Getty Images
گذشتہ جمعہ کی شام سپریم کورٹ اچانک کھلنے کے بارے میں خبریں آنا شروع ہوئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی سکرینوں پر وہاں ہونے والی ایک سماعت کی لائیو نشریات کا آغاز ہوا۔
یہ سماعت لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ملک میں فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بیوروکریٹس کی بطور انتخابی عملہ تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کے فیصلے کے ردِعمل میں ہو رہی تھی۔
لاہور ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست اس لیے دائر کی گئی تھی کیونکہ سابقہ حکمراں جماعتکو بیوروکریٹس کے بطور انتخابی عملہ تعینات ہونے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تحفظات تھے۔
لاہور ہائیکورٹ میں اس درخواست پر سماعت اور آنے والے فیصلے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ آفیسرز اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کے انتخابات سے متعلق تربیتی عمل کو بھی روک دیا تھا۔
ایسے میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس کی جانب سے تحریکِ انصاف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا اور پھر لاہور ہائی کورٹ کا آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا حکم معطل کر کے الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
تاہم اس تمام صورتحال کے دوران جو چیز کسی حد تک ابہام کا شکار رہی وہ یہ تھی کہ وقت پر انتخابات کی خواہاں تحریکِ انصاف کی جانب سے یہ درخواست دائر کیوں کی گئی جس کے نتیجے میں انتخابات میں تاخیر کا خدشہ تھا اور ان کو اس بارے میں خدشات کیا تھے۔
لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست کے مطابق پی ٹی آئی کو تشویش تھی کہ ایگزیکٹیو افسران یعنی بیوروکریٹس کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں شفافیت کا قطعی امکان نہیں۔ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے بارہا یہ بات کی جاتی رہی ہے کہ انتخابات کو عدلیہ کی نگرانی میں کروایا جانا چاہیے کیونکہ بیوروکریٹس کی جانب سے انھیں مبینہ طور پر پہلے ہی جانبداری کا سامنا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردِعمل میں پی ٹی آئی چیئرمین گوہر علی خان نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں، مگر سپریم کورٹ کا احترام ہے۔ شفاف الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسران کا شفاف ہونا ضروری ہے۔‘
پی ٹی آئی کی اس درخواست اور آر اوز سے متعلق تحفظات کو دوسری سیاسی جماعتوں نے ’الیکشن سے بھاگنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
تاہم پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سنہ 2013 اور 2018 دونوں ہی انتخابات میں دھاندلی کی گونج سنائی دی گئی۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے اسے ’آر اوز کا الیکشن‘ قرار دیا گیا تھا جبکہ خود تحریکِ انصاف کی جانب سے اس سلسلے میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر کئی ماہ پر محیط دھرنا دیا گیا تھا۔
ایسے میں آئیے پہلے جانتے ہیں کہ آر اوز اور ڈی آر اوز کے پاس ایسے کون سے اختیارات ہوتے ہیں جن کے باعث انھیں الیکشن کے عمل میں اتنی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور پھر تجزیہ کاروں سے جانتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کے اس حوالے سے خدشات میں واقعی جان ہے یا نہیں؟
ریٹرننگ آفیسرز کا الیکشن کے انعقاد میں کیا کردار ہوتا ہے اور وہ کتنے بااختیار ہوتے ہیں؟Getty Images
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن پچاس کے تحت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور اسی قانون کے سیکشن 51 کے تحت الیکشن کمیشن ریٹرننگ افیسرز اور ایڈیشنل ریٹرننگ آفیسرز تعینات کرتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو ڈی آر او کہلاتا ہے اور وہ پورے ضلع میں الیکشن کا نگران ہوتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر صوبائی الیکشن کمشنر کو رپورٹ کرتا ہے۔ ضلعی سطح پر ڈی آر او کے ماتحت الیکشن کے انعقاد کے لیے جو عملہ کام کر رہا ہوتا ہے یہ افسر دراصل ان کے اورالیکشن کمیشن کے مابین رابطے کا کردار ادا کرتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اپنے ماتحت ریٹرننگ آفیسر سے الیکشن کے نتائج حاصل کر کے الیکشن کمیشن تک پہنچاتا ہے۔
اس دوران ڈی آراو الیکشن کے قواعد و ضوابط پر عمل کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ ڈی آراو اس ضمن میں الیکشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزااور جرمانہ کر سکتا ہے۔
ڈی آر او کے بعد آر او یعنی ریٹرننگ آفیسرز آتے ہیں۔ یہ انتخابی نتائجکو جمع کر کے ڈی آر او کو بھیجتے ہیں۔ پولنگ سٹیشنز کا عملہ آر او کا ماتحت ہوتا ہے۔
ان کا دائرہ اختیار اپنے اپنے حلقوں میں پولنگ کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ آر او کو پریزائڈنگ آفیسر نتائج جمع کر کے مہیا کرتا ہے۔
ریٹرننگ آفیسر کو جہاں ضرورت پڑے وہ مجسٹریٹ کے اختیارات کو بھی استعمال میں لا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کا مؤقف کیا ہے؟Getty Images
