’بھائی کو گرفتار نہیں کیا بلکہ گھر سے اٹھایا گیا‘: کیچ میں سی ٹی ڈی کارروائی میں مارے جانے والے بالاچ بلوچ پر کیا الزام تھا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 25, 2023

’ہمارے چھوٹے بھائی کو فورسز کے اہلکار ہمارے گھر میں موجود تمام افراد کے سامنے اٹھا کر لے گئے لیکن بعد میں ان کے خلاف جھوٹا کیس بنا دیا اور اب ان کو مار کر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دوران اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے واحد بلوچ کا جن کے چھوٹے بھائی بالاچ بلوچ کی لاش ان چار لوگوں کی لاشوں میں شامل تھی جن کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے۔

چاروں افراد کی لاشوں کو جمعرات کی صبح ٹیچنگ ہسپتال تربت منقتل کیا گیا تھا۔

بالاچ کی لاش کو دفنانے کی بجائے ان کے لواحقین نے لاش کو رکھ کر فدا شہید چوک پر دھرنا دیا جو جمعے کے روز بھی جاری رہا۔

واحد بلوچ نے کہا کہ ان کے بھائی کا ماورائے آئین اور عدالت قتل کیا گیا، اس لیے انھوں نے لاش کو نہیں دفنایا اور وہ چاہتے ہیں کہ انصاف ہو۔

تربت سول سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے بتایا کہ مارے جانے والے تمام افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے اور ان کو مبینہ طور پر دوران حراست ہلاک کرنے کے بعد یہ بے بنیاد الزام عائد کیا گیا کہ تین افراد سی ٹی ڈی کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مارے گئے جبکہ بالاچ مارے جانے والوں کی ہی فائرنگ سے مارا گیا۔

اس واقعے کے خلاف نہ صرف تربت شہر میں دھرنا دیا جا رہا ہے بلکہ احتجاجاً شہر میں تمام تجارتی مراکز بند رہنے کے علاوہ بالاچ کی زیر حراست ہلاکت کے خلاف وکلا نے بھی کیچ میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔

دوسری جانب سرکاری حکام کا اور سی ٹی ڈی کا کہنا ہے بالاچ کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا اور انھیں ان کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ جہاں وہ مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔

بالاچ بلوچ کا تعلق تربت شہر کے قریب آبسر کے علاقے سے تھا۔ یہ علاقہ تربت شہر سے گاڑی پر دس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔

واحد بلوچ نے بتایا کہ بالاچ بلوچ کی عمر 22 سال کے لگ بھگ تھی اور انھوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بالاچ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ابھی تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔

واحد بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ تربت شہر میں ایک دکان میں بلوچی کشیدہ کاری کے کاروبار سے وابستہ تھے۔

’بالاچ کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ گھر سے اٹھایا گیا‘

واحد بلوچ نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کو باہر سے گرفتار کیا گیا کہ جو درست نہیں بلکہ ان کو ہمارے گھر سے ہی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال اکتوبر کی 29 تاریخ کو فورسز کے اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے۔

’جس وقت یہ اہلکار آئے اس وقت رات کےتقریباً ایک بج رہے تھے۔ یہ لوگ دیوار پھلانگ کر ہمارے گھر کے اندر داخل ہوئے۔‘

واحد بلوچ نے بتایا کہ ہمارے گھر میں داخلہونے کے بعد فورسز کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کیا یہ رحیم کا گھر ہے تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ رحیم کا نہیں، ہمارا گھر ہے۔

’یہ پوچھنے کے بعد وہ کمروں کے اندر داخل ہوئے اور الماریوں کو توڑ کر تلاشی شروع کی۔ میں نے ان کو بتایا کہ الماریوں کو نہیں توڑو، ان کی چابیاں ہیں، وہ میں آپ لوگوں کے حوالے کر دیتا ہوں۔ اس پر اہلکار غصے میں آ گئے اور مجھے سختی سے خاموش رہنے کا کہا۔‘

