ہنزہ کی ہنرمند خواتین: ’پیسے نہیں تھے اس لیے امّی کے پرانے زیور توڑ کر کے نئے زیورات بنائے‘

بی بی سی اردو  |  Dec 08, 2023

BBC

’ہم ان عام سے نظر آنے والے پتھروں میں سے نگینے نکالتی ہیں اور اپنے پاس آنے والے مہمانوں کے لیے ان سے خوبصورت زیورات بناتی ہیں۔‘

یہ وہ الفاظ اور باتیں ہیں جو پاکستان کے ایک خوبصورت علاقے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی نسرین نے ہمارے ساتھ اُس وقت کیں، جب وہ نہایت مہارت کے ساتھ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے نکالے جانے والے ایک قیمتی اور خوبصورت گلابی رنگت والے پتھر روبی کو ایک مشین کی مدد سے بیضوی شکل میں ڈھال رہیں تھیں۔

نسرین ہنزہ میں زیورات کی ایک دکان کی مالک ہیں اور وہاں وہ اکیلی نہیں ہیں بلکہ اُن کا ساتھ دینے کے لیے اُن کی تین سہلیاں بھی وہاں موجود ہیں۔

ہم میں سے اکثر نے یہ جملہ ضرور سُنا ہو گا کہ کوئی نا کوئی ہنر قدرتی طور ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ نسرین کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے ہاتھوں کی سختی اور ایک عام سے نظر آنے والے پتھر سے نگینے نکالنے کے دوران لگنے والے زخم اُن کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہنزہ شمالی پاکستان کا ایک دور افُتادہ سرد علاقہ ہے۔ یہ گلگت سے شمال میں نگر کے ساتھ اور شاہراہ ریشم پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے 700 کلومیٹر کی مسافت پر سطح سمندر سے تقریباً2500 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

BBCنسرین نے اس کام کا آغاز کب کیا

نسرین کے ہاتھ سے تیار ہونے والے یہ زیورات عام نہیں ہیں، وہ مختلف مشینوں کی مدد سے پہلے پتھر تراشنے اور پھر انھیں چاندی سے بنے مختلف سانچوں میں جڑنے کا کام کرتی ہیں۔

نسرین نے کہا کہ ’میں نے 2009 میں اس شعبے میں قدم رکھا جس کے بعد میں نے اس کام کی تربیت بھی حاصل کی، مجھے پہلے سے کام آتا تو تھا مگر مجھے اس میں مزید بہتری لانی تھی، میں نے اور میری تین سہیلیوں نے ایک سال میں یہ کام مکمل طور پر سیکھ لیا تھا۔‘

پاکستان کے اس خطے میں مقامی معیشت کا ایک بڑا حصہ سیاحوں سے وابستہ ہے۔ یہاں کے لوگ ان علاقوں میں پائے جانے والے خشک میوہ جات، سیاحت اور معدنیات کے علاوہ نگینوں یا قیمتی پتھروں سے بنائے جانے والے زیورات سے آمدن حاصل کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے جب نسرین اور اُن کی سہیلیوں نے یہ کام شروع کرنے کا سوچا تو سب سے بڑی رکاوٹ کاروبار کے لیے رقم کی کمی تھی۔لیکن نسرین اور ان کی سہیلیوں نے بھی کیا، نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی کسی سماجی رویّے کو آڑے آنے دیا۔

BBC

’کام شروع کرنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، اسی وجہ سے ہم نے اپنے گھروں میں موجود امی کے پُرانے زیوارت جمع کرنا شروع کر دیے، پھر ہم نے اُن زیوارت کو توڑ کر نئے زیوارت بنائے، یہاں بیرونِ مُلک سے زیادہ سیاح آتے ہیں اس لیے وہ سب ہم نے اُن کو فروخت کر دیے، اور اس کے بعد جو پیسے ہمیں ملے ہم نے اُن سے کام کا آغاز کیا۔‘

عام طور پر لوگ گھر میں موجود پرانی جیولری کو ناکارہ سمجھ کر استعمال نہیں کرتے، مگر نسرین کے لیے یہی پرانے زیور قرض کا نعم البدل ثابت ہوئے اور اب وہ کریم آباد میں اپنی دکان چلا رہی ہیں۔

نسرین نے اپنی پہلی آمدن سے زیورات کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینیں اور اس کام میں استعمال ہونے والے مختلف اوزار خریدے۔ نسرین اور ان کی سہیلیوں کا شوق دیکھتے ہوئے کئی مقامی این جی اوز نے اُن کی مدد کی، اس کے علاوہ اُن کو کئی بین الاقومی مارکیٹوں کا دورہ بھی کروایا تاکہ اُن کو مختلف چیزوں کی معلومات ہو سکے اور یہ جان سکیں کہ وہ اپنے بنائے زیورات کو کیسے مزید بہتر بنا سکتی ہیں۔

نسرین کہتی ہیں کہ ’ہم نومبر سے لے کر مارچ تک خوب کام کرتے ہیں، کیونکہ اس موسم میں ساحیوں کی کمی کی وجہ سے ہمیں کام کا زیادہ وقت مل جاتا ہے، ہم اس وقت میں مارچ سے آنے والے سیاحوں کے لیے چیزیں بنا کر رکھ لیتے ہیں، کیونکہ مارچ سے اکتوبر تک سیاحوں کا بہت رش ہوتا ہے۔‘

BBCمنفی رویّے

کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا، نسرین 2009 میں یہ کام شروع کرنے والے چند افراد میں شامل تھیں، شروع شروع میںمیں اُنھیں بھی معاشرے کے منفی رویّوں کا سامنا کرنا پڑا، اور بہت سی باتیں بھی سننی پڑیں۔ اکثر لوگوں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ کام تو مردوں کا ہے وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔

نسرین نے کہا ’ہم سے پہلے زیوارت بنانے کا کام صرف مرد کرتے تھے، ہم ہنزہ میں پہلی خواتین تھیں، جنھوں نے یہ کام شروع کیا، اور آج مجھے خود پر اور اپنی سہیلیوں پر فخر ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوئیں ہم نے ہمت نہیں چھوڑی اور آج دوسری خواتین کے لیے مثال بن رہی ہیں۔‘

نسرین نے جب یہ کام شروع کیا تھا اُس وقت اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی، مگر آج اُن کے دو بچے ہیں، اور پھر بھی وہ کام ویسے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نسرین کی دکان میں داخل ہوتے ہی مختلف طرح کے پتھر اور اُن سے بنائے جانے والے انتہائی خوبصورت اور نازک زیورات دیکھائی دیتے ہیں۔ دکان میں ایک جانب بھاری مشینری اور آلات موجود ہیں۔

مشین میں پتھروں کی کٹائی سے لے کر باریکی کے ساتھ اُن سے زیوار بنانے کے عمل میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ نسرین کا خواب ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو پورے گلگت بلتستان میں پھیلائیں بلکہ بیرونی دُنیا میں بھی اپنے مُلک کی نمائندگی کریں۔

نسرین کی دکان پر کام سیکھنے کے لیے آنے والی لڑکی کا کہنا ہے ’میں ان کے کام سے بہت متاثر ہوں، یہ مالی طور پر خود مختار ہیں، اور گھر کے ساتھ ساتھ ایک اچھا کاروبار بھی چلا رہی ہیں، میں بھی ان جیسے اپنا کام شروع کرنا چاہتی ہوں‘۔

BBC

نسرین اور ان کی دوستیں اب تک سو سے زیادہ خواتین کو یہ کام سیکھا چکی ہیں، اور وہ مستقبل میں اپنا ٹرینیگ سینٹر بھی کھولنے کا خواب رکھتی ہیں۔

ہنزہ میں با آسانی مل جانے والے قیمتی پتھروں میں روبی، ٹورمیلین، عقیق، سیفائیر سمیت کئی نایاب پتھر موجود ہیں، ان کی قیمتیں ایک ہزار روپے سے لاکھوں روپوں تک ہوتی ہے۔

ہنزہ کی اس خوبصورت وادی کی خواتین کس قدر محنت کش اور کاروباری ذہن رکھنے والی ہیں اس بات کا اندازہ اُن سے مل کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More