ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے پاکستانیوں کے بجلی، گیس اور موبائل کنکشن کاٹنے کی پالیسی سودمند ثابت ہو گی؟

بی بی سی اردو  |  Dec 13, 2023

Getty Images

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے حکومتی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی نئی پالیسی کے تحت ملک میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے بجلی و گیس کے کنکشن کاٹنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کی جانب ملک میں موجود ٹیکس افسروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نان فائلرز کے بجلی و گیس کے کنکشن کاٹنے کے علاوہ ان کے موبائل نمبروں کو بھی بلاک کریں۔

پاکستان میں ٹیکس جمع کرانے کے بعد اس کے ریٹرن فائل کرنے کے لیے ہر سال ایف بی آر کی جانب سے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال اکتوبر کے مہینے کے اختتام تک تیس لاکھ کے قریب ٹیکس ریٹرن وصول کیے تھے جب کہ گذشتہ سال اس مہینے کے اختتام تک ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کی تعداد پچیس لاکھ تھی۔

پاکستان میں ٹیکس کی وصولی ہمیشہ سے ایک بڑا معاملہ ہی ہے اور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10.4 فیصد ہے جو خطے کے دیگر ممالک مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے جہاں ٹیکس وصولی کے لیے ہر سال اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کو مالی امداد اور قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں خاص کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے کی شرائط بھی عائد کی جاتی ہیں تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔

پاکستان میں ٹیکس امور کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق ٹیکس ریٹرن کی لیے ایف بی آر کی جانب سے اختیار کردہ نئی پالیسی بھی آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہے تاکہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کو بڑھایا جا سکے تاہم ایف بی آر کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے اور ادارے کے مطابق یہ ایف بی آر کا اپنا اقدام ہے۔

کنکشن کاٹنے اور فون سمز بلاک کرنے کی پالیسی کس قانون کے تحت لائی گئی؟BBC Sportایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے

ایف بی آر کے ترجمان نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے کنکشنز منقطع کرنے کی پالیسی اور اس کے تحتاختیارات انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 بی کے تحت دیے گئے ہیں۔

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں اس سیکشن کے تحت ریٹرنز نہ جمع کرانے پر پہلے نان فائلرز کو نوٹس دیا جائے گا اور ایک مہینے کے بعد جواب نہ جمع کرانے پر اس نان فائلر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی کہ جس میں اس کے گیس و بجلی کے کنکشن اور موبائل سم بلاک کرنے جسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’یہ کام پاکستان میں منفرد ہوا ہے اور یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے بھی متصادم ہے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق میں اب صرف سانس لینا ہی نہیں ہے بلکہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے بجلی و گیس اور دوسری چیزیں ضروری ہیں اور پاکستان میں یہ اس سیکشن کے تحت لوگوں کو ان کے اس بنیادی حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔‘

ایف بی آر اس پالیسی کا نفاذ کیسے کرے گا؟Getty Images

ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز کے بجلی و گیس کے کنکشن اور موبائل سم بند کرنے کی پالیسی کے نفاذ کے طریقہ کار کے بارے میں ایف بی آر کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قانون کے تحت نان فائلرز کے یوٹیلٹی کنکشن یعنی گیس و بجلی کے کنکشن اور موبائل سم بلاک ہو سکتی ہے۔

ایسے نان فائلرز کی نشاندہی کیسے ہو گی اس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ایف بی آر ایسے نان فائلرز کو پہلے نوٹس بھیجے گا کہ جنہیں ریٹرن فائل کرنا ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں کنکشن کاٹنے کی کارروائی بروئے کار لائی جائے گی۔

ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں کہا کہ ’ایسے نان فائلرز کی نشاندہی کوئی مشکل نہیں ہے جو ریٹرن فائل نہیں کرتے۔‘

انھوں نے کہا ’مثال کے طور پر جب کسی بینک ٹرانزیکشن پر زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس ایف بی آر میں آ رہا ہو تو لازمی ایف بی آر کو پتا ہے کہ ایسی ٹرانزیکشن کرنے والا فرد فائلر نہیں ہے۔ اس لیے ایسے افراد کی نشاندہی مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح ایک لاکھ روپے سے زائد کے بجلی کے بل پر نان فائلر کا ود ہولڈنگ ٹیکس زیادہ ہوتا ہے تو یہ آسانی سے پتا چل جاتا ہے کہ فلاں شخص نے زیادہ ود ہولڈنگ ٹیکس تو دیا تاہم اس کا ریٹرن فائل نہیں ہوا۔‘

معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز راناکا کہنا ہے کہ ’لوگوں کی انٹر نیشنل ٹریولنگ، ان کے بجلی کے بل اور بینکوں کی ٹرانزیکشنز سے یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔‘

ایف بی آر کو پالیسی میں نان فائلرز سے متعلق سختی کیوں آئی ہے؟

پاکستان میں ریٹرنز جمع کروانے والوں اور نہ کروانے والوں سے متعلق ایف بی آر نے ماضی میں بھی مختلف اقدامات اٹھائے اور ریٹرن جمع کرانے والوں کو مختلف سہولیات جیسا کہ بینک سے کیش نکلوانے پر نان فائلرز کے مقابلے میں کم ود ہولڈنگ ٹیکس کی ادائیگی، گاڑی خریدنے پر نان فائلر کے مقابلےود ہولڈنگ ٹیکس کی کم ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم اب ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز سے متعلق پالیسی میں سختی لائی گئی جس میں ان کے بجلی و گیس کے کنکشن اور موبائل سم بند کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

پالیسی میں سختی کے بارے میں ایف بی آر کے ترجمان نے کہا کہ ’فائلرز کے لیے سہولیات جیسا کہ ود ہولڈنگ کی کم ادائیگی تو جاری رہیں گی تاہم یہ سختی صرف نان فائلرز کے لیے ہو گی جو اپنا ریٹرن فائل نہیں کر تے۔‘

شہباز رانا نے بتایا کہ ’اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ ریٹرن فائل نہیں کرتے کیونکہ ٹیکس کلچر ملک میں فروغ نہیں پا سکا اور ٹیکس چوری عام ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے ایف بی آر کا اپنا قصور ہے کہ اس نے ماضی میں ایسی پالیسی رکھی کہ جس میں لوگوں نے فائلر بننا ضروری نہیں سمجھا۔‘

انھوں نے کہا ’جب ایف بی آر نان فائلر سے زیادہ ود ہولڈنگ ٹیکس لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے خود ہی اس کلچر کو فروغ دیا کہ جس میں لوگ زیادہ ریٹرنز فائل نہ کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں فائلر ہوتا ہے یا پھر ڈیفالٹر ہوتا ہے تاہم پاکستان میں ایف بی آر نے نان فائلر کی نئی کیٹگری نکال کر ان سے زیادہ ٹیکس تو اکٹھا کر لیا تاہم ملک میں ریٹرن فائل کرنے کے کلچر کو فروغ نہ دے سکا۔‘

ڈاکٹر اکرام نے کہا ’اب پالیسی میں سختی آئی ایم ایف کے کہنے پر لائی گئی ہے جو زیادہ ڈائریکٹ ٹیکس کے لیے زور دے رہا ہے اور وہ ریٹرن کے زیادہ فائل ہونے سے ممکن ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف نے حالیہ ہفتوں میں ایف بی آر کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جس میں ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح کےنہ بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا۔‘

ایف بی آر ترجمان نے تاہم اس کی تردید کی کہ یہ پالیسی آئی ایم ایف کے کہنے پر نافذ کی گئی اور کہا یہ ایف بی آر کا اپنا اقدام ہے۔

Getty Imagesایف بی آر کی نئی پالیسی کیا مؤثر ثابت ہو گی؟

ایف بی آر کی نان فائلرز سے متعلق نئی پالیسی کے متعلق ٹیکس امور کے صحافی شہباز رانا زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔

ان کا کہنا ہے ’اوّل تو ایف بی آر کی یہ سکیم زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو گی، سب سے پہلے دیکھا جائے تو ایف بی آر کے اپنے اندر اس کام کو کرنے کے لیے حوصلے کی کمی ہے ورنہ ادارہ سب سے پہلے اپنے ملازمین کو نان فائلرز سے فائلرز بناتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’ایف بی آر کا ہر پانچ میں سے ایک افسر فائلر نہیں ہے جب کہ ملازمین کی تو بڑی تعداد نان فائلر ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام نے اس کے متعلق کہا کہ ’اس سکیم کو نافذ تو کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ایف بی آر کو صرف گیس و بجلی کے متعلقہ اداروں اور موبائل کمپنیوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ فلاں کا کنکشن بند کر دیں یا پھر سم بلاک کر دیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ایسی سکیموں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کا بینک میں زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس کٹ رہا ہے اور وہ نان فائلر ہے تو ایف بی آر سیدھا اس نان فائلر کو رابطہ کرے کہ آپ کی انکم کا ذریعہ کیا ہے اور آپ ٹیکس کیوں نہیں جمع کرا رہے۔‘

انھوں نے کہا ’دنیا میں فائلر اور ڈیفالٹر صرف دو کیٹگری ہوتی ہیں کہ اگر ریٹرن فائل کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ریٹرن فائل نہ کرنے والا ڈیفالٹر کی کیٹگری میں شمار ہو گا۔‘

ایف بی آر کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا ان کی ’سکیم ڈیٹا کی مدد سے آگے بڑھے گی کہ جس میں ایسے افراد کو دیکھا جائے گا کہ جن کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ ریٹرن کیوں نہیں فائل کرتے اور اگر وہ پھر بھی قانون پر عمل درآمد نہیں کرتے تو پھر ایف بی آر اس پالیسی کے تحت اقدامات اٹھائے گا۔‘

سکیم سے ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کی حوصلہ شکنی کے بارے میں ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں کہ ’ریٹرن نہ جمع کرانے والوں کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔‘

شہباز رانا نے بھی اس سلسلے میں کہا ’یہ انفورسمنٹ اقدام ہے یعنی ایک قانون پر عمل درآمد کرانا ہے اس لیے اس کے پالیسی کا کوئی منفی رد عمل نہیں ہو گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More