52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش معیشت کے شعبے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 16, 2023

Getty ImagesGetty Images

14 اگست 1947 کے دن برطانوی راج سے آزادی کے بعد پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں نے آزادی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا۔ تاہم دونوں حصوں کے درمیان اگلے 10-12 برس میں سماجی اور معاشی فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔

اس بارے میں جی ڈبلیو چوہدری اپنی تصنیف Last Days of United Pakistan میں لکھتے ہیں کہ ’1960 میں مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی مشرقی پاکستان کے باسیوں کی فی کس آمدنی سے 32 فیصد زائد تھی اور اگلے 10 سال میں یہ فرق 81 فیصد تک چلا گیا۔‘ واضح رہے جی ڈبلیو چوہدری پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں وزیر تھے۔

16 دسمبر 1971 کو جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں معرض وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے معاشی اشاریوں میں بہت زیادہ فرق تھا جس میں ملک کی معاشی ترقی کی شرح نمو، ملکی معیشت کا حجم، فی کس آمدن، برآمدات وغیرہ شامل تھی۔ پاکستان کو اس وقت بنگلہ دیش پر کافی سبقت حاصل تھی۔

تاہم گذشتہ دو عشروں میں بنگلہ دیش میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی وجہ سے آزادی کے 52 برس بعد بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے پاکستان سے بہت زیادہ بہتر ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش نے گذشتہ 52 برس میں معاشی شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی بیرونی تجارت کو جہاں ایک جانب بڑھایا تو دوسری جانب وہاں غربت کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی جبکہ خواتین کی معاشی شعبے میں ترقی پاکستان سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ایک جانب صنعتی ترقی کا پہیہ تھم گیا تو دوسری جانب ملک نے بیرونی تجارت، جی ڈی پی گروتھ، فی کس آمدن اور غربت کے شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال کا 52 برس بعد موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش کچھ شعبوں میں پاکستان سے کافی آگے نکل چکا ہے جس میں خاص کر گارمنٹس برآمدات کا شعبہ ہے جس میں اس وقت بنگلہ دیش دنیا میں چین کے بعد سب سے برآمدات والا ملک بن چکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا شمار گارمنٹس ایکسپورٹ کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔

بنگلہ دیش کی گارمنٹس برآمدات کی کامیابی اس لیے بھی حیران کن ہے کہ وہاں پر کپاس کی پیداوار نہیں ہوتی تاہم پاکستان کپاس کی پیداوار کا ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود گارمنٹس کی برآمدات میں بنگلہ دیش سے اس وقت بہت پیچھے ہے۔

52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے لیے جی ڈی پی، فی کس آمدنی، بیرونی تجارت اور غربت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کا موازنہ دونوں ملکوں کے سرکاری اداروں اور عالمی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار پر کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش اور پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نموGetty Images

16 دسمبر 1971 کو اپنے قیام کے بعد پہلے سال یعنی 1972 میں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی شرح منفی 13 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق اسی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار تقریبا ایک فیصد تھی۔

جنگ کی وجہ سے دونوں خطوں کی معیشت تباہ حال تھی تاہم پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار اگلے سال سات فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی منفی رہی۔

بنگلہ دیش اور پاکستان کا مالی سال ہر سال پہلی جولائی کو شروع ہوتا ہے اور اگلے سال 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ 52 برس کے بعد 30 جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال میں اکنامک سروے کے مطابق پاکستان کی معیشت کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم یعنی 0.29 فیصد رہی۔ دوسری جانب اس مالی سال میں بنگلہ دیش اکنامک ریویو کے مطابقبنگلہ دیش کی معیشت کی ترقی کی شرح چھ فیصد رہی۔

تاہم یہ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتار مسسلسل 12-13 سال سے چھ فیصد سے زائد پر ترقی کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان کی معاشی ترقی گزشتہ 10-12 سال میں تین سے چار فیصد کے درمیان رہی جس میں دو سال تو یہ ایک فیصد سے بھی کم رہی۔

اس وقت بنگلہ دیش کی معیشت کا حجم 454 ارب ڈالر ہے جب کہ پاکستان کی معیشت کا حجم 340 ارب ڈالر ہے۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے استاد عدیل ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت کی شرح نمو 1990 میں 0.2 فیصد تھی جس میں اس کے بعد بہتری شروع ہوئی اور اس میں ہر سال اضافہ ہوا جو 2022 تک چھ فیصد کی سطح تک پہنچ گئی۔‘

پاکستان اور بنگلہ دیش کی فی کس آمدن

پاکستان اور بنگلہ دیش میں فی کس آمدن میں بھی گذشتہ 52 برس میں بہت زیادہ فرق آیا۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1972 میں 90 ڈالر تھی جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی فی کس آمدنی 150 ڈالر تھی۔

بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی کا گراف مسلسل اوپر گیا ہے جب کہ پاکستان کی فی کس آمدنی کا گراف اس عرصے میں اوپر نیچے ہوتا رہا۔

پاکستان کے اکنامک سروے کے مطابق گذشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1568 ڈالر رہی۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے اکنامک ریویو کے مطابق اس کے شہریوں کی فی کس آمدنی 2687 ڈالر رہی۔

