیوز کا محرک دگنا ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'بالی وڈ کی مشہور شخصیات کا مواد ایک پرکشش کلک بیٹ بناتا ہے، جس سے اشتہارات کی بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ ایسے انجان لوگوں کا ڈیٹا بیچنے کا بھی امکان ہوتا ہے جو اس مواد میں موجود ہوتے ہیں۔'

Getty Imagesاداکارہ پرینکا چوپڑا'انتہائی خوفناک'

اکثر جعلی تصاویر کو فحش ویڈیوز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن جعلی ویڈیوز تقریباً کسی بھی چیز سے بن سکتی ہیں۔

حال ہی میں 27 سالہ اداکارہ مندانا کی شکل والی ایک ویڈیو انسٹاگرام پر نظر آئی تھی جس میں کسی دوسری خاتون کا سیاہ لباس میں جسم دکھائی دے رہا تھا۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، لیکن حقائق کی جانچ کرنے والے پلیٹ فارم آلٹ نیوز کے ایک صحافی نے اطلاع دی کہ یہ ویڈیو ڈیپ فیک تھی۔

رشمیکا مندانا نے اس واقعے کو 'انتہائی خوفناک' قرار دیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس طرح کے مواد کو شیئر نہ کریں۔

میگا سٹار پرینکا چوپڑا جوناس کی بھی ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی تھی۔ اس معاملے میں ان کے چہرے کو تبدیل کرنے کے بجائے ان کی آواز کا استعمال کیا گيا اور اس کے ذریعے ایک برانڈ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے خیالات بھی پیش کیے گئے تھے۔

اداکارہ عالیہ بھٹ بھی اس طرح کے ویڈیو سے متاثر ہوئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں ان کے چہرے کا استعمال کیا گیا ہے جو مختلف فحش اشارے کرتی ہے۔

ان کے علاہ اداکارہ کترینہ کیف سمیت دیگر ستاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے معاملے میں فلم 'ٹائیگر 3' کی ایک تصویر جس میں وہ تولیے میں نظر آتی ہیں کو ایک مختلف لباس سے بدل دیا گیا اور اس طرح جسم کے زیادہ حصے کو کھلا دکھایا گیا ہے۔

اے آئی سے صرف بالی وڈ اداکارہ ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں بلکہ حال ہی میں دوسروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں معروف انڈین صنعت کار رتن ٹاٹا بھی ہیں جن کی سرمایہ کاری کے مشورے دیتے ہوئے ایک ڈیپ فیک ویڈیو بنائی گئی ہے۔

خواتین نشانے پر

لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کے تحت خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ریسرچ فرم سینسیٹی اے آئی کا تخمینہ ہے کہ تمام ڈیپ فیکس میں سے 90 فیصد سے 95 فیصد کے درمیان فحش ہیں۔ ان میں سے اکثریت میں خواتین کو نشانہ بنایا گيا ہے۔

انڈین ٹیکنالوجی سروسز اور کنسلٹنگ کمپنی وپرو کی عالمی چیف پرائیویسی آفیسر ایوانا بارٹولیٹی نے کہا: 'مجھے اس سے خوف آنے لگا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا: ’خواتین کے لیے یہ خاص طور پر پریشانی کا باعث ہیں کیونکہ اس میڈیا کو فحش اور تشدد کی تصاویر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس کے لیے ایک مارکیٹ موجود ہے۔

'یہ ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے، اور یہ ان ٹولز کی تیزی سے پھیلاؤ اور دستیابی کے سبب ہے اور یہ سب اب بہت حیران کن ہے۔'

مز سمانی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ فیکس کا مسئلہ 'خواتین کے لیے یقینی طور پر بدتر ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'خواتین کو اکثر خوبصورتی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے، اور خواتین کے جسموں کو مصنوعات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

'ڈیپ فیکس اس کو مزید آگے لے جاتے ہیں۔ ڈیپ فیکس کی غیر متفقہ نوعیت خواتین کو ان کے جسموں کی پر وقار تصویر کشی اور خودمختاری کو ختم کرتی ہے۔ یہ طاقت کو مجرموں کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔'

کارروائی کا مطالبہ

جیسے جیسے ڈیپ فیک ویڈیوز پھیلتے جا رہے ہیں حکومتوں اور ٹیک کمپنیوں کو ایسے مواد پر لگام لگانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

حکومت ہند اپنی طرف سے عام انتخابات کے سال کی طرف بڑھتے ہوئے ڈیپ فیکس کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

مندانا کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک کے آئی ٹی وزیر راجیو چندر شیکھر نے ڈیپ فیکس کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا: 'یہ غلط معلومات کی تازہ ترین اور اس سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ شکل ہیں اور پلیٹ فارمز کے ذریعے ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔'

انڈیا کے آئی ٹی قوانین کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ 'کسی بھی صارف کی طرف سے کوئی غلط معلومات پوسٹ نہ کی جائے۔'

جو پلیٹ فارم اس کی تعمیل نہیں کرتے انھیں انڈین قانون کے تحت عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے۔

لیکن مز بارٹولیٹی نے کہا کہ یہ مسئلہ کہیں زیادہ وسیع ہے، دنیا بھر کے ممالک اس مسئلے سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'یہ صرف بالی وڈ کے اداکار نہیں ہیں۔ ڈیپ فیکس سیاست دانوں، کاروباری لوگوں اور دیگر کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سی حکومتوں نے انتخابات میں جمہوری عملداری جیسے ڈیپ فیکس کے دیگر چیزوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار شروع کر دیا ہے۔'

انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جوابدہ ہونے کی ضرورت ہے، اور انھیں فعال طور پر ڈیپ فیکس کی شناخت اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مز سمانی نے کہا کہ مردوں کا اتفاق بھی اس مسئلے سے نمٹنے میں 'بہت اہم کردار' ادا کرتا ہے۔

انھوں نے کہا: 'متاثرین بجا طور پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن بہت کم مرد اس مسئلے کے خلاف بول رہے ہیں۔'

'مردوں کی طرف سے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More