سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت، والدہ عدم ثبوت پر بری

بی بی سی اردو  |  Dec 14, 2023

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز کو سزائے موت اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے اس مقدمے میں شریک ملزم اور شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اس کیس میں ملزمان شاہنواز امیر اور ان کی والدہ ثمینہ شاہ کو آج اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمان کی موجودگی میں عدالت اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔اس موقع پر سارہ انعام کے والد انعام الرحیم اور فیملی کے دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے ملزم سے وصول کردہ دس لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے والدین کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

کینڈین نژاد پاکستانی خاتون سارہ انعام کو 23 ستمبر 2022 کو اُن کے شوہر شاہنواز امیر نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قتل کر دیا تھا۔

مرکزی ملزم شاہنواز امیر پر 15 دسمبر 2022 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 19 گواہوں کو پیش کیا گیا۔

اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حسن عباس کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں واقعاتی شہادتوں اور فرانزک رپورٹس پر انحصار کیا گیا۔ جائے وقوعہ سے مقتولہ سارہ انعام اور ملزم شاہنواز کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے تھے جو میچ کر گئے تھے۔

قتل کے اس مقدمے کی سماعت کے دوران شاہنواز امیر نے اپنے دفاع میں کسی گواہ کو پیش نہیں کیا تاہم عدالت میں بیان دیتے ہوئے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قتل سے ایک رات قبل انھوں نے سارہ کے ہمراہ ڈنر کیا اور سو گئے اور جب وہ صبح اٹھے تو سارہ انعام باتھ روم گئی ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ (شاہنواز) ایف ایٹ مرکز سے ناشتہ لینے گئے اور جب واپس آئےتو دیکھا کہ سارہ انعام کی لاش فرش پر پڑی ہے۔

BBCمرکزی ملزم شاہنواز امیر

ملزم نے اپنے بیان میں یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ یا تو ان کی اہلیہ باتھ روم میں گرکر ہلاک ہوئی ہیں اور یا پھر کوئی نامعلوم شخص انھیں قتل کرکے فرار ہو گیا۔

ملزم شاہنواز نے اپنے بیان میں یہ بھی مؤقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ اُن کے والد (ایاز امیر) ایک سیاسی شخصیت ہیں اس لیے انھیں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے اُن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ پولیس نے سارہ انعام قتل کیس میں تفتیش کی غرض سے ملزم کے والد ایاز امیر کو بھی گرفتار کیا تھا تاہم دو روز تک حراست میں رکھنے کے بعد انھیں عدالتی حکم پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ایاز امیر کی بریت اس بنیاد پر ہوئی کہ وہ وقوعہ کے روز چکوال میں تھے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے اس واقعہ سے متعلق پولیس کو مطلع کیا تھا۔

اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حسن عباس کے مطابق اس مقدمے میںمرکزی ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی ملزم تھیں۔ تاہم ان کا کردار ملزم کی سہولت کاری کرنے اور حقائق کو چھپانے کی حد تک ہے۔

گرفتاری کے بعد متعلقہ عدالت نے ثمینہ شاہ کی اس مقدمے میں ضمانت منظور کر لی تھی اور انھیں حاضری سے بھی استثنیٰ دے دیا تھا تاہم ملزمہ نے بھی اپنا بیان عدالت نے ریکارڈ کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 نومبر کو رات اکھٹے کھانا کھا کر سو گئے اور جب وہ صبح اٹھیں تو ان کے بیٹے شاہنواز نے انھیں بتایا کہ سارہ انعام قتل ہو گئی ہیں۔

اس مقدمے کے پراسیکیوٹر کے مطابق مقتولہ سارہ انعام کا جب 23 ستمبر کو پوسٹمارٹم کیا گیا تو پوسٹمارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقتولہ کی موت کو 12 سے 24 گھنٹے کا وقت گزر چکا ہے۔

تھانہ شہزاد ٹاون پولیس کے مطابق ثمینہ شاہ نے وقوعہ کے بعد پولیس کو جو بیان دیا تھا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ثمینہ پیر زادہ نے پولس کو بتایا تھا کہ اس کے بیٹے شاہنواز نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا ہے۔

