Getty Images
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا اور اس فیصلے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بَلے سے محروم ہو گئی۔
اس فیصلے کے ردِعمل میں تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹرگوہر علی نے اس کو پی ٹی آئی کے خلاف سازش قراردیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
جیسے ہی یہ فیصلہ آیا سماجی و سیاسی حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملی کہ اب پی ٹی آئی کا بطور پارٹی مستقبل کیا ہو گا؟
اس بحث کا اِس وقت میں ایک منطقی جواز بھی ہے کیونکہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ جاری ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔
اب اگر پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے اس ضمن میں کوئی ریلیف نہیں ملتا تو یہ الیکشن میں انتخابی نشان سے محروم ہو جائے گی اور اس کے اُمیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد چند حلقوں سے یہ بحث بھی سننے کو ملی کہ اگر پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی سے بھی ماضی میں تلوار کا نشان چھینا جا چکا ہے تاہم یہاں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخی طور پر اگر ایسا کچھ ہوا تو کیوں ہوا اور الیکشن کمیشن کے تازہ فیصلے سے اُن تاریخی واقعات اور فیصلوں کی مماثلت کیا بنتی ہے؟
مزید براں کیا ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے اندرونی انتخابات کو کالعدم قراردیا گیا؟
لیکن اس ساری صورتحال میں اہم ترین بات یہی ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں رہی اور اگر کوئی ریلیف نہیں ملتا تو پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشن ہیں اور نقصانات کی نوعیت کیا ہو گی؟
Getty Imagesجب پیپلز پارٹی کو تلوار کے نشان سے محروم کیا گیا
پیپلز پارٹی کا اولین انتخابی نشان تلوار تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے تمام الیکشن تیر کے انتخابی نشان پر لڑے تھے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بھی پیپلزپارٹی تیر کے نشان پر لڑے گی۔
لیکن سنہ 1977 کے الیکشن کے بعد جب ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی پر کڑا وقت آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جو پیپلز پارٹی کے بانی تھے، پھانسی چڑھا دیے گئے اور ضیا کے دور میں جب 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوئے تو انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان ہی نہیں تھا۔
صاف ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کو تلوار کے نشان سے محروم کر کے جماعت کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بعد ازاں جب 1988 میں الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی نے تیر کا نشان حاصل کیا کیونکہ اُس وقت بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان نہیں تھا لیکن بعد میں پیپلزپارٹی کے پاس تیر اور تلوار دونوں انتخابی نشان آ گئے۔
ظفراللہ خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے جب سنہ 1988 کا الیکشن لڑا تو دستیاب انتخابی نشانوں میں تیر کا نشان موجود تھا، جو اُس کو الاٹ ہوا اور تب سے یہ جماعت تیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ بہت بعد میں پھر اِس جماعت کو تلوار کا نشان بھی واپس مل گیا۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2017 میں جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو نا اہل کیا تو اُن کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا کہ سزا یافتہ شخص پارٹی چیف نہیں ہو سکتا۔
یوں نوازشریف پارٹی سربراہ نہیں رہے تھے اور نہ اُن کے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں جاری کردہ ٹکٹ رکھنے والے اُمیدوار آزاد تصور ہوئے تھے۔
Getty Imagesپیپلزپارٹی کا اولین انتخابی نشان تلوار تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے تمام الیکشن تیر کے انتخابی نشان پر لڑے تھےماضی میں کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم ٹھہرایا گیا؟
انٹرا پارٹی الیکشن کو قانونی حیثیت کب ملی اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن کتنے ضروری ہیں؟ ان بارے میں انتخابی و آئینی اُمور کے ماہر ظفر اللہ خان نے بتایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی شق سنہ 2002 میں آئی۔
’اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ پارٹی اکاؤنٹس دیں اور الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹریشن کروائیں۔ یہ سنہ 1962 کا قانون تھا۔ اس کو بے نظیر بھٹو نے چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ سنہ 2002 کا آرڈر اس بارے میں وضاحت کرتا ہے کہ آپ کیا کریں گے تو آپ کو پارٹی نشان ملے گا یعنی آپ کیپارٹی کا آئین ہو، نام ہو۔
