’چچا ملک اسلم نور کی موت سے تین دن قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، مرنے سے اپنے بڑے بیٹے کی بات پکی کر کے کچھ خوشی منانا چاہتا ہوں۔ واقعے سے ایک دن پہلے انھوں نے بیٹے کی شادی طے کی تھی۔‘
یہ کہنا ہے قبائلی رہنما ملک اسلم نور کے بھتیجے ملک نظام الدین وزیر کا۔ کچھ روز قبل ملک اسلم نور صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے وزیرستان میں ایک دھماکے میں اپنے دو کم عمر بیٹوں کے ہمراہ مارے گئے تھے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ملک اسلم نور کو وزیرستان میں امن کے لیے کوشش اور لڑائی لڑنے پر صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ’ان کا اس طرح قتل کیا جانا، حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔‘
’شدت پسند عناصر نے ملک اسلم نور کو قتل کر کے کھلا پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان، حکومت اور امن کے حامیوں کو قتل کریں گے۔ امن کی کوشش کرنے والوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور اس کا کوئی ازالہ ممکن نہیں ہے۔‘
ان کا خاندان اب تک پاکستان میں قیامِ امن کے لیے چھ زندگیاں دے چکا ہے۔ ’اس میں میرے دو سگے بھائیوں کے علاوہ میرے والد ملک خادین بھی شامل ہیں جنھیں بعد از مرگ 2021 میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا۔‘
مگر وہ شدت پسندوں کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ ’ہم وانا نہیں چھوڑیں گے۔‘
’یہ واقعہ دہشت گردی کا نتیجہ ہے‘
ملک اسلم نور اور ان کے بیٹوں کے قتل کا مقدمہ تھانہ سٹی وانا میں پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
اس کے مطابق پولیس کو وانا میں ایک دکان میں دھماکے کی اطلاع ملی اور ابتدائی تفتیش میں یہ آئی ای ڈی حملہ معلوم ہوا۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اس دھماکے میں ملک اسلم نور کے دو کم عمر بیٹے اور ایک اور شخص صاحب نور مارے گئے ہیں جبکہ دکان مالک اباسین سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ ’حالیہ دہشت گردی کی ایک کڑی ہے جو کہ نامعلوم دہشت گردوں نے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کیا ہے۔‘
تاہم ملک نظام الدین کے مطابق یہ ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا واقعہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’شدت پسندوں نے ملک اسلم نور کے معمولات زندگی پر نظر رکھی ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شدت پسند سمجھتے ہیں کہ ہم وانا میں امن کی ضمانت ہیں۔ اس لیے وہ ہمیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔۔۔ میرے دو کم عمر چچا زاد بھائیوں کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ تو اتنے کم عمر تھے کہ انھیں تو یہ بھی پتا نہیں تھا کہ ان کے والد کرتے کیا ہیں۔‘
’کوئی بھی امن کی بات کرتا تو دونوں بھائی اس کے ساتھ ہوتے‘
وزیرستان کے صحافی سعید وزیر بتاتے ہیں کہ ملک خادین اور ملک اسلم نور اس صدی کے آغاز میں پہلے دبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ ان کا کچھ وقت وزیرستان اور کچھ دبئی میں گزرتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب نائن الیون ہوا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی گئی تو اس وقت افغانستان سے کئی جنگجو، جن میں زیادہ تر خارجی یعنی غیر ملکی تھے، نے وزیرستان میں ڈیرے ڈالے۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے تو اس موقع پر مقامی طور پر ان کے مقابلے میں لشکر تیار کیے گئے۔‘
سعید وزیر کہتے ہیں کہ ’ان دونوں بھائیوں نے اس وقت مقامی لشکر کی قیادت کی۔ ملک خادین لشکر کی قیادت کرتے اور ملک اسلم نور ان کے نائب ہوتے۔ اس دوران کئی مقابلے اور کئی واقعات ہوئے۔‘
’وزیرستان اور وانا میں اگر کوئی امن کی بات کرتا تو یہ دونوں بھائی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔‘
ملک نظام الدین وزیر کہتے ہیں کہ ’2002 سے لے کر اب تک ہم لوگ حالتِ جنگ میں ہیں۔ کئی مرتبہ ہم پر حملے ہوئے ہیں۔ میرے والد اور میرے چچا پر کئی حملے ہوئے جس میں وہ زخمی ہوئے۔ اس وقت ان کی زندگی تھی، بچ گئے۔ مگر پھر 2009 کے ایک حملے میں میرے والد زندگی کی بازی ہار گئے تھے حالانکہ 2007 میں (شدت پسندوں سے) مشہور زمانہ امن معاہدہ بھی ہوا تھا۔‘
’ہم نے وزیرستان میں وہ دور بھی دیکھا جب یہاں قتل عام ہوتا تھا، لوگوں کے گلے کاٹے جاتے تھے اور ظلم کیا جاتا تھا۔ اس وقت میدانِ جنگ میں میرے والد اور چچا ہی کھڑے رہتے تھے۔‘
’والد نے کہا تھا کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا‘
ملک نظام الدین وزیر کہتے ہیں کہ ایک حملے میں وہ زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ اس موقع پر ان کے والد ملک خادین اور چچا ملک اسلم نور انھیں ہسپتال دیکھنے آئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے مجھے زخمی دیکھا تو مجھے حوصلہ دیا اور کہا کہ بیٹا ہم اس لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹ سکے۔ اگر ہم پیچھے ہٹ گے تو وزیرستان میں صرف دہشت گردی ہی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والد نے مجھے کہا کہ اس لڑائی میں تو صرف تمھاری آنکھ کام آئی ہے۔ اگر میرے پندرہ کے پندرہ بیٹے بھی کام جائیں تو کوئی بات نہیں۔ ہم ڈرنے اور جھکنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ کل بھی کھڑے تھے آج بھی کھڑے ہیں اور آنے والے کل بھی کھڑے رہیں گے۔‘
ملک نظام الدین وزیر کہتے ہیں کہ ان کے والد کے مارے جانے کے بعد ان کے چچا ملک اسلم نور اپنے بھائی کی جگہ پر قیادت کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’ہمارا کاروبار ہے، چاہیں تو کسی بھی ملک جاسکتے ہیں۔ چاہیں تو پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں مگر والد اور میرے دو بھائیوں کے مارے جانے کے بعد بھی میرے چچا ڈٹے رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے چچا اکثر خطرہ محسوس کرتے تھے۔ ان سے ہم کہتے بھی تھے کہ وہ خفیہ مقام پر چلے جائیں، کہیں باہر چلیں جائیں۔ مگر انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جب مرنا ہوگا مر جاؤں گا مگر اس طرح نہیں مر سکتا کہ مجھے کہا جائے کہ میں نے علاقہ چھوڑا ہے۔‘
’حکومت قربانیوں کے بعد صرف ایوارڈ دیتی ہے تحفظ نہیں‘
ملک نظام الدین وزیر کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں ان کے کئی ساتھی، دوست و احباب مارے گئے ہیں اور انھوں نے ’یہ قربانی درحقیقت علاقے کے امن کے لیے دی۔‘
ملک نظام الدین وزیر کہتے ہیں کہ ملک اسلم نور کے قتل سے پتا چل رہا ہے کہ اب وزیرستان کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں۔
’ہم علاوہ نہیں چھوڑیں گے۔ دو کم عمر بچوں کے مارے جانے کے بعد اب عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر ضرور بھیجیں گے مگر ہم خود نہیں جائیں گے۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں بتائے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ملاقاتوں میں تسلی ضرور دی جاتی ہے۔ مگر میرے والد اور چچا اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ وہ قدرتی موت نہیں مرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے ابھی تک جن لوگوں کو امن کی خاطر قربانی دینے اور کام کرنے پر صدارتی ایوارڈ دیا ہے ان کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔
’اتنی قربانیوں کے بعد صرف ایوارڈ ہی دیے ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے۔‘