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ملزم سے آلہ قتل ڈمبل بھی برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے زیر استعمال موبائل فون بھی برآمد کیا، جس میں مقتولہ کی زندگی میں اور ان کی ڈیڈ باڈی کی تصاویر بھی برآمد کر لیں۔ اس کے علاوہ مقتولہ کے زیر استعمال موبائل بھی ملزم کی نشاندہی پر برآمد کیا گیا۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم شاہنواز اور سارا انعام نے پسند کی شادی کی تھی اور دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ مقتولہ یہ چاہتی تھیں کہ ان کی باقاعدہ طور پر رخصتی ہو کیونکہ مقتولہ کے گھر والے اس شادی پر راضی ہو گئے ہیں، جس پر دونوں میں تکرار شروع ہوئی۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے مقتولہ کو واٹس ایپ میسج پر طلاق دے دی تھی، جس کی تصدیق ملزم کے زیر استعمال موبائل فون کی فرانزک رپورٹ اور اس موبائل کے ریکارڈ سے وہ وائس میسج بھی مل گیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔

پولیس کے بقول سارہ انعام 22 ستمبر 2022 کو اسلام آباد آئیں اور دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد ملزم نے ایکسرسائز کرنے والے ڈمبل سے حملہ کر کے سارا انعام کو قتل کر دیا۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم کے موبائل سے سارہ انعام کی لاش کی وہ تصویر بھی برآمد کی تھی جو انھوں نے اپنے والد ایاز امیر کو بھیجی تھی جس کے نیچےانگریزی میں لکھا ہوا تھا ’بابا کیا میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دوں؟‘

واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟

پولیس کے مطابق سارہ انعام کے قتل کا یہ واقعہ 23 ستمبر بروز جمعہ صبح 10 سے 11 بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق قتل کی اس واردات کی اطلاع ملزم شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو دی تھی۔

اطلاع ملنے پر پولیس چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پہنچی تو ملزم نے پولیس کو دیکھتے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا تاہم پولیس نے کمرہ کھلوانے کے بعد ملزم کو قابو میں کر لیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق جب ملزم کو کمرے سے نکالا گیا تو اُن کے کپڑوں پر خون کے دھبے موجود تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے ابتدائی تفتیش میں پولیس کو بتایا کہ انھوں نے لڑائی کے دوران اپنی اہلیہ سارہ انعام کے سر پر ڈمبل مارا اور بعدازاں ان کی لاش کو واش روم میں چھپا دیا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ ملزم نے آلہ قتل یعنی ڈمبل بھی خود برآمد کروایا جس پر انسانی خون اور بال لگے ہوئے تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے ڈمبل کے متعدد وار کر کے اپنی اہلیہ کا قتل کیا۔

سارہ انعام کون تھیں؟

بی بی سی نے سارہ انعام کے دوستوں، چچا (جو اُن کے قتل کیس میں مدعی مقدمہ بھی ہیں) اور رشتہ داروں سے بات کی ہے تاکہ اُن کی تعلیم اور کیریئر کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں۔

حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے سنہ 2007 میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہتر تعلیمی اداروں میں سمجھا جاتا ہے۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد سارہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا تھا۔

سنہ 2010 میں انھوں نے ابوظہبی میں بزنس کنسلٹینسی کی کمپنی ’ڈیلوئیٹ‘ میں شمولیت اختیارکر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعدازاں سینیئر کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اس نوکری کے بعد انھوں نے ابوظہبی کے ادارے ’ایجوکیشن اینڈ نالج‘ میں شمولیت اختیار کی۔

یہاں ملازمت کے دوران انھوں نے ابوظبہی میں ’تعلیم ہر بچے کے لیے‘ جیسے بڑے منصوبے پر کام کیا اور اسی منصوبے کے تحت پہلی مرتبہ ایک چارٹرڈ سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔

سنہ 2021 میں سارہ نے ابوظہبی کے ہی معیشت سے متعلقہ ادارے میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا تھا۔

