’شدت پسندی سے 19 فیصد زیادہ اموات‘ کیا پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 23, 2023

Getty Images70 سالہ نوکر خان کے مطابق مرنے والے محمد صلاحکے دو کمسن بچے ہیں جن میں ان کا پانچ سالہ بیٹا ان کا وارث ہے

’مستونگ میں ہونے والے خود کش حملے میں میرے خاندان کے دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان میں سے ایک میرا بھتیجا تھا جو سات بہنوں کا اکلوتا بھائی اور دو معصوم بچوں کا باپ تھا۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوکر خان کا جن کے ایک بھتیجے کی ہلاکت کے علاوہ ایک اور بھتیجے کا بیٹا مستونگ میں 12ربیع الاوّل کو ہونے والے خود کش حملے میں مارے گئے۔

بلوچستان میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے بدامنی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے لیکن رواں سال کے دوران مستونگ میں ہونے والا یہ خود کش حملہ شدت پسندی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

سرکاری حکام کے مطابق اس خود کش حملے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور 45 زخمی ہو گئے۔

پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں خیبرپختونخوااور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔

پاکستان میں حکام کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں پر عائد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں تاہم نہ صرف افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتی رہی ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور کیا پاکستان دوبارہ سے شدت پسندی کے سابقہ دور کی جانب بڑھ رہا ہے؟

’اب یہ چھوٹا بچہ اپنے خاندان کو کیسے سنبھالے گا‘Getty Imagesحکام کے مطابق مستونگ دھماکے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور 45 زخمی ہوئے

مستونگ میں 12 ربیع الاوّل کے واقعے نے کئی خاندانوں کا اجاڑ کر رکھ دیا۔ اس واقعے میں بعض خاندانوں کے دو یا اس سے زیادہ افراد مارے گئے جن میں نوکر خان کا خاندان بھی شامل ہے۔

نوکر خان کا تعلق بنیادی طور پر بلوچستان کے ضلع کچھی سے ہے لیکن وہ گرمیوں میں اپنے خاندان اور قبیلے کے دیگر افراد کے ہمراہ ضلع مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں نقل مکانی کرتے ہیں۔

ان کی عمر 70 سال کے لگ بھگ ہے جبکہ وہ ایک پیر سے معذور بھی ہیں۔ اس واقعے میں نوکر خان کا 22 سالہ بھتیجا محمد صلاح اور دوسرے بھتیجے کا بیٹا نور االلہ مارا گیا۔

ایک چھوٹے سے خیمے میں اپنے ساتھ بیٹھے ایک کمسن بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوَئے نوکر خان نے کہا ’یہ میرے مرنے والے بھتیجے کا بیٹا ہے۔ بھلا اب یہ چھوٹا بچہ اپنے خاندان کو کیسے سنبھالے گا۔‘

نوکر خان بتاتے ہیں کہ ’محمد صلاح یتیم تھا۔ ہم نے اس کی جلدی شادی کرائی۔ اس کے دو کمسن بچے ہیں جن میں اس کا یہ پانچ سالہ بیٹا ان کا وارث ہے۔ بھلا یہ بتائیں کہ یہ بچہ اب اپنے والد کی سات بہنوں، اپنی والدہ، اپنی بہن اور خود اپنا خیال کس طرح رکھ سکے گا۔‘

’ان کی بھی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ گئی جبکہ میری اپنی حالت آپ کے سامنے ہے کہ میرے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے۔‘

’بچے پوچھتے ہیں ابو کب واپس آئیں گے‘BBC

کھڈ کوچہ کے علاقے شریف آباد کے شفیع محمد کے خاندان کے بھی دو افراد مستونگ میں مارے گئے جن میں ان کا بڑا بھائی ولی محمد اور چچازاد بھائی فیض سلطان شامل ہیں۔

شفیع محمد خود بھی اس جلوس میں شریک تھے لیکن وہ اس مقام سے کچھ فاصلے پر تھے جہاں خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑایا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جلوس کی سکیورٹی کے لیے مناسب انتظامات نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ولی محمد کے آٹھبچے ہیں اور وہ ٹرک چلا کر اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرتے تھے جبکہ ان کے چچازاد بھائی فیض سلطان کے بھی دو بچے ہیں اور وہ ایک چھوٹا سا کیبن چلا کر گزارا کرتے تھے۔‘

انھوں نے دکھ بھری آواز میں بتایا کہ ’بھائی کے بچوں میں سے جن کو اپنے والد کے دنیا سے چلے جانے کی سمجھ بوجھ نہیں وہ پوچھتے ہیں کہ ابو کب آئیں گے۔ اب ہم ان کو کس طرح سمجھائیں کہ ان کے والد دنیا میں نہیں رہے۔‘

شفیع محمد نے بتایا کہ اس سانحے کے بعد حکومت کا نہ کوئی فرد آیا اور نہ ہی کس نے پوچھا کہ جو خاندان اجڑ گئے ان کا کیا ہو گا۔

Getty Imagesسنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال شدت پسندی کے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد 19 فیصد زیادہ ہےاس سال شدت پسندی کے 450 سے زائد واقعات رونما ہو چکے

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ستمبر کے مہینے تک پاکستان میں شدت پسندی کے 450 سے زائد واقعات رونما ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کی دوسری سہہ ماہی میں شدت پسندی کے واقعات میں 284 ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کی تیسری سہہ ماہی میں ان کی تعداد بڑھ کر 445 ہو گئی اور اس طرح تین ماہ میں ان واقعات میں 57 فیصد اضافہ ہو گیا۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ہونے والے واقعات میں 386 سکیورٹی اہلکار مارے گئے، 333 عام شہری جان کی بازی ہار گئے جبکہ 368 شدت پسند بھی ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے ان میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں خیبرپختونخوا اور دوسرے نمبر پر بلوچستان میں ہوئیں جبکہ سندھ ، پنجاب اور اسلام آباد میں یہ تعداد نسبتاً کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں شدت پسندی کے واقعات کے رحجان میںگزشتہ پانچ سال میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور سنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال ایسے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد 19 فیصد زیادہ ہے۔

سرکاری حکام کا مؤقف

سنہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شدت پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ نقصان سکیورٹی فورسز کا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان واپس اس دور کی طرف جا رہا ہے، جب شدت پسندی کے زیادہ واقعات رونما ہو رہے تھے۔

چترال سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں تحریک طالبان اور بعض دیگر شدت پسند تنظیموں کے حملوں کے بعد پاکستان میں سرکاری حکام نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کو مورد الزام ٹھرانا شروع کیا۔

جیونیوز کے پروگرام جرگہ میں نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے یہ کہا تھا کہ افغانستان یہ جانتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کہاں ہے۔

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان میں پاکستان دشمن سرگرمیوں کے منصوبوں، وہاں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزِیئر افغان حکومت کو فراہم کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہمسایہ ملک کی حیثیت سے افغانستان کو اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے تھا لیکن تاحال افغان حکومت کی جانب سے اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی بجائے افغانستان میں موجود شرپسند عناصر نے جلتی پر تیل ڈالنے کا منصوبہ بنایا تاکہ پاکستان میں حساس نوعیت کے معاملات میں دہشت گردی کا الزام پاکستانی اداروں پر لگایا جا سکے۔‘

نگراں وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔

’ہمارے بھائی چارے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہمنے کسی کی بالادستی اور جارحیت کو کبھی قبول نہیں کیا۔‘

AFPرپورٹ کے مطابق ستمبر تک ہونے والے واقعات میں 386 سکیورٹی اہلکار مارے گئےپاکستانی حکام کے الزامات کے بارے میں تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

جب افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کے بارے پاکستانی حکام کے الزامات کو سینیئر صحافی فرزانہ علی کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیر اعظم نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کے بارے جو بات کی، اس میں کوئی شک نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’15 اگست کو طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں جیلوں سے جو لوگ نکلے، ان میں سے بعض وہ تھے جو پاکستان کی مطلوب لوگوں کی فہرست میں شامل تھَے۔‘

’2021 اور 2022 میں افغانستان میں دھماکوں میں یا دوسرے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ان کی فہرست کو دیکھ لیں۔ تحریک طالبان یا دوسرے گروپوں کے لوگ وہاں مارے جا رہے ہیں جو اس بات کی گواہی ہے کہ ٹی ٹی پی وہاں موجود ہے۔‘

فرزانہ علی نے کہا کہ یکم نومبر سے غیر ملکی تارکین وطن کو واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا گیا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان ہے۔

’ظاہر ہے کون غیر ملکی تارکین وطن کو اپنے ملک میں رکھے گا؟ لیکن شاید ٹائمنگ کا مسئلہ تھا یا اس کو غلط انداز سے ڈیل کیا گیا جس سے نفرتوں میں اضافہ ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر نفرتوں کاایک طوفان برپا ہے۔ بے روزگار لوگوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہو گی۔ ان کا گھر بار نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔ افغان حکومت کے جو جواباتآ رہے ہیں وہ افسوسناک اور حیران کن ہیں۔ ان کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ معاملہ ٹھیک طرف نہیں جا رہا۔پاکستان کی جانب سے بھی سخت بیانات آرہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو گا۔‘

’جو باتیں انھوں نے کی یا یہاں سے ہوئیں، ان سے لگتا ہے کہ وہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ افغان حکام افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات کے حوالے سے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں جبکہ ماضی میں افغان حکام پاکستان پر افغانستان میں مداخلت اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More