واحد بلوچ کے مطابق اہلکار وہاں سے میرے پاسپورٹ سمیت بعض دیگر دستاویزات اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ تلاشی کے بعد جب اہلکار واپس گئے تو بالاچ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔

’ہماری بالاچ سے عدالت میں ملاقات ہوئی‘

واحد بلوچ نے بتایا کہ 21 نومبر کو بالاچ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد ان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ جب بھائی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں ہماری ان سے ملاقات بھی ہوئی اور ہم خوش ہوئے کہ ان کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

بالاچ کے لواحقین کے وکیل جاڑین دشتی ایڈووکیٹ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ بالاچ کے خلاف باقاعدہ سی ٹی ڈی کی جانب سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

’جب ان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے دس روزہ ریمانڈ پر ان کو سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔ 29 تاریخ تک یہ ریمانڈ تھا لیکن اگلی پیشی سے قبل ان کی لاش ہسپتال میں پڑی ملی۔‘

ان کا کہنا تھا کہلواحقین کے استفسار پر انھیں بتایا گیا کہ وہ سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دوران مارے گئے۔

جاڑین دشتی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا لاپتہ افراد کے لواحقین اس بات پر خوش ہوئے کہ سی ٹی ڈی ان کے خلاف مقدمات قائم کر کے ان کو عدالتوں میں پیش کر رہا ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ زیر حراست قیدیوں کو اس طرح مارا جارہا ہے۔

واحد بلوچ نے کہا کہ ہم اور ہمارے گھر والے اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے بھائی کو ہمارے سامنے اٹھا لیا گیا لیکن بعد میں بتایا گیا کہ ان کو بارود کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔

انھوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے لگائے جانے والے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ ان کے بھائی کو دوران حراست قتل کیا گیا۔

’بالاچ کی طرح مارے جانے والے باقی تین افراد بھی لاپتہ کیے گئے تھے‘

تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزاردوست بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو بالاچ سمیت جن باقی تین افراد کی لاشوں کو تربت ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ان سب کی شناخت ہو گئی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ بالاچ کی طرح باقی تین افراد بھی ان لوگوں میں شامل تھے، جن کو مبینہ طور پر جبری طورپر لاپتہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’جعلی مقابلے میں ان کو مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو ہسپتال منقتل کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے باقی تین افراد کی شناخت ودود بلوچ ، شکور بلوچ اور سیف بلوچ کے ناموں سے ہوئی جن کی عمریں 20 سے 22 برس کے درمیان تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ودود بلوچ کو عید کے چوتھے روز پنجگور سے اٹھایا گیا تھا، شکور بلوچ کو ضلع کیچ کے علاقے تمپ اور سیف بلوچ کو یکم اگست کو تربت سے جبری طورپر لاپتہ کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ نہ صرف ان چار افراد کا ماورائے قانون قتل کیا گیا بلکہ اس سے چار پانچ روزقبل تین دیگر لاپتہ افراد کو گولی مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو ایک گاڑی میں رکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ لوگ ہوشاب کے علاقے میں سڑک کنارے بم دھماکے میں مارے گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت عادل بلوچ ، شاہ جہاں بلوچ اور نبی داد بلوچ کے ناموں سے ہوئی۔

انھوں نے بتایا کہ ان میں سے ’عادل بلوچ کو 22 اگست کو میرے ایک رشتہ دار کے چیمبر سے جبکہ شاہ جہاں بلوچ اور نبی داد بلوچ کو 25 اگست کو تربت سے جبری طورپر لاپتہ کیا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہوشاب سے ملنے والی ان لاشوں کو میں نے خود دیکھا تھا، جن کو پہلے گولی ماری گئی تھی اور پھر ان کو گاڑی میں ڈال کر دھماکہ کیا گیا۔‘

تاہم سرکاری حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ افراد دھماکہ خیز مواد لے جاتے ہوئے گاڑی میں دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

سرکاری حکام اور سی ٹی ڈی کا کیا کہنا ہے؟

بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بالاچ سمیت ان افراد کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کے الزام کو سختی سے مسترد کیا۔