سارہ انعام کی دوست سارہ دناوی نے ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب اُن کی سارہ انعام سے ملاقات ہوئی تو وہ اُس وقت اپنا مستقبل بہتر بنانے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔ ’وہ اپنی زندگی میں ناصرف خود کامیاب ہوئیں بلکہ انھوں نے کئی دوستوں کو بھی بہتر مستقبل کی تعمیر کے مواقع فراہم کیے۔‘

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مبینہ طور پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی سارہ انعام کی دوست سٹیفنی حبیب نے بھی اُن سے متعلق بی بی سی اردو سے بات کی تھی۔

سٹیفنی حبیب نے بتایا کہ سارہ انعام کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ ’کبھی کبھی ابوظہبی میں اتفاقیہ طور پر اُن سے ملاقات ہوتی تو وہ کسی پارک یا کسی بھی مقام پر کسی بینچ پر بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہی ہوتی تھیں۔‘

سارہ دناوی بتاتی ہیں کہ وہ کیسے بھول سکتی ہیں کہ سارہ کتاب سے کتنی محبت کرتی تھیں۔ ’وہ فارغ ہوتیں تو اُن کا کام صرف اور صرف پڑھنا اور پڑھنا ہوتا تھا۔ سارہ کو سفر کرنا اور مختلف ثقافتوں کو تلاش کرنا پسند تھا۔ وہ مختلف زبانوں کو فوری طور پر سیکھ لیتی تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے دوستوں کے گروپ نے ایک ساتھ بہت زیادہ سفر کیے ہیں۔ عمان سے لبنان اور ترکی تک۔ ہم لوگ مختلف میوزیمز اور مختلف مقامات پر ساتھ گئے۔‘

سٹیفن نیش کہتے ہیں کہ ’سارہ انعام ایک مفکر تھیں۔۔۔ ذہین اور نرم گفتار انسان۔ وہ اپنا فارغ وقت نان فکشن کتابوں کو پڑھنے میں گزارتی تھیں۔ تاریخ اور سیاست سے لے کر مذہب تک۔ ہم نے اکثر اس کو کسی نہ کسی کیفے کے کونے میں بیٹھ کر سکون سے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتے پایا ہے۔‘

اپنے ماں باپ اور خاندان سے محبت کرنی والی

سٹیفنی حبیب کے مطابق سارہ کو اپنے خاندان اور ثقافت کا بہت پاس تھا۔

’وہ ہمشیہ اپنے والدین کو خوش رکھنا اور انھیں محبت اور سکون فراہم کرنا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ اُن کے والدین اُن پر فخر کر سکیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ اکثر اپنے والدین اور دوست احباب کو ملنے کینیڈا اور پاکستان آتی جاتی رہتی تھیں۔ ’وہ اپنے والدین کو اپنے پاس ابوظہبی بلاتی تھیں، خاص کر وہ اپنی والدہ کے حوالے سے بہت زیادہ حساس تھیں۔‘

سٹیفنی حبیب کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی والدہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اکثر اُن کا ذکر کرتی تھیں۔ وہ اپنی والدہ کی بھی لاڈلی تھیں۔ میں جب سوچتی ہوں کہ اس کے والدین کس طرح اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے واقعے کو برداشت کر رہے ہوں گے تو میرے دل میں ہول اٹھنے لگتے ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے اپنے خاندان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں تھا۔

وہ کہتی تھیں ’مجھے امید ہے کہ ایک دن ہمارے بچے بھی ہمارے دوست ہوں گے۔ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس کے لیے اپنے خاندان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔‘

سارہ دناوی کہتی ہیں کہ عمر کے اس حصے میں اب وہ اپنی فیملی لائف شروع کرنا چاہتی تھیں۔ ’ہر کسی کی طرح وہ بھی چاہتی تھیں کہ وہ بھی کسی کو چاہییں اور اُن کو بھی کوئی بہت محبت دے۔ میں جانتی ہوں کہ اگر وہ ماں بن جاتی تو وہ کتنی عظیم ماں ہوتی۔ وہ اپنے مسقبل اور اپنی فیملی لائف کے حوالے سے ہم سے بات کرتی تھی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More