اگر اس وقت زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان تحریکِ انصاف ہی وہ جماعت ہے جسے الیکشن سے قبل شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے اہم رہنما یا جیل میں ہیں یا پھر روپوش ہو چکے ہیں جبکہ کارکنان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اسی طرح مقامی سطح پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدوار یا تو روپوش ہیں یا گرفتار کیے جا چکے ہیں اور جو اپنے حلقے میں موجود ہیں وہ سیاسی سرگرمیوں سے گریز کر رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق ماضی میں پاکستان کا انتخابی عمل دھاندلی کے الزامات سے اس قدر دھندلا چکا ہے کہ انتخابی عملہ چاہے عدلیہ سے لیا جائے یا انتظامیہ سے اس پر ہمیشہ سے ہی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی ایگزیکٹیو افسران کے بطور الیکشن عملہ تعیناتی پر اس قدر معترض کیوں ہے اور اس حوالے سے عدلیہ سے ہی کیوں انتخابی عملہ لینا چاہتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین دعویٰ کرتے ہیں کہ ’انتظامیہ الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ ملا ہوا ہے۔‘
’یہی انتظامیہ ہمارے کارکنان کو پکڑ رہے ہیں، اُن کے خلاف مقدمات ہو رہے ہیں، ہم کیسے مان جائیں کہ یہ شفاف الیکشن کروائیں گے؟‘
انھوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ میں بھی کچھ لوگ کمپرومائز کرنے والے ہوتے ہیں مگر اُن کی نگرانی میں الیکشن ہوئے تو قدرے شفاف ہو سکتے ہیں۔‘
’الیکشن سے بھاگنے کا دوسری پارٹیوں کا اعتراض جھوٹا ہے‘Getty Images
پی ٹی آئی کی موجودہ الیکشن حکمتِ عملی پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت جماعت کی جانب سے وکلا برادری کو زیادہ سے زیادہ سامنے لا کر نچلی سطح پر پھیلے ہوئے خوف کو کسی حد تک ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں وکلا کسی حد تک دوسرے اُمیدواروں کی نسبت بہتر طور پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اس تناظر میں پی ٹی آئی کو جماعت کی ’مقبولیت‘ کی بنیاد پر ووٹرز کے گھروں سے نکلنے کی اُمید ہے اور یہی وجہ ہے انھیں خدشہ ہے کہ کیونکہ انھیں الیکشن سے پہلے ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہیں مل رہی تو الیکشن کے روز بھی کہیں ان کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کی جائے۔
پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ’الیکشن سے بھاگنے کا دوسری پارٹیوں کا اعتراض جھوٹا ہے۔ ہم تو تین بار الیکشن مانگنے عدالتوں میں جا چکے ہیں۔ ہماری ہی درخواست پر آٹھ فروری کی تاریخ ملی تھی۔‘
’مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری تو کہہ چکے ہیں کہ الیکشن آگے ہوں۔ مگر ہم نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔‘
کیا پی ٹی آئی کے خدشات میں وزن ہے؟Getty Images
اس بارے میں سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی بیوروکریٹس کے حوالے سے تشویش سو فیصد جینوئن ہے۔ پارٹی پر مقدمات ہیں، انتظامیہ میں اُن کے اپنے لوگ ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے ہمیشہ لوگ عدلیہ سے آتے رہے ہیں، عوام کے اندر جو بظاہر مقبول رہنما ہے وہ اور اس کی سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے تمام راستے طاقت کے بَل پر بند کیے جا رہے ہیں۔‘
دوسری جانب سابق وفاقی سیکریٹری برائے الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا خیال اس کے برعکس ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی تشویش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ماضی کے انتخابات کو دیکھیں تو وہ متنازع ہی ٹھہرے ہیں، چاہے ریٹرننگ آفیسرز جہاں سے مرضی لیے جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’2013 کے الیکشن مکمل طور پر عدلیہ کے زیر اہتمام ہوئے تھے مگر پاکستان تحریکِ انصاف نے بعد میں انھیں دھاندلی زَدہ قرار دے کر دھرنا دیا۔‘
ٗکنوردلشاد کہتے ہیں کہ ’1988 سے انتخابات عدالتی افسران کی نگرانی میں ہوتے چلے آ رہے ہیں مگر اُن کے کردار پر ہمیشہ سوالات ہی اُٹھتے رہے ہیں۔‘
اس بارے میں تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی انتخابی تاریخ میں متاثرہ جماعتوں کی جانب سے انتخابی عملہ پر شک و شبہمیں وزن ہوتا ہے۔‘
’پاکستان میں ضلعی انتظامیہ کے ملازمین ریاست کے ملازمین ہوتے ہیں لیکن وہ بظاہر سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں بھی آ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ کے ملازمین کے مفادات بھی ہوتے ہیں لہٰذا یہ خود بھی جانبدار اور سیاسی ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف متاثرہ ہے اور اس کی شکایات جائز ہیں۔‘
ضیغم خان کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف نے پہلے ایسی ہی صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ ڈسکہ انتخابات کی مثال آپ کے سامنے ہے لہٰذا تحریک انصاف کو معلوم ہے کہ انتظامیہ کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن بات یہ ہے کہ انتخابات ریاست کے ملازمین ہی کروا سکتے ہیں ان کے علاوہ اور کون آئے گا، ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
’پاکستان میں عدلیہ کے افسران کو بھی لا کر ایک تجربہ کیا گیا لیکن وہ بھی متنازعہ رہا۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی آتا ہے کہ عدلیہ جب خود انتخابات کروائے گی تو اس کے خلاف شکایت کون سنے گا۔‘