’سنہ 2017 کے ایکٹ میں اُس کے لیے ممبر شپ کی شرط اور فیس بھی رکھ دی گئی۔ لہذا تاریخ میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کیا گیا ہو۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن مسترد کر دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔‘
تلوار اور بلے کا نشان ختم ہونے میں کوئی مماثلت؟
جیسے ہی الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا تو کہا جانے لگا کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں کیونکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی بھی اپنے نشان سے محروم ہوئی تھی۔
جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی کی تو یہ آنے والے دِنوں میں ہی واضح ہو گا کہ پی ٹی آئی کے پاس یہ نشان رہتا ہے یا نہیں کیونکہ پی ٹی آئی رہنما الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے اپنے انتخابی نشان سے محروم ہونے میں کوئی مماثلت ہے؟
تو جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا کہ ضیادور میں انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان غائب کر دیا گیا جبکہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کے کالعدم ہونے کی بنیاد پر ہوئی۔
انتخابی و آئینی اُمور کے ماہر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ ہوا تھا کہ سنہ 1985 کےانتخابات ہوئے تو دستیاب لسٹ میں سے تلوار کا نشان ہی ختم کر دیا گیا تھا، اس لیے نہ تو پارٹی یہ نشان لے سکتی تھی اور نہ ہی انفرادی سطح پر کوئی اُمیدوار۔
ظفر اللہ خان کے مطابق لیکن گذشتہ روز الیکشن کمیشن کے فیصلے میں بلا انتخابی نشان کے طورپر موجود ہے۔
’اس نشان کو آزاد اُمیدوار کے ساتھ ساتھ کوئی سیاسی جماعت جس کو کوئی نشان ابھی تک نہیں ملا، وہ بھی لے سکتی ہے۔ اگر ہم تلوار اور بلے کے نشان ختم ہونے کا کوئی موازانہ کریں تو یہ نہیں بنتا۔‘
ظفر اللہ خان کے موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ مخصوص نشان کوئی دوسری جماعت اور سیاسی اُمیدوار بھی لے سکتا ہے لیکن اس کے امکانات کتنے ہیں؟
اس بارے میں ظفراللہ خان کہتے ہیں کہ ’میرا خیال یہی ہے لیکن یہ غلط بھی ہو سکتا ہے، اس وقت یہ نشان دستیاب ہے اور کوئی دوسرا شخص یا جماعت بھی لے یہ نشان سکتی ہے۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن بلے کے نشان کو انتخابی فہرست سے نکال دے۔‘
کیا پی ٹی آئی کے پاس ہمیشہ سے بَلے کا انتخابی نشان رہا ہے؟
کالم نگار و مصنف قیوم نظامی نے نوائے وقت میں مئی 2013 میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے ترازو کے انتخابی نشان کے لیے درخواستیں دائر کرائیں۔
تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کے نام کی مناسبت سے ترازو کا مطالبہ کیا جبکہ جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ وہ 1970 کے انتخابات میں ترازو کے نشان پر حصہ لے چکی ہے۔
الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کا موقف تسلیم کر لیا اور تحریک انصاف نے بلا الاٹ کرایا۔
اس ضمن میں ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ ’جب تحریکِ انصاف بنی تو اُس کے بعد 1997 کے الیکشن میں اس جماعت کا انتخابی نشان چراغ تھا۔ بعد میں بلے کا نشان، کرکٹ ورلڈ کپ کے ساتھ جوڑ کر لے لیا گیا کیونکہ یہ نشان دستیاب تھا۔‘
پی ٹی آئی کی بطور سیاسی جماعت حیثیت کیا؟
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر منظور شدہ انتخابی نشانات کی فہرست موجود ہے اور اسی میں سے سیاسی جماعتیں نشان لیتی ہیں اور جو نشان بچ جاتے ہیں وہ آزاد اُمیدوار لیتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد اور مزید کسی عدالتی کارروائی تک کیا پی ٹی آئی کی حیثیت سیاسی جماعت کے طورپر موجود ہے؟
ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی الیکشن کمیشن میں درج سیاسی جماعت کے دائرہ سے خارج ہو چکی ہے۔
’اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی ایک ایسی پارٹی ہے، جس کو الیکشن کمیشن پارٹی تصور نہیں کرتا۔ ایکٹ میں جو شرائط ہیں، اُس کے مطابق پارٹی کا آئین ہو، نام ہو، مخصوص تعداد میں ممبر ہوں، فیس جمع کروائی ہو اور پارٹی کے انتخابات کروائے ہوں۔ اس سب کے بعد ہی آپ کو مجموعی طورپر انتخابی نشان الاٹ ہوتا ہے۔‘
ظفر اللہ خان نے مزید کہا کہ انتخابی نشان کے اپنے فائدے ہیں۔ ’ایک فائدہ یہ کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے نام دے سکتے ہیں۔ اگر انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑا جائے گا تو مخصوص نشستوں کے لیے نام نہیں دیے جا سکتے۔‘
لیکن اگر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف رجوع کر کے بھی ریلیف نہیں ملتا تو پی ٹی آئی کی سیاست کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس کے امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اتریں گے۔ مقامی امیدواروں میں کھینچا تانی شروع ہو سکتی ہے، ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے دعوے دار کئی اُمیدوار سامنے آ کر ووٹرز کو کنفیوز کرسکتے ہیں۔ بَلے کا نشان نہ ہونے پی ٹی آئی کو ووٹرز کو کوئی مجموعی پیغام دینے کا وسیلہ نہیں رہے گا۔