بی بی سی کی جانب سے بالاچ بلوچ کے لواحقین اور احتجاج کرنے والی تنظیموں کی جانب سےلگائے جانے والے الزامات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے بالاچ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جنھوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا۔

’انھوں نے دوران تفتیش یہ بھی انفارمیشن دی تھی کہ پسنی روڈ پر ان کے دو تین ساتھی رات کو قیام کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنیاد پر سی ٹی ڈی نے وہاں چھاپہ مارا تاکہ ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے مگر جب سی ٹی ڈی کے اہلکار وہاں پہنچے تو بالاچ نامی شخص کے ساتھیوں نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں پر راکٹ فائر کیا۔ جس پر سی ٹی ڈی اور دہشت گردوں کے درمیان 20 منٹ تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران یہ لوگ مارے گئے جبکہ ان کے بعض ساتھی فرار ہوئے۔‘

انھوں نے استفسار کیا کہ ان لوگوں نے کس طرح یہ تعیّن کیا کہ یہ ایک جعلی مقابلہ تھا حالانکہ ’وہاں سے اسلحہ برآمد ہوا،اس کی تفصیل بھی ہے۔ دو کلاشنکوف، آئی ای ڈی ریموٹ کنڑول اور ایک موٹر سائیکل برآمد ہوا جس پر بارود نصب تھا۔‘

اس سلسلے میں بی بی سی نے کیچ پولیس کے سربراہ ضیا مندوخیل سے فون پر رابطہ کیا لیکن انھوں نے کال وصول نہیں کی تاہم کیچ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان افراد کی لاشوں کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ہسپتال منتقل کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ مقابلے میں مارے گئے ہیں۔

اس حوالے سے جب سی ٹی ڈی کے ایک سینیئر افسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے اس واقعے سے متعلق ایک تفصیلی پریس ریلیز جاری کی ہے۔

سی ٹی ڈی کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سال 2023 میں کالعدم عسکریت پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف نے تربت اور ضلع کیچ میں دہشت گردی کی 158 کاروائیاں کیں جن میں 66 معصوم لوگ ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔

پریس ریلیز کے مطابق سی ٹی ڈی بلوچستان کے آئی بی اوز کے نتیجے میں آٹھ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان سے اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا گیا اور ان افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کی پریس ریلیز کے مطابق 20 نومبر 2023 کو بالاچ ولد مولا بخش کو پانچ کلو بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کے علاوہ ان کا ریمانڈ حاصل کیا گیا۔

دوران تفتیش انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا تعلق کالعدم عسکریت تنظیم سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ یہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے لیے لے جا رہا تھا جنھوں نے تربت شہر میں دہشت گردی کی ایک اور کارروائی کرنی تھی۔

پریس ریلیز کے مطابق بالاچ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’اس سلسلے میں ایک موٹر سائیکل پر آئی ای ڈی نصب کر چکے ہیں جو کہ اس وقت پسنی روڈ پر ایک خفیہ مقام پر موجود ہے اور اس مقام پر ان کے ساتھی اکثر رات کو موجود ہوتے ہیں۔‘

پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا کہ اس انکشاف پر سی ٹی ڈی بلوچستان کی ایک چھاپہ مار ٹیم نے 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب بالاچ کی نشاندہی پر اس جگہ پر چھاپہ مارا مگر وہاں پہنچتے ہی پہلے سے موجود عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی اور راکٹ بھی فائر کیے۔ سی ٹی ڈی کی ٹیم نے جوابی فائرنگ کی اور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے وارننگ دی۔

پریس ریلیز کے مطابق عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ’ملزم بالاچ موقع پر ہی ہلاک ہوا جبکہ اس کے ساتھ موجود اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہا۔ فائرنگ کا تبادلہ 15 سے 20 منٹ تک جاری رہا جس کے دوران کچھ عسکریت پسند اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہو گئے۔‘

پریس ریلیز کے مطابق جب فائرنگ کا تبادلہ رک گیا تو وہاں پر تین عسکریت پسندوں کی لاشیں ملیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More