لاہور کے شاہی قلعے کے قریب موتی بازار کے ایک مکان میں دس سال کے حسین بخش کو صبح پانچ بجے اٹھنا لازم تھا۔
یہ وقت بھیرویں کے ریاض کا تھا۔ استاد نتھو خان محمد حسین کے والد تھے اور استاد بھی۔ ریاض کے معاملے میں کوئی کوتاہی انھیں کسی صورت قبول نہیں تھی۔
دس سال کی عمر سے صبح پانچ بجے جاگنے والے حسین بخش کہتے ہیں کہ اس کے بعد کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ’دس سال کی عمر کا جگایا ہوا، پھر میں سویا نہیں۔‘
اور پھر استاد بھی تو ایسا تھا جس کے بارے میں حسین بخش نے ایک بار کہا تھا کہ ’وہ تان مارتے تھے تو لگتا تھا کوٹھا گر گیا۔۔۔‘ تو نتھو خان کی یہی ’مار‘ ہونہار بیٹے کو کافی تھی۔
ساٹھ ستر برس کی عمر کی محبت اور محنت شامل ہو تو، فنکار، فنکاروں کا فنکار بن جاتا ہے۔ پھر حسین بخش، حسین بخش گلو بنا، کلاسیکی موسیقی کا وہ گائیک جسے انڈیا اور پاکستان کے بڑے بڑے استادوں نے اپنا استاد مانا۔
موتی بازار سے نکل کر ان کی آواز دلیپ کمار اور لتا منگیشکر کے گھر کی مہمان بنی۔ دنیا بھر میں ان کے شاگردہوئے اور ہندوستان کی کلاسیکل موسیقی میں ان کا نام امر ہوا۔
موسیقی کے پٹیالہ اور شام چوراسی گھرانوں نے پنجاب میں بڑے بڑے گائیک پیدا کیے، حسین بخش گلو کا تعلق ان دونوں گھرانوں سے تھا، ایک طرف استاد بڑے غلام علی کی میراث، دوسری طرف چاند خان اور سورج خان کی لڑی، ایک خیال گائیکی کے لیے معروف، دوسرا درپد کے لیے مشہور، دونوں کا امتزاج۔۔۔ پھر ہندوستانی کلاسیکل، غزل، ٹھمری، کافی، فوک، ماہیا، حسین بخش نے جو گایا، کمال گایا۔
حسین بخش گلو: اونچے سْر لیکن دھیمے لہجے کا گائیک
حسین بخش گلو کی گائیکی جتنی بلند تھی، لہجہ اتنا ہی دھیما۔ مزاج اس سے بھی مدھم۔ ان کے ایک رفیق، موسیقار فہیم مظہر انھیں یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھیں ان کے ساتھپی ٹی وی میں کام کرنے اور بیرون ملک سفر کا موقع بھی ملا۔
ناروے کے سفر کے دوران حسین بخش گلو نے ان سے کہا کہ ’یار فہیم میں نے اتنی ریاضت کی ہے لیکن دسترس نہیں ہوتی، صبح گانے پر سانس اور ہوتی ہے اور شام کو کچھ اور۔‘
’تمام تر محنت کے باوجود ہر بار ایک سی کارکردگی ممکن نہیں۔ مزاج اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ تھکاوٹمیں گانے کا رنگ اور ہوتا ہے اور خوشی میں اور۔‘
فہیم مظہر کے خیال میں اتنے بڑے گائیک کے لیے یہ ماننا کہ اسے دسترس نہیں ہوئی، بہت بڑی بات ہے۔
فہیم مظہر پی ٹی وی کے لیے پروگرام ’فردوس گوش‘ نامی پروگرام کرتے رہے جس میں کئی بار حسین بخش گلو مدعو ہوئے۔
’گلوکار جب بیس، پچیس سال کی ریاضت کر لیتا ہے تو اس کا سارا کرودھ اور غرور موسیقی بھسم کر دیتی ہے۔ پھر اس کا مزاج بھی اسی گائیکی میں ڈھل جاتا ہے۔‘
کوک سٹوڈیو کا پہلا سیزن اور سٹرنگز کے ساتھ ریکارڈنگ
حسین بخش گلو نے اپنے ایک انٹرویو میں نئے گانے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’سارے فلمی بھنگڑیاں ول دوڑے نیں، اصل ول کوئی نئیں آندا، علم’سر‘ تے ’لے‘ دا اے‘۔ (سب فلمی بھنگڑوں کو دوڑتے ہیں، اصل کی طرف نہیں آتے،جو سُراور لے کا علم ہے۔)
سنہ 2008 میں کوک سٹوڈیو کے پہلے سیزن کے لیے انھیں سٹرنگز بینڈ کے ساتھ گوایا گیا۔ تب حسین بخش نے اس تجربے کو بخوشی قبول کیا اور ہارمونیم، تانپورہ اور طبلے کی دنیا سے نکل کر پاپ راک اور ویسٹرن بندوبست میں گھل مل گئے۔
سٹرنگز بینڈ کے بلال مقصود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تجربے کے بارے میں بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کی جو گائیکی ہے وہ ایک کھلی گائیکی ہے اس میں بندش نہیں۔ ہمارے گانےمیں کارڈز تبدیل ہو رہے تھے، اس میں ہر طرح کے نوٹس آ رہے تھے تو استاد صاب کا اس طرح کا تجربہ نہیں تھا، انھیں اسے سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔
’لیکن وہ سمجھنا چاہ رہے تھے اور اپنا سو فیصد دے رہے تھے اور ہمیں برا لگ رہا تھا کہ جیسا کہ ہم ان کو تکلیف پہنچا رہے ہیں اپنی موسیقی سے کیونکہ ان کی ’پیورٹی‘ کمپرومائز ہوتی نظر آ رہی تھی لیکن استاد صاب نے اس آدھے گھنٹے میں بہت اچھا گایا۔ پھر استاد تو استاد ہی ہوتا ہے ہم نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔‘
اس خطے نے موسیقیکے بڑے نام پیدا کیے ہیں لیکن حسین بخش گلو نے ساز کو سوز سےجیسے مدغم کیا، کوئی اور نہیں کر سکا۔
خود حسین بخش گلو کا کہنا تھا کہ یہ درد ’ماں‘ کا ہے۔ والدہ کی وفات کا درد انھوں نے اپنی گائیکی میں جیا اور یہ سوز اسی کی دین ہے۔
مہدی حسن خان نے ایک بار کہا تھاوہ جب اداس ہوتے ہیں تو حسین بخش گلو کو سنتے ہیں۔
فہیم مظہر کے مطابق مہدی حسن اور غلام علی جیسے فنکار بھی اس خطے کے بہت بڑے نام ہیں لیکن ان کی گائیکی میں الفاظ اور شاعری پر زور ہوتا ہے۔ ’لفظ‘ کی جہتیں نمایاں کی جاتی ہیں لیکن حسین بخش گلو کی آواز ہی شاعری ہے۔وہ آواز کے زیر و بم سے ہی تمام تر اثر پیدا کرتے ہیں۔
گائک پنجاب کی دھرتی سے اٹھے اور ماہیا، دوہڑا نہ گائے، ممکن نہیں ہے۔ استاد حسین بخش نے بھی ماہیا گایا، اور عوامی نوعیت کی اس صنف گائیکی کو بھی اسی کلاسیکل اُپج سے نبھایا جس طرح خیال یا ٹھمری کو۔
جب لتا منگیشکر نو گھنٹے تک استاد گلو کو سنتی رہیں
جوانی کے دنوں میں ممبئی کے ایک سفر میں حسین بخش گلو محفلوں میں گاتے رہے۔ لتا منگیشکر نے ان کی شہرت سنی تو رابطہ کیا اور کہا کہ ’ہمیں کب سنا رہے ہیں۔‘
لتا منگیشکر کی فرمائش پر فلمساز یش چوپڑا کے گھر پر تقریب منعقد کی گئی اور استاد کو بلایا گیا۔ حسین بخش گلو نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لتا نے آدھے گھنٹے تک کا وقت طے کیا تھا لیکن انھوں نے گانا شروع کیا تو نو گھنٹے تک موجود رہیں اور انکا گانا سنتی رہیں۔ اس محفل میں دلیپ کمار، سائرہ بانو، میوزک ڈائریکٹر خیام سمیت بہت بڑے بڑے نام موجود رہے۔
اسی طرحبالی وڈ گلوکار سونو نگمکا استاد گلو کے متعلق ایک بلاگ میں کہنا ہے کہ وہ ان کو بہت مانتے ہیں جب بھی انھیں کچھ اچھا سننا ہوتا ہے تو وہ ان کو سنتے ہیں۔ ان سے بہت سیکھا ہے۔ جم میں ورزش کے دوران وہ استاد کا ہی گایا ہوا کلام سن اور گنگنا رہے ہیں۔
استادوں کا یہ استاد اس دسمبر ہم سے بچھڑ گیا۔ موسیقی کا ایک خزانہ ہے جومٹی تلے دفن ہوا۔ انٹرنیٹ کے اس دورمیں چاہیے تو تھا کہ حسین بخش گلو کے سینکڑوں گیت سننے کو دستیاب ہوتے، لیکن گنی چنی ریکارڈنگز موجود ہیں جو زیادہ تر نجی محفلوں کی ہیں۔ چند ہی انٹرویوز ہیں اور وفات کی چند سطری خبریں کچھ چینلز اور ویب سائٹس پر۔
حسین بخش گلو نے زندگی کے آخری سال لاہور کے علاقے ثمن آباد میں جس خاموشی سے گزارے، اسی خاموشی سے وہاں سے چل دیے۔
اپنے حصے کے چراغ البتہ جلاتے گئے۔ ان کے دو بیٹے چاند خان اور سورج خان والد سے کلاسیکل سیکھنے کے بعد ’فیوژن‘ بھی کر رہے ہیں۔جبکہ کئی شاگرد بھی ان کا فیض لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
لیکن کیا ان میں ایسا کوئی ہو گا جو ان جیسا ’ریاضی‘ ہو۔جوعمر کے بیس تیس سال صرف سیکھنے پر لگا دے۔ آٹو ٹیون اور ری مکس کے زمانے میں، سوشل میڈیا کی ریلز اور سٹوریز سے دور، ٹرینڈ اور ہیش ٹیگ کی دنیا سے پرے،مگر ہیں کچھ شوقین، جنھیں دسمبر کی یہ شام بے حد اداس کر گئی ہے۔ جو جانتے ہیں کہ استاد حسین بخش گلو چل بسے تو پھر صدیوں میں پیدا نہیں ہوتا۔