Getty Images
پاکستان میں گذشتہ کئی روز سے پاکستان کے آئین کی 18ویں ترمیم میں مبینہ طور پر تبدیلیاں کیے جانے سے متعلق افواہیں سامنے آ رہی ہیں لیکن یہ مباحثہ یا چہ مگوئیاں نئی ہرگز نہیں ہیں۔
یوں کہہ لیں کہ عالباً ڈھکے چھپے الفاظ میں گذشتہ چند سالوں سے اس بارے میں باتیں ہوتی رہی ہیں کہ اس آئینی ترمیم کو ’رول بیک‘ یا اس میں ترمیم کیے جانے کی ضرورت ہے۔
آج سے دس سال قبل قومی اسمبلی سے آٹھ اپریل 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی ایک سو دو شقوں کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی تھی۔
ان شقوں میں 17ویں ترمیم کا خاتمہ، اٹھاون ٹو بی کا خاتمہ، صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی اور خیبر پختونخوا رکھے جانے کی منظوری، کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ، مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو منتقل کرنے جیسی ترامیم شامل تھیں۔
18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے سے متعلق گردش کرنے والی دعوے جہاں سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں وہیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے مختلف جلسوں میں بھی دہرائے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر عمومی طور پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن صوبوں کو اختیارات دینے والی اس ترمیم کے رول بیک کیے جانے کی خواہشمند ہے مگر چند دن قبل تین دسمبر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنما احسن اقبال نے واضح کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا 18ویں ترمیم واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے سرگودھا ڈویژن کے پارٹی اُمیدواروں کے انٹرویوز کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم واپس لینے کی کوئی تجویز زیر بحث نہیں ہے۔
احسن اقبال نے مزید کہا تھا کہ یہ ترمیم مکمل ہے اور ہم آئندہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد اس کی روح پر پورا اتریں گے، اختیارات کی منتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تاہم دو روز قبل مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے پہلے اجلاس کے بعد لاہور میں رانا ثناء اللہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں احسن اقبال نے کہا کہ ’18ویں ترمیم نا مکمل ہے، ن لیگ مکمل کرے گی۔ ہم 18ویں ترمیم ختم کرنے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ اس پر مزید کام کرنا باقی ہے۔‘
تاہم جب ملکی سیاسی منظرنامہ پر یہ باتیں سامنے آنے لگیں کہ 18ویں آئینی ترمیم کے رول بیک یا اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم کا امکان ہے تو ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ان خبروں پر بڑا سخت ردِ عمل دیا ہے۔
لیکن یہ چہ مگوئیاں سامنے کب اور کیسے آئی ہیں اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا کیا مؤقف ہے؟
Getty Images’پیپلز پارٹی اس اقدام کے سامنے دیوار بنے گی‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کُنڈی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی پی پی وہ واحد جماعت ہے کہ جس نے اس مُلک کو ایک متفقہ آئین دیا تھا، 18ویں آئینی ترمیم میں بہتری تو کی جا سکتی ہے مگر اسے رول بیک نہیں کرنے دیا جائے گا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس اقدام کے سامنے دیوار بنے گی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’صوبوں سے بھی اٹھارویں آئینی ترمیم سے متعلق چند تحفظات ہیں جیسا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں موجود قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد فیڈریشن لے جاتی ہے، اس سے متعلق صوبے اس آئینی ترمیم میں بہتری چاہتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ 15 اپریل 2010 کو ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی۔
سینیٹ میں مسلم لیگ ق نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کی مخالفت کی تھی لیکن ان کی جماعت اس معاملے پر ووٹنگ کے دوران تقسیم ہو گئی تھی۔
اسی کے ساتھ ساتھ آئینی پیکج میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار پر وکلا نے اعتراض کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ میں دو درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
سنہ 2020میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ این ایف سی کے ساتھ ساتھ اس 10 سال پرانی ترمیم کا بھی ’جائزہ‘ لینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ترمیم کے بعد کئی انتظامی مسائل پیدا ہوئے ہیں اور وفاق انھیں حل کرنے میں بے بس ہے۔
BBC’سیاسی جماعتوں سے زیادہ اُن کو اعتراض ہے جو پہلے مرکز سے بیٹھ کر وسائل کنٹرول کرتے تھے ‘
18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مرکز یعنی وفاقی حکومت سے بعض معاملات میں اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس ترمیم کے بعد صوبے مزید طاقتور ہوئے ہیں تو پھر اس پر اعتراض کیونکر اور کسے ہے؟
اس سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’18ویں ترمیم کے بعد یہ سمجھ لیجیے کہ وفاق سے زیادہ طاقتور صوبے اور وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور وزیرِ اعلیٰ ہو چکے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اس آئینی ترمیم سے سیاسی جماعتوں سے زیادہ اُن اداروں کو اعتراض اور تحفظات ہیں کہ جو پہلے مرکز کے قریب بیٹھ کر ان وسائل کو کنٹرول کر لیا کرتے تھے مگر اس آئینی ترمیم کے آ جانے کے بعد سے اُن کے لیے یہ کام مُشکل ہو گیا ہے۔‘
سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ صوبوں کی جانب سے جو ایک مسئلہ یہاں سامنے آتا ہے وہ یہ کہ صوبوں نے اضلاع کو صوبائی فائنینس کمشن کی مدد سے یہ اختیارات منتقل کرنے تھے مگر وزیر اعلیٰ نے مضبوط ہوتے ہی ایسا نہیں کیا اور یہ انتہائی ضروری ہے کہ صوبے یہ اختیارات اور وسائل ضلعی سطح تک منتقل کریں۔‘
Getty Imagesکیا 18ویں ترمیم میں تبدیلی یا اسے رول بیک کرنا ممکن ہے؟
اس سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی آئینی ترمیم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا اسے رول بیک کرنے کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس کے بغیر ایسا مُمکن نہیں ہے۔‘
مُلک میں عام انتخابات کا ماحول بن رہا ہے تو کیا ایسے میں 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی سے متعلق کوئی بات کرنا یا اس جانب جانے کا کوئی امکان ہے؟ اس سوال کے جواب میں سہیل ورائچ نے کہا کہ ’ایسا مُمکن نہیں ہے کیونکہ اس وقت تو پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی آمنے سامنے ہیں اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے ایجنڈے میں یہ بات شامل نہیں ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’صوبوں کے پاس وفاق کی نسبت اختیارات زیادہ ہونے چاہییں کیونکہ دُنیا بھر میں یہی ہوتا ہے، بلکہ صوبوں سے بھی نیچے یہ اختیارات تو اضلاع اور مقامی انتطامیہ کے پاس ہونے چاہییں۔‘