Getty Imagesپاکستان اور بنگلہ دیش کی برآمدات

پاکستان اور بنگلہ دیش کی بیرونی تجارت کے شعبوں میں کارکردگی بھی گذشتہ 52 برس میں بہت زیادہ تبدیل ہوئی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق 1972 میں بنگلہ دیش کی برآمدات 35 کروڑ ڈالر تھیں جبکہ اس سال پاکستان کی برآمدات بنگلہ دیش کے مقابلے میں تقریباً دوگنی تھیں جو اس وقت ساڑھے 67 کروڑ تھیں۔

تاہم 52 برس میں بنگلہ دیش کی برآمدات کے شعبے میں ترقی حیران کن رہی۔ خاص کر گذشتہ 20 برس میں اس کی گروتھ کافی زیادہ رہی۔ بنگلہ دیش کی برآمدات گزشتہ مالی سال میں مصنوعات اور خدمات کے شعبے میں 64 ارب ڈالر رہیں جن میں 55 ارب ڈالر کی مصنوعات اور نو ارب ڈالر کی خدمات برآمد کی گئیں۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کی گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات 35 ارب ڈالر رہیں جن میں 27 ارب ڈالر کی مصنوعات اور آٹھ ارب ڈالر خدمات برآمد کی گئیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش میں غربت کی سطح

پاکستان اور بنگلہ دیش میں غربت کی سطح کا موازنہ کیا جائے تو گزشتہ 52 برس میں اس میں تبدیلی دیکھی گئی۔

ورلڈ بینک کے مطابق بنگلہ دیش میں غربت کی سطح 2016 میں 13.47 فیصد تھی اور اس کی شرح 2022 میں 10.44 فیصد تک گر گئی۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000 میں بنگلہ دیش میں غربت کی سطح 49 فیصد تھی تاہم دو دہائیوں میں اس کی شرح میں کافی کمی ریکارڈ کی گئی۔

عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں غربت کی شرح 39.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ جب کہ 2018 میں پاکستان میں غربت کی شرح 22 فیصد تھی۔

بنگلہ دیش کی پاکستان پر معاشی سبقت کی کیا وجہ ہے؟Getty Images

موجودہ صدی کے شروع سے لے کر اب تک بنگلہ دیش کی پاکستان پر معاشی میدان میں سبقت کی وجوہات کے بارے میں جب ماہرین اقتصادیات سے پوچھا گیا تو آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے استاد عدیل ملک نے کہا ’اگر موجودہ صدی میں بنگلہ دیش کے ترقی اور پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ دونوں ممالک میں موجودہ اشرافیہ کی سوچ اور وژن کا فرق ہے۔‘

انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں اشرافیہ ہو، چاہے ان کی سیاسی جماعتیں اور بزنس مین، ان کا ایک نکتے پر اتفاق ہے کہ ہم نے ملک میں انڈسٹری کو فروغ دے کر ایکسپورٹ کو بڑھانا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’اس سلسلے میں ان کے ہاں وزیر اعظم سے لےکر فیکٹری میں کام کرنے والا شخص یکسو ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں سیاسی، فوجی اور سول اشرافیہ کا سارا زور رئیل سٹیٹ کے شعبے پر ہے اور ہر شخص اس میں کام کر رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں پاکستان میں بے پناہ بیرونی پیسہ آیا لیکن سارا رئیل سٹیٹ کی نظر ہو گیا اور اسی دوران بنگلہ دیش نے پیداواری شعبے کی طرف توجہ دی اور ہم سے آگے نکل گیا۔‘

عدیل ملک نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں اشرافیہ کا مفاد انڈسٹری سے وابستہ ہے اور پاکستان میں اشرافیہ کا مفاد رئیل سٹیٹ سے وابستہ ہے اور یہی سب سے بڑا فرق ہے جس نے دونوں ملکوں میں گزشتہ 20 برس میں مختلف معاشی صورتحال کو پیدا کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسری ایک وجہ جو بنگلہ دیش کو پاکستان اور انڈیا کےمقابلے میں نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں ایک تو لینڈ ریفارمز کر کے زمینداری نظام ختم کر دیا گیا دوسرا وہاں پر انڈیا کی طرح ذات پات کا نظام نہیں ہے۔‘

’وہاں ایک فیکٹری کے مالک سے لے کر اس کے مزدور کا سماجی رتبہ برابر ہے اور وہاں اگر کل کوئی مزدور ترقی کر کے فیکٹری لگا لے تو اس کے لیے مواقع موجود ہیں۔‘

عدیل کے مطابق بنگلہ دیش میں تعلیم کا نظام یونیورسلائز کر دیا گیا کہ وہاں ہر ایک کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔

’اس لیے آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان میں اس وقت دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جب کہ بنگلہ دیش میں ایسے بچوں کی تعداد صرف 72000 کے لگ بھگ ہے۔‘

عدیل نے کہا ’سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورتحال ہے جس کی وجہ سے وہاں معیشت کی گروتھ ممکن ہوئی جبکہ دوسری طرف پاکستان مسلسل تین چار دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کا شکار ہے جس نے معیشت کو بری طرح بٹھا دیا اور پاکستان میں پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان رہا۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ماہر معیشت ڈاکٹر حفصہ حنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں بہت سے چیلنج رہے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ایکسچینج ریٹ کا ہے جسے ہمیشہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی اور جس نے پاکستان کے برآمدی شعبے کو بری طرح نقصان پہنچایا۔‘

’اسی طرح ملک میں انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے ٹیرف بہت زیادہ رکھے گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کی انڈسٹری بین الاقوامی مقابلے کے لیے تیار نہ ہو سکی۔ مقامی کھپت پر انحصار کیا جس کی وجہ سے برآمدات کا شعبہ ترقی نہ کر سکا ۔ دوسری جانب پاکستان میں انرجی کی قیمتوں نے انڈسٹری پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کیے جس کی بنیاد پر یہ اس قابل نہ ہو سکی کہ دنیا میں مسابقتی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔‘

بنگلہ دیش کو گارمنٹس برآمدات کے شعبے میں پاکستان پر برتری کیسے ہوئی؟Getty Images

گذشتہ دو دہائیوں میں بنگلہ دیش نے جس شعبے میں بے پناہ ترقی سے سب کو حیران کیا ہے وہ اس کی گارمنٹس کے شعبے میں ترقی ہے۔ بنگلہ دیش نے گذشتہ سال دنیا میں 42 ارب ڈالر کی گارمنٹس ایکسپورٹ کیں جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی گارمنٹس برآمدات 10 ارب ڈالر رہیں۔

گارمنٹس کے شعبے میں بنگلہ دیش دنیا میں چین کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔

پروفیسر عدیل کے مطابق صرف گارمنٹس کے شعبے میں بنگلہ دیش میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔

دنیا کے دوسرے ملکوں کے علاوہ پاکستان سے بھی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی گئی۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک گارمنٹس شعبے کے صنعت فرخ اقبال کا بھی بنگلہ دیش میں کام ہے اور ان کا ایک آفس وہاں کام کر رہا ہے۔

بی بی سی سے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ ’سب سے بڑی وجہ تو وہاں پر امن و امان کی بہتر صورت حال ہے کہ وہ پستول کا لائنسس بھی کسی کو نہیں دیتے۔ دوسرا وہاں پر برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے جس کی ایک مثال ہے کہ اگر وہاں کوئی بیرونی سرمایہ کار آئے تو اس کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔‘

انھوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر بتایا کہ ’وہاں پر لیبر بہت سستی ہے اور ان کی کوالٹی آف پراڈکٹ بہت اچھی ہے اور گیس اور بجلی کی فراہمی مسلسل ہے اور سستی ہے۔‘

سندھ سے بنگلہ دیش میں گارمنٹس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے عدنان ظفر نے بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں صنعت کی سہولت کاری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہاں بجلی و گیس و پانی کے کنکشن دو دن میں مل جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں اول تو اس وقت گیس کا کنکشن ملتا نہیں ہے اور بجلی کا کنکشن لینے میں دو سال لگ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا وہ پاکستان سے بیٹھ کر اپنی فیکٹری کا کام بنگلہ دیش میں آن لائن کے ذریعے دیکھ رہے ہیں اور انھیں ابھی تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

پاکستان میں گارمنٹس سیکٹر کے برآمد کنندگان کی تنظیم کے سابق چیئرمین اعجاز کھوکھر نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے گارمنٹس سیکٹر میں آگے نکلنے کی ایک وجہ تو ان کی پراڈکٹ لائن ہے۔

’وہ اس شعبے میں بہت زیادہ مصنوعات بنا رہے ہیں جبکہ ہم صرف ابھی تک چار پانچ پراڈکٹ ایکسپورٹ کر سکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں شرٹس خاص کر لیڈیز شرٹس بہت کم بنتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش لیڈیز انڈر گارمنٹس میں بہت آگے جا چکا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’سب سے زیادہ فرق ان کی ورک فورس ڈال رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹس شعبے کی ورک فورس میں 80 فیصد خواتین ہیں جب کہ مردوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’خواتین آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں ساڑھے سات گھٹنے کام کرتی ہیں جب کہ دوسری جانب مردوں میں یہ شرح پانچ سے چھ گھنٹے کے درمیان ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں گارمنٹس شعبے کی ورک فورس میں خواتین صرف 10 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں گارمنٹس کے بڑے کارخانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے جب کہ پاکستان میں صرف سات فیصد ہے۔‘

پاکستان میں خواتین کی صنعتی شعبے میں کام کرنے کے بارے میں ڈاکٹر حفصہ نے کہا کہ ’بنگلہ دیش کی کہانی بہت متاثر کن ہے تاہم پاکستان میں اس کے الٹ ہوتا ہے۔‘

’خواتین کو سرکار کی جانب سے کسی ٹیکنیکل تعلیم کی فراہمی کی بجائے انھیں چند ہزار روپے دے دیے جاتے ہیں جو ہر حکومت مختلف سرکاری سکیموں کے ذریعے دیتی ہے تو ایسی صورت حال میں خواتین کیسے پیداواری نظام کا حصہ بن پائیں گی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More