قراقرم کے خاموش اور پُرخطر راستوں کی مسافر وہ آخری مویشی بان خواتین جن کی زندگیاں کسی پہیلی سے کم نہیں

بی بی سی اردو  |  Nov 23, 2023

اُس سال جاڑے کے دن جلدی ہی آ گئے تھے۔ گھاس زرد پڑنا شروع ہوئی اور چند ہی دنوں میں اِس قدر خشک ہو گئی کہ ننگے پَیر تنکے کاٹنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے برف جمنے لگی۔ ہر صبح اس کی تہہ پچھلے دن کی نسبت موٹی اور سخت ہو جاتی۔ یہ انار بیگم کے لیے پیغام تھا کہ اب گھر واپس جانے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع شمشال وادی میں واخی کمیونٹی کی آخری مویشی بان خواتین میں سے ایک ہیں۔

گھر واپسی سے چند ماہ پہلے ہی انھوں اپنی بیٹی اور بیٹے کو ’پامیر‘ چراگاہ میں دفنایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اُس سال کی تکلیف الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔

’میں بالکل ایسے خالی ہاتھ تھی،‘ انار بیگم نے اچانک اپنی بند مٹھیاں کھولیں اور ہاتھ پھیلا دیے۔ اس واقعے کو ساٹھ سال گزر چکے ہیں، مگر انھیں اب بھی وہ سفر اچھی طرح یاد ہے۔ وہ پامیر چراگاہ پہنچے ہی تھیں کہ پہلے اُن کے بیٹے کی موت ہوئی اور اگلے ہی روز اُن کی بیٹی بھی دم توڑ گئی۔

وہ سال انار بیگم اور ان کی ساتھی واخی خواتین کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ اس سال پامیر کی جانب تین دن کے سفر کے دوران درجنوں بچے بیمار ہوئے تھے اور جب سفر ختم ہوا تو 12 بچے ہلاک ہو چکے تھے۔

’اُن کی موت آج تک پہیلی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ہمیں نہیں پتا کہ اُس سال کیا ہوا تھا۔ وہ بچے ایک، ایک کر کے ہمیں چھوڑتے گئے۔‘ انار بیگم آخری بار پامیر کے قبرستان میں کھڑی اپنے دو بچوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔

ان کا ضعیف جسم کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد تھک گیا تو وہ وہیں بیٹھ گئیں۔ وہاں درجن بھر قبریں اور بھی تھیں۔ کچھ اُن خواتین کی جو گرمیوں میں اپنے گھربار سے دور جان کی بازی ہار گئی تھیں اور کچھ اُن بچوں کی جو پراسرار بیماریوں کا شکار ہو کر فوت ہوئے۔

صدیوں سے اِن واخی مویشی بان خواتین کے بہت سے چیلنجز میں سے ایک چیلنج یہی تھا: ہر روز زندگی اور موت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرنا۔

واخی کمیونٹی پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کی وادی شمشال میں مقیم ہیں۔ یہ وادی پاکستان کی بلند ترین آبادی ہے جو افغانستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ صدیوں پہلے ان کے آباؤ اجداد واخان کوریڈور سے ہجرت کر کے شمشال پہنچے تھے۔

مگر جو بات شمشال وادی کو واخان اور قراقرم کے پہاڑوں میں بسنے والی دیگر آبادیوں سے مختلف بناتی ہے وہ یہاں کی بزرگ خواتین ہیں۔ انھیں واخی مویشی بان کہا جاتا ہے۔

کئی صدیوں سے ان خواتین نے قراقرم کی بلند چوٹیوں پر واقع سبزہ زاروں پر حکمرانی کی ہے اور خود کو کامیاب کاروباری خواتین ثابت کیا ہے۔ یہ ہر سال گرمیوں میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیں، بکریاں اور یاک (جنگلی بیل) پامیر کی چراگاہ میں چرانے لے جاتی رہی ہیں۔

BBC

مگر اب اِس گاؤں میں صرف سات واخی مویشی بان خواتین ہیں اور وہ زمانہ اور روایات اور سب سے بڑھ کر اُن کا پیشہ جس سے وہ واقف تھیں، اُن کی نظروں کے سامنے ختم ہو رہا ہے۔ رواں برس ان خواتین مویشی بانوں نے پامیر کی سرسبز چراگاہ کی جانب آخری سفر شروع کیا تو بی بی سی کی ٹیم بھی اُن کے ساتھ روانہ ہو گئی۔

ہم نے چھ واخی مویشی بان خواتین کے ساتھ پامیر کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ ان کی روانگی کے تہوار کو ’کوچ‘ کہا جاتا ہے۔ ’کوچ‘ سے پہلے سفر کے لیے روایتی کھانا تیار کیا جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ جانے والی مویشی بان خواتین میں بانو بیگم بھی شامل ہیں۔ بانو بیگم، جن کی عمر ستر سال سے زیادہ ہے، گذشتہ دو دہائیوں سے ہر سال ان پہاڑوں کا سفر کر کے پامیر پہنچتی ہیں۔ وہ اس راستے کی ہر مشکل سے بخوبی آگاہ ہیں۔

’یہ راستہ ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے۔ یہاں جانے والی عورتیں نہ صرف بیس سے چالیس کلو کا سامان اٹھا کر چلتی تھیں، بلکہ ہم نے اپنے بچے بھی اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوتے تھے۔‘

ہمارے ساتھ اس سفر میں شامل سب سے ادھیڑ عمر انار بیگم ہیں جن کی عمر 88 برس ہے اور سب سے کم عمر سکینہ بانو 56 سال کی ہیں لیکن ان تمام خواتین کی رفتار ہم سے کئی گنا تیز تھی۔

شمشال کی وادی دو ہزار کی دہائی کے اوائل تک دنیا بھر سے منقطع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شمشال میں بسنے والے ان واخی خاندانوں کے پاس گزر بسر کے لیے صرف دو ہی راستے تھے، یعنی کھیتی باڑی اور مویشی بانی۔

سطح سمندر سے تین ہزار میٹر کی بلندی پر اور شدید سرد موسم کے باعث یہاں کھیتی باڑی یا زراعت پر مکمل دارومدار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یوں شمشال کے مرد گرمیوں کے موسم میں وادی میں محدود کھیتی باڑی کرتے اور یہاں کی خواتین بھیڑ بکریوں کے ریوڑ لیے پامیر کی چراگاہ کی جانب چل پڑتیں۔

شمشال وادی کے اس گاؤں سے نکلنے کے لیے دریا کے اوپر ایک طویل لکڑی کا پُل ہے۔ ہوا میں لہراتے اس پُل کے نیچے دریا کا ٹھاٹھیں مارتا پانی کچھ لمحوں کے لیے چکرا دیتا ہے۔

پُل عبور کرتے ہی زمین اور راستہ بدل جاتا ہے اور یہ مقام قراقرم کے انتہائی مشکل ٹریک کا نقطہ آغاز ہے۔

پامیر کی جانب جاتے اس ٹریک کو ’شمشال پاس ٹریک‘ کہا جاتا ہے اور کوہ پیما اس پر متفق ہیں کہ یہ ملک کے شمالی علاقوں کے مشکل ترین ٹریکس میں سے ایک ہے۔

پامیر کی یہ چراگاہ تقریباً 16 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے جو دنیا کی دوسری اونچی چوٹی کے ٹو کے بیس کیمپ کے برابر ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے ہمیں پانچ دن کا پیدل سفر درکار ہے۔ راستے دشوار گزار ہیں اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔

’ہمارا لباس یہ نہیں تھا جو ہم آج پہنتے ہیں‘، انار بیگم نے اپنی پرانی جیکٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا۔ ’ہم بہت سادہ سے کپڑے پہنتے تھے۔ ہمارے پاس تو جوتے تک نہیں ہوتے تھے، اور ہم یوں پاؤں اٹھا کر برف میں چلا کرتے‘۔ انار بیگم نے یہ کہتے ہوئے پاؤں کے پنجے یہ دکھانے کے لیے اٹھا لیے کہ وہ کیسے انگلیوں کے بل برف میں چلتی تھیں۔

افروز نما جن کی عمر 67 سال ہے، شمشال کی پہلی مویشی بان خاتون ہیں جنھوں نے اس گاؤں میں سب سے پہلے جوتے پہنے۔ انھیں یاد ہے کہ کیسے اُن کے جوتوں نے علاقے کے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔

’جب میری شادی ہوئی تو میرا ایک بھائی کراچی میں تھا۔ ہم گلگت میں رہتے تھے اور میری شادی شمشال میں طے پائی۔ میرے بھائی نے میرے لیے جوتوں کے دو جوڑے تحفے کے طور پر بھیجے۔ لوگ میرے جوتے دیکھنے آیا کرتے تھے۔ گاؤں کی شادیوں کے لیے یہاں کی خواتین میرے جوتے اُدھار لیا کرتی تھیں۔‘

پامیر کی جانب یہ ٹریک انتہائی تنگ پگڈنڈی کی مانند راستہ ہے۔ بعض مقامات پر اسے پتھروں کی مدد سے پختہ کیا گیا ہے مگر بیشتر حصہ یا تو کچا ہے یا بعض مقامات پر پہاڑ میں گم ہو جاتا ہے۔ متعدد مقامات پر یہ راستہ لینڈ سلائیڈز کی وجہ سے نیچے سرکنے والے پتھروں میں چھپ گیا ہے۔ وہ مقامات، جہاں مسلسل لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے، عبور کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔

BBC

شمشال پاس کے دروازے تک تقریباً تمام راستے میں ایک طرف گہری کھائیاں ہیں۔ ٹریک عام طور پر چوٹی کے قریب ہوتا ہے۔ یہاں دریا کے پانی کا شور بھی بہت ہلکا سُنائی دیتا ہے جبکہ دوسری جانب بلند پہاڑ جہاں سے پتھروں کے نیچے آنے کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے۔ یہاں لمحوں میں حالات تبدیل ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسا راستہ ہے جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ کا ایک غلط قدم زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے لیکن یہ مویشی بان خواتین اور اِن کے ریوڑ خاموشی سے ان ہی راستوں پر چلتے جاتے ہیں۔

’یہ راستہ بہت خراب تھا۔ پہلے تو ہم جو ٹریک استعمال کرتے تھے وہ دراصل یاک (جنگلی بیل) کے لیے بنا ہوا تھا۔ وہ اس کی نسبت زیادہ خطرناک، مشکل اور لمبا تھا۔‘ انار بیگم نے پرانے راستے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا۔

’اب یہ والا تو بہت آسان ہے۔ یہاں ہمیں کوئی مشکل نہیں،‘ اُن کا یہ جملہ سنتے ہوئے میں اس لینڈ سلائیڈ کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کی زد میں آ کر یہ یقین ہو گیا تھا کہ آج ہم نہیں بچ سکتے۔

بل کھاتے اس پتھریلے ٹریک پر چلتے ہوئے ان کی بکریاں اور بھیڑیں ایک سیدھ میں آگے بڑھتی ہیں۔ ایک بھی موقع ایسا نہیں آتا جب وہ لڑکھڑائیں اور کسی کھائی میں گر جائیں۔ کبھی کبھار جب ان میں سے چند شرارتی میمنے یا بھیڑ کے بچے اچھلتے کودتے راستے سے ہٹ بھی جائیں تو جلد ہی یہ اپنی مالکن مویشی بانوں کی جانب اپنا راستہ خود ہی ڈھونڈ رہے ہیں، بالکل ایسے جیسے یہ اپنی چھٹی حِس استعمال کر رہے ہوں۔

یہ چرواہا خواتین کی سیٹیوں اور آوازوں پر بھاگے آتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے پامیری مویشی بانی کا ہنر اپنی معراج پر ہے۔

’پہلے تو ہمارے پاس بہت سارے جانور ہوتے تھے۔ اتنے زیادہ کہ ہم انھیں چھوٹے چھوٹے ریوڑ بناتے اور آپس میں تقسیم کر دیتے۔ ہم عورتوں کی تعداد بھی خاصی ہوتی تھی۔ دو یا تین عورتیں ایک چھوٹے ریوڑ کی دیکھ بھال کرتیں‘۔ بانو نے مجھے یہ سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اتنے طویل اور مشکل ٹریک کے دوران کیسے ہزاروں جانوروں کی حفاظت کی جاتی تھی۔

ہمارے اس سفر میں بانو کے بیٹے وزیر بھی اپنی والدہ کے ہمراہ پامیر کے سبزہ زار تک گئے۔ انھیں فکر تھی کہ ان کی والدہ معمر ہیں اور راستے میں وہ کسی پریشانی کا شکار ہو سکتی ہیں۔

ماضی میں ہر سال 100 کے قریب واخی خواتین مویشی بان شمشال سے پامیر کا سفر کرتی تھیں۔ ہر تین عورتوں کے حصے میں جانوروں کا ایک گروہ آتا اور یہ ان کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ان کو بحفاظت پامیر تک پہنچائیں گی۔

’جانوروں کی اتنی بڑی تعداد کو ان راستوں سے چراگاہ تک لے کر جانا بہت مشکل کام تھا۔ یہ اِدھر اُدھر چھلانگیں لگاتے اور اکثر بھاگ جاتے تھے۔ کبھی ہمارے جانور گم بھی ہو جاتے تھے۔ یہ گھاس چرنے ادھر ادھر نکل جاتے۔ ان میں کچھ تو واپس آ جاتے مگر کچھ ایسے بھی تھے جو واپس نہیں آتے تھے۔‘

بانو بتاتی ہیں کہ یہاں موسم ایک بڑا چیلنج تھا: ’جب یہ خراب ہو جاتا تو سفر ممکن نہیں رہتا تھا۔ تب ہم اپنے جانوروں کے لیے پتھروں سے چار دیواری بناتے تاکہ انھیں پناہ مل سکے۔ ہم اس وقت تک وہیں ان کے ساتھ رہتے جب تک موسم ٹھیک نہ ہو جاتا۔‘

قراقرم کے بیچ گزرنے والے دن نہایت بے رحم ہو سکتے ہیں۔ تیز، تپتی دھوپ اور نہ ختم ہونے والا راستہ، کسی بھی مضبوط انسان کو تھکا دینے کے لیے کافی ہے۔ ہر روز اوسطا آٹھ گھنٹے چلنے کے بعد بھی ان واخی مویشی بانخواتین کا حوصلہ بلند رہا اور یہ کبھی نہیں تھکیں۔

جیسے جیسے بلندی بڑھتی جاتی ہے، آکسیجن میں کمی آتی ہے اور سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ یہاں موسم کا بھی اپنا ٹائم ٹیبل ہے جس کی کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ بارش، برفباری اور سلگا دینے والی گرمی، یہ سب ہی پکے ساتھی معلوم ہوتے ہیں اور ان سب کے بیچ لینڈسلائیