پاکستان کی سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ان کی برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ملک کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس یا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو نوٹس بھیجتے ہوئے مقدمہ میں فریق بنایا ہے۔
اس مقدمے کا آغاز 2018 میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ایک تقریر سے ہوا تھا جب بطور سینیئر جج اسلام آباد ہائیکورٹ انھوں نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس آئی پر عدالتی کارروائی میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ’آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے انتخابات سے پہلے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز جیل سے باہر نہ آئیں۔‘
اس خطاب کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے انھیں برطرف کر دیا تھا جس کے خلاف شوکت عزیز صدیقی نے اپیل دائر کر رکھی تھی تاہم اس اپیل پر سماعت نہیں ہو سکی۔
حال ہی میں ان کی اپیل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کیا گیا جس کے بعد جمعہ کے دن عدالت میں آئی ایس آئی کے دیگر اہلکاروں سمیت جنرل فیض حمید کا نام بھی سامنے آیا۔
سماعت کے دوران شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ’ان کے موکل سے جنرل فیض حمید خود ملے اور بتایا کہ نواز شریف کو سزا ہو جائے گی۔‘
حامد خان کے مطابق شوکت عزیز صدیقی نے انھیں کہا کہ ’اگر آپ کو یہ پتہ ہے تو آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔ فیض حمید نے پوچھا کہ اگر اپیل آپ کی عدالت میں آئی تو آپ کی کیا رائے ہو گی؟ شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ میں میرٹ پر فیصلہ کروں گا۔ جنرل فیض حمید نے کہا کہ اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‘
شوکت عزیز کے وکیل حامد خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ رہنے والے جنرل فیض حمید سمیت سابق بریگیڈیئر عرفان رامے اور بریگیڈیئر فیصل مروت کو بھی فریق بنانے کی استدعا کی۔
اسی مقدمے کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟‘ اس پر وکیل نے کہا کہ ’یہ الزام فیض حمید پر ہے۔‘
تاہم عدالت نے بعد ازاں جنرل فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کر دیے۔
اس فیصلے کے بعد ایک جانب جہاں لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کا نام ایک بار پھر سے عوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے وہیں ملکی سیاست میں آئی ایس آئی کا کردار بھی زیر بحث ہے۔
لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کون ہیں اور آئی ایس آئی کا انٹرنل ونگ یا سیاسی ونگ کیا ہوتا ہے؟ اس مضمون میں ان نکات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید: تنازعات میں گھرے رہنے والے فوجی افسر
بریگیڈیئر فیض حمید نے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے راولپنڈی کور میں کام کیا۔ بطور میجر جنرل انھوں نے جنرل کمانڈنگ افسر پنوں عاقل ڈویژن کے طور پر کام کیا اور اس کے بعد تقریباً ڈھائی سال آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کے سربراہ رہے، اس عہدے کو ڈی جی سی کے مخفف سے جانا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد دو مہینوں کے لیے انھوں نے بطور ایڈجوٹنٹ جنرل کام کیا۔ اس کے بعد دو سال سے زائد عرصہ کے لیے جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اس کے بعد وہ آٹھ مہینے کور کمانڈر پشاور کے طور پر کام کرتے رہے اور بعد ازاں کور کمانڈر بہاولپور تعینات ہوئے۔
27 نومبر 2017 کو حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے آخر میں ’بوساطت میجر جنرل فیض حمید‘ لکھا ہوا تھا۔
یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بدولت اس وقت کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کا نام عوامی حلقوں میں معروف ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہیں پایا۔
بعد ازاں تحریک لبیک سے معاہدے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جنھوں نے سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی۔
اسی دور میں سیاسی انتقام، گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی کے الزامات سامنے آئے۔مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اپنی تقریروں میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
کئی حلقوں میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کیریئر سے جڑے تنازعات کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
چند ماہرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے جنرل فیض حمید کے کردار کی غیر معمولی حد تک تشہیر کی جس کے باعث اُن کا نام ایک جماعت سے منسلک ہو کر رہ گیا۔
آئی ایس آئی میں انٹرنل ونگ یا پولیٹیکل ونگ کیا ہے؟
آئی ایس آئی کا ’پولیٹکل ونگ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا لیکن اس وقت سرکاری یا باضابطہ طور پر آئی ایس آیس میں ’پولیٹیکل ونگ‘ موجود نہیں ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں سربراہان مملکت کے ایجنسی کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ مثلاً صدر جنرل ایوب نے اس ایجنسی کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جبکہ جنرل یحیٰ نے اس وقت مشرقی پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا تھا۔
مگر یہ پولیٹیکل ونگ باضابطہ یا سرکاری طور پر طور پر آئی ایس آئی کا حصہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے اس ونگ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا تھا۔
وہ ذمہ داریاں جو اس وقت پولیٹیکل ونگ کی تھیں، اب آئی ایس آئی کی انٹرل ونگ کے زیر انتظام ہیں جو ملک کی اندرونی سکیورٹی سمیت دیگر امور کی نگرانی کرتی اور اس سے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے خفیہ ادارے میں متعدد تبدیلیاں کیں اور کئی نئے ونگز اس کا حصہ بنے۔
آئی ایس آئی کے سٹرکچر سے متعلق ڈاکٹر ہین ایچ کیسلنگ نے اپنی کتاب ’دی آئی ایس آئی آف پاکستان ۔ فیتھ، یونٹی، ڈسپلن‘ میں ادارے کے تنظیمی ڈھانچے کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کی معلومات ان کے مطابق خود آئی ایس آئی نے انھیں مہیا کیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ادارے کے سات ڈائریکٹوریٹس ہیں اور ان سے منسلک کئی ونگز ہیں۔
ادارے میں سب سے بڑا ڈائریکٹوریٹ جوائنٹ انٹیلیجینس بیورو (جے آئی بی) جبکہ دوسرا بڑا ڈائریکٹوریٹ جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلیجینس بیورو (جے آئی سی بی) ہے۔جوائنٹ انٹیلیجینس بیورو کی سربراہی ڈپٹی ڈی جی کرتا ہے جن کے ماتحت پانچ ڈائریکٹرز ہیں اور ان کے ذمے سیاسی جماعتیں، انسداد دہشت گردی، وی آئی پی سکیورٹی، طلبا اور لیبر جیسے ڈپارٹمنٹس ہیں۔
اسی طرح جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلجینس کی سربراہی ڈپٹی ڈی جی (ایکسٹرنل) کرتے ہیں اور اس ڈائریکٹوریٹ کی ذمہ داریوں میں غیر ملکی شہریوں اور سفارتکاروں، خود آئی ایس آئی اہلکاروں کی نگرانی بھی شامل ہے جبکہ یہ سیاسی سرگرمیوں کا حساب رکھتا ہے۔
تاہم آئی ایس آئی کا نام نہاد ’سیاسی ونگ‘ مختلف ادوار میں متنازع بنتا رہا ہے اور اس پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس ونگ کا بنیادی کام سیاسی سرگرمیوں اور لیڈران پر نظر رکھنا ہے کہ وہ کسی ملک دشمن سرگرمی کا حصہ نہ بنیں لیکن مختلف حلقے یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ یہ کردار مبہم اور مشکوک ہے۔
اس ونگ کی سربراہی کرنے والا فوجی افسر وسیع اختیارات کا مالک ہوتا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق آئی ایس آئی میں یہ عہدہ اتنا اہم ہے کہ ماضی قریب میں اس عہدے پر تعینات رہنے والے افسران بعدازاں اس ادارے کے سربراہ بھی بنے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل ہیں۔
لیکن یہ عہدہ اتنا ہی حساس بھی ہے جسے دو دھاری تلوار کہا جاتا ہے۔ اس عہدے پر رہنے والے افسران بعض اوقات ترقی نہیں پاتے۔
Getty Images
ماضی میں ایسے موقع بھی آئے جب اس ونگ کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ نومبر 2008 میں اعلان کیا گیا کہ آئی ایس آئی کی 'سیاسی ونگ' کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اور اس کی ذمہ داریاں اب آئی بی نبھائے گی۔
یہ اعلان اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا لیکن اگلے ہی روز مقامی اخبار نے ایک سینیئر افسر کا نام لیے بغیر کہا کہ اس ونگ کا کام روکا گیا ہے تاہم اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس ونگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ مگر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں بھی پولیٹیکل ونگ نے آئی ایس آئی میں ہی اپنا کام جاری رکھا۔
بعدازاں 2012 میں اس وقت کے وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے تصدیق کی کہ ’آئی ایس آئی میں ہمیشہ پولیٹیکل ونگ موجود رہا ہے اور اب بھی کام کر رہا ہے۔‘
AFP
بی بی سی کے ایک مضمون کے مطابق صحافی ماجد نظامی سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کی رائے میں ’ماضی میں آرمی کی مداخلت کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہی ہے۔ اس مرتبہ معاملہ کچھ مختلف رہا۔ جنرل فیض حمید کے دور میں سیاسی مداخلت خاصی سرعام اور کسی حد تک بے ڈھنگی بھی ہونا شروع ہو گئی۔ گلی محلوں اور عوامی حلقوں میں آئی ایس آئی کا کردار زیر بحث آنے لگا۔ پہلے یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھا لیکن اب سب کچھ سامنے ہو رہا تھا۔‘
’جرنیلوں کو صرف تب ہی بلایا جاتا ہے جب وہ ریٹائر ہو جاتے ہیں‘
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سابق فوجی جرنیلوں کو پہلے بھی عدالتوں میں بلایا جاتا رہا ہے جیسا کہ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کو عدالت میں بلایا گیا اور سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ہوا۔
’عام طور پر تاثر ہے کہ جرنیلوں کو عدالتیں نہیں بلاتیں اور نہ ہی ان کا ٹرائل ہوتا ہے۔ اس لیے جب ایسا ہوتا ہے تو حیرانی ہوتی ہے۔‘
تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’بیوروکریٹ یا سیاست دان کا تو دور اقتدار میں ہی احتساب ہو جاتا ہے۔ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو اقتدار کے دوران ہی سزا مل گئی لیکن جرنیلوں کو صرف تب ہی بلایا جاتا ہے جب وہ ریٹائر ہو جاتے ہیں۔‘
لیکن موجودہ سیاسی تناظر میں یہ نوٹس کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
اس بارے میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’ظاہر ہے کہ اس سیاسی ماحول میں بھی اس کی اہمیت ہے کیوںکہ سنہ 2018 میں جو کچھ ہوا وہ ایکسپوز ہو رہا ہے اور کافی حد تک ایکسپوز ہو چکا ہے۔‘
’لیکن جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ کب ایکسپوز ہو گا۔ ہم کب تک دائروں میں سفر کرتے رہیں گے۔‘