بلبل شاہ اپنی اہلیہ بی بی روشن اور دو بچوں کے ہمراہ کراچی جانے کے لیے گلگت بلتستان کے غذر سے دو دسمبر کو صبح دس بجے غذر سے بس میں بیٹھے تھے۔
یہ وہ بدنصیب بس تھی جس پر دیامیر سے تھوڑا آگے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں سنیچر کی شام دیامیر سے دو کلو میٹر دور ایک مسافر بس پر فائرنگ کے واقعے میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بلبل شاہ نے اپنے طویل سفر کے لیے ایسی بس کا انتخاب کیا تھا جس کے ڈرائیور میرعالم ہوں کیونکہ میر عالم نے 20 سال میں کوئی حادثہ نہیں کیا تھا۔ اس فائرنگ کے واقعہ میں میر عالم بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
بلبل شاہ اور ان کے خاندان کی پہلی منزل راولپنڈی تھی۔ راولپنڈی سے انھیں کراچی کے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ بلبل شاہ طویل سفر کے بعد تھک کر اونگھ رہے تھے کہ اچانک ان کی اہلیہ بی بی روشن ان پر گر پڑیں اور انھیں کہا کہ لیٹے رہو فائرنگ ہو رہی ہے اور بچے میں نے سیٹ کے نیچے چھپا دیے ہیں۔
بی بی روشن نے اپنے جسم پر ایک یا دو نہیں بلکہ چھ گولیاں کھائیں مگر اپنے خاوند بلبل شاہ اور بچوں کو محفوظ رکھا تھا۔
بلبل شاہ کہتے ہیں کہ ہر وہ گولی جو مجھے لگ سکتی تھی وہ بی بی روشن نے اپنی جسم پر لے لی تھی۔ مجھے ہی نہیں بلکہ کمال بہادری اور جرات سے بچوں کو بھی محفوظ کیا تھا۔
’بچے سیٹ کے نیچے ہیں‘
بلبل شاہ اس دن کا واقعہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فائرنگ سے تھوڑی دیر پہلے بس مغرب کی نماز کے لیے رکی تھی۔
’اس سے پہلے کوئی تین بجے کے قریب پاکستان ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا تھا۔ اب اندھیرا پھیل چکا تھا۔ روڈ پر گاڑیاں بھی اکا دکا نظر آ رہی تھیں۔
’میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہورہا تھا کہ غذر میں میری دکان کا کام بالکل ختم ہو چکا تھا اور کراچی میں میرا سسرال تھا جنھوں نے کہا تھا کہ وہ میری لیے کوئی ملازمت تلاش کر لیں گے۔‘
بلبل شاہ کہتے ہیں کہ ’میں مستقبل کی سوچوں میں گم تھا کہ پتا نہیں کس وقت نیند آ گئی۔ اس وقت چھوٹا بچہ میری گود میں تھا جبکہ بڑی بیٹی بی بی روشن کی گود میں تھی۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ بی بی روشن میری اوپر گر چکی ہیں۔ اس وقت وہ مجھے کہہ رہی تھیں کہ اٹھنا نہیں بالکل بھی نہیں اسی طرح لیٹے رہو۔‘
’ساتھ میں کہا کہ بچوں کو میں نے سیٹ کے نیچے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اگر سر اوپر کرنے کی کوشش کی یا اوپر ہونے کی تو وہ مجھے زور دے کر کہتیں کہ لیٹے رہو سر اوپر نہیں کرنا۔‘
بلبل شاہ کا کہنا تھا جب فائرنگ شروع ہوئی تو اس وقت بی بی روشن کھڑکی والی سائیڈ پر تھیں۔
’وہ تو ایک ماں ہے اس موقع پر انھوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے پہلے اپنی گود میں موجود بچی کو سیٹ کے نیچے چھوڑا اور پھر میری گود میں موجود بچے کو سیٹ کے نیچے چھوڑ کر مجھ پر گرکر مجھے لٹا دیا تھا۔‘
’ہمیں بچاتے ہوئے جسم پر چھ گولیاں کھائیں‘
بلبل شاہ کہتے ہیں کہ کوشش کے باوجود کہ مجھے بی بی روشن نے اٹھنے نہیں دیا۔ فائرنگ کے شروع میں ان کی آواز آئی تھی مگر اب ان کی آواز بھی بند ہو گئی تھی۔
’ڈرائیور میر عالم بس کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ بس دریا میں نہ گر جائے۔ جب فائرنگ رک گئی تو میں اور زیادہ پریشان ہو گیا کہ اب وہ لوگ بس کے اندر آئیں گے اور معلوم نہیں کیا سلوک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر بس ٹرک کے ساتھ ٹکرا گئی اور آگ لگ گئی تھی۔ جس کے بعد فائرنگ بھی رک گئی۔
’شاید وہ لوگ یہ سمجھے کہ بس میں آگ لگی چکی ہے اب مزید فائرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے بی بی روشن کو زور لگا کر اپنے اوپر سے سائیڈ پر کیا تو دیکھا کہ وہ زخمی تھیں۔ مجھے ان کی یہ بات یاد آ گئی کہ بچے سیٹ کے نیچے ہیں۔ انھیں بچانا ہے۔‘
بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے دونوں بچوں کو سیٹ کے نیچے سے نکالا اور اٹھا کر بس سے باہر نکلا تو بس کی راہداری میں زخمی پڑے تھے چیخ و پکار تھی۔ کوئی سانس لے رہا تھا اورکوئیبے سدھ پڑا تھا۔‘
’میں بڑی احتیاط سے اترا کہ کسی پر میرا پاؤں نہ آئے۔ بچوں کو بس سے اتار کر ایک پتھر پر بٹھایا۔ وہ رو رہے تھے تو ان سے کہا کہ رو مت میں امی کو لے کر آتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں دوبارہ بس میں گیا اور بی بی روشن کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لانا شروع کر دیا۔ دوبارہ بس میں جانا اور ان کو نیچے لانا بہت مشکل تھا۔ مجھے اب پتا چل گیا تھا کہ مجھے اور بچوں کو بچاتے ہوئے بی بی روشن نے اپنی جسم پر گولیاں کھا لی تھیں وہ لہو لہان تھیں۔‘
بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ اس موقع پر بی بی روشن نے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’ٹوٹی پھوٹی بات میں کہا کہ بچے کدھر ہیں اورمیں کیسا ہوں۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم بس کے جس جگہ بیٹھے تھے اس سے پیچھے دو فوجی جوان تھے وہ دونوں فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئے تھے۔
’ہم سے اگلی سیٹ پر موجود ایک نوجوان ہلاک اورایک انتہائی شدید زخمی تھا۔ یعنی ہم جس حصے میں بیٹھے تھے وہاں پر شدید فائرنگ ہوئی تھی۔‘
بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے دیامیر پولیس نے وڈیو نکال کر مجھ سے سامان کی شناخت کروائی تھی۔ وہ کمبل جو میرے بچوں کے اوپر تھا اس کمبل کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں پر گولیوں کے نشانات نہ ہوں۔‘
یہ تو بی بی روشن کی حاضر دماغی اور بہادری تھی کہ ہم بچ گئے ہیں۔
’دو آپریشن ہو چکے ہیں ایک رہتا ہے‘
بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ ’میں بس سے نیچے اترا تو کتنا وقت لگا مجھے یاد نہیں ہے مگر بس سے نیچے اترنے کے تھوڑی دیر بعد پولیس وغیرہ پہنچ گئی تھی۔‘
’میں نے بچوں کو اپنے ساتھ لیا تو ایک ایمبولینس میں بیٹھ گیا جس نے ہمیں دیامیر کے ہسپتال پہنچایا۔ وہاں پر ڈاکٹر نے ان کا پہلا آپریشن کیا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ ان کے جگر اور گردے کو نقصان پہنچا اس نے ان کا خون روکنے کے بعد دوسری ایمبولینس میں ہمیں گلگت بھج دیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گلگت میں بی بی روشن کا دوسرا آپریشن ہوا ہے۔ یہ دوسرا آپریشن پانچ گھنٹے طویل تھا۔ اس آپریشن کے دوران ڈاکٹر بھی پریشان ہو گئے تھے مگر پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ بہتر ہیں۔‘
’ان کے جسم میں اب بھی تین گولیاں ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ گولیوں کی کوئی با ت نہیں ہے اس وقت بس ان کی زندگی بچانی ہے۔‘
بلبل شاہ کہتے ہیں کہ آج بدھ کے روز وہ کچھ بہتر لگی ہیں۔ ان کو نلکیاں وغیرہ لگی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اب ان کا سنیچر کے روز تیسرا آپریشن ہو گا۔
’یہ بڑا آپریشن ہو گا جس میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے اور زیادہ خطرناک بھی ہے۔ میں پوری پاکستانی قوم سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ وہ بی بی روشن کی صحت کے لیے دعا کریں۔‘
’میں ان سے خود زیادہ بات نہیں کرتا بس ان ہی کے پاس ہوتا ہوں۔ وزیر آئے تھے تو انھوں نے ان وزیر سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا بلکہ کہا کہ اس راستے کو پر امن بنائیں جہاں پر ہر کچھ عرصے بعد بے گناہ لوگ اپنی زندگی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جو قیامت ہم نے دیکھی ہے اب کوئی اور نہ دیکھے۔‘