’بس غذر سے راولپنڈی جا رہی تھی۔ کوئی چھ بجے کا وقت ہوگا کہ اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جو دس منٹ تک جاری رہی۔‘
گلگت بلتستان کے ضلع چالاس میں سنیچر کی شام دیامیر سے دو کلو میٹر دور ایک مسافر بس پر فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والے عینی شاہد سفیر علی نے اس حملے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔
سفیر کا کہنا تھا کہ ’بس میں اس وقت چیخ و پکار تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا۔‘ دس منٹ کا یہ وقت، جب فائرنگ جاری تھی، مسافروں کے لیے زندگی کے طویل ترین لمحات میں سے تھا۔
’ہمیں ایسا لگا کہ فائرنگ کرنے والے سب لوگوں کو قتل کرکے چھوڑیں گے۔‘
لیکن پھر دس منٹ بعد فائرنگ رک گئی۔ اس کے باوجود بس میں زندہ بچ جانے والے مسافر خوفزدہ تھے۔
گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس لون نے بتایا ہے کہ بس ڈرائیور نے فائرنگ کا آغاز ہوتے ہی کوشش کی کہ وہ بس کو اس مقام سے بھگا کر لے جائیں۔ تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ سامنے سے آنے والے ایک ٹرک سے مسافر بس ٹکرائی تو آگ لگ گئی۔
سفیر علی بتاتے ہیں کہ ’فائرنگ رکنے کے باوجود لوگ اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ وہ باہر سر نہیں نکال رہے تھے۔‘
’فائرنگ کے کافی دیر بعد تک زخمی کراہتے رہے۔ کچھ لوگ بس سے باہر نکلے اور کچھ نے اپنے فون پر پولیس، ریسیکو اور اپنے رشتہ داروں کو کالیں کرنا شروع کردیں تھیں۔ بعد میں پولیس اور امدادی کارکناں پہنچے اور انھوں نے سب کو ہسپتال پہنچایا۔‘
نامعلوم افراد کی جانب سے ایک مسافر بس پر فائرنگ کے اس واقعے میں آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 16 زخمی ہیں۔ تاحال اس واقعے کے ملزمان کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا تاہم حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان نے مشترکہ طور پر اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم قائم کر دی ہے۔
ڈی سی چالاس کیپٹین (ر) عارف کے مطابق ساڑھے چھ بجے بس پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے بس سامنے سے آنے والے ایک ٹرک سے ٹکرا کر حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بس میں سوار لوگوں کا تعلق پورے پاکستان سے ہے۔ ’ان میں کوہستان، پشاور، غذر، چلاس، مانسہرہ، صوابی کے علاوہ سندھ کے مسافر سوار تھے۔ اس میں پاک فوج کے دو جوان بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔‘
گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گلگت بلتستان حکومت کی رائے میں یہ واقعہ درحقیقت شاہراہ قراقرم اور اس سارے علاقے میں میگا پراجیکٹس کو نشانہ بنانے کی سازش ہے۔‘
شمس الحق لون کا دعوی تھا کہ جلد ہی ملزماں کو گرفتار کرلیا جائے گا جب کہ علاقے میں امن وامان کو مکمل بحال رکھا جائے گا۔
’وہ اوپر سے فائرنگ کر رہے تھے، سب نشانے پر تھے‘
مولانا شیر زمان غذر کے ایک علاقے کی جامع مسجد کے خطیب ہیں جہاں پر امامت کے علاوہ درس و تدریس کا کام کرتے ہیں۔
مولانا شیر زمان بھی اس بس میں سوار تھے جو فائرنگ سے معمولی زخمی ہوئے ہیں تاہم اب بہتر محوس کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس موقع پر ایسا کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس واقعے میں کون ملوث تھا اور کون نہیں ملوث تھا اور کیوں ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق یہ ’فرقہ ورانہ واقعہ نہیں لگتا تاہم دہشت گردی کا واقعہ ضرور تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’سب پر دور سے فائرنگ کی گئی جس میں کوئی ایک شخص نشانہ نہیں تھا بلکہ سب ہی نشانے پر تھے۔ وہ اوپر سے فائرنگ کر رہے تھے۔‘
مولانا شیر زمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امن و امان قائم کیا جائے اور واقعہ کے تمام محرکات کے علاوہ ملزمان کو منظر عام پر لایا جائے۔
’یہ واقعہ بلکل مختلف ہے‘
گلگت بلتستان کے اس علاقے میں پہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔
مقامی صحافی روشن دین دیامیری کہتے ہیں کہ 2012 میں راولپنڈی جانے والی ایک بس کو خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان کی حدود میں ٹارگٹ کیا گیا تھا جس میں مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’تب ایک ایک مسافر کی شناخت کرنے کے بعد ان کو بس سے نیچے اتار کر نشانہ بنایا گیا تھا۔‘ اس واقعے میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
روشن دین دیامیری کہتے ہیں کہ ’چلاس میں پہلے بھی مختلف واقعات ہوئے ہیں۔‘
’ہر واقعے کے پیچھے مختلف مقاصد تھے۔ اس واقعہ نے پورے علاقے اور شاہراہ قراقرم پر امن وامان کی صورتحال پر بہت گہرے سوالات چھوڑ دیے ہیں۔ بظاہر یہ واقعہ انتہائی سنگین نوعیت کا نظر آ رہا ہے۔‘
روشن دین دیامیری کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ نانگا پربت کے بیس کیمپ میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اکثر سکول جلانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔‘
روشن دین دیامیری کا کہنا تھا کہ ’اس واقعہ سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جس وقت چاہیں شاہراہ قراقرم پر کوئی بھی حملہ کر سکتے ہیں جس سے خوف و ہراس کے علاوہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی مفادات پر کاری ضرب پڑتی ہے اور نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔‘
دیامیر بھاشا ڈیم پر ’حملے کا خدشہ‘
وزیر داخلہ شمس الحق لون کہتے ہیں کہ ’واقعہ کے فوری بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی صدارت میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں سب کی رائے تھی کہ یہ منظم دہشت گردی کی واردات ہے جس کے ممکنہ محرکات میں شاہراہ قراقرم اور علاقے میں جاری میگا پراجیکٹس دیامیر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور دیگر کو نشانہ بنانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کوہستان میں داسو ڈیم کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’داسو ڈیم حملے کے بعد دیامیر بھاشا ڈیم پر حمے کا خدشہ موجود تھا اور اس حوالے سے حکومت اور سکیورٹی اداروں نے انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں۔‘
’ایسا امکان کم ہی ہے کہ ان منصوبوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے یہ ان منصوبوں کو ٹارگٹ کرنے میں ناکامی کے بعد دہشت گردوں نے سافٹ ٹارگٹ چنا جس کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شاہراہ قراقرم پاکستان کے لیے اہمیت کی حامل تو ہے ہی مگر گلگت بلتستان کے عوام کے لیے لائف لائن ہے۔‘
’اس شاہراہ سے گلگت بلتستان کی معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کا گہرا تعلق ہے۔ لگتا ہے کہ اس واردات کا مقصد پاکستان اور گلگت بلتستان کی معاشی سرگرمیوں اور میگا پراجیکٹس کو نقصاں پہچانے کی سازش ہے۔‘
’ڈرائیو نے ہمت دکھائی، فائرنگ کے دوران بس دوڑانے کی کوشش کی‘
وزیر داخلہ گلگت بلتستان شمس لون نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ ’ڈرائیور باہمت تھے جنھوں نے فائرنگ ہوتے ہی بس کو بھگانے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے سامنے سے آنے والے ایک ٹرک سے بس ٹکرا گئی اور شاید کچھ ہلاکتیں اس حادثے کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد ٹرک میں آگ بھڑک اٹھی جس سے ڈرائیور بھی ہلاک ہو گئے۔
واقعے میں ہلاک ہونے والے ڈرائیور میر عالم ہیں۔ ان کا تعلق ہنزہ سے ہے۔ یہ گذشتہ بیس سال سے شاہراہ قراقرم پر مختلف کمپنیوں میں ڈرائیونگ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
میر عالم کے بھانجے نور علی کا کہنا تھا کہ وہ ڈرائیونگ کے شعبے سے وابستہ ہونے سے پہلے فوج سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے مطابق وہ ایک نفیس انسان تھے جن کے ساتھ نہ صرف لوگ سفرکرنا پسند کرتے تھے بلکہ کمپنیاں بھی ان کی خدمات حاصل کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں۔
ان کے مطابق بس میں موجود لوگوں نے بتایا ہے کہ جب بس پر فائرنگ ہوئی تو یہ سامنے سے بھی ہوئی تھی۔ ’فائرنگایسے تھی جیسے گولیوں کی بارش ہو رہی ہو۔‘
نور علی کا کہنا تھا کہ ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرف ٹرک آ رہا تھا۔ ’اگر میر عالم صاحب نے اپنے ہوش و حواس اور بہادری سے کام نہ لیا ہوتا تو بس دریائے سندھ میں جاگرتی اور بس میں سوار چالیس کے چالیس لوگوں کی زندگیاں چلی جاتیں۔ دریائے سندھ میں گرنے والوں کی عموماً لاشیں بھی نہیں ملتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر انھوں نے بس کو دوسری جانب موڑا اور یہ ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔ ’ٹرک سے ٹکرانے کے باوجود فائرنگ ہوتی رہی مگر کئی لوگ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے۔‘
میر عالم نے سوگواروں میں چار بچے اور بیوہ چھوڑی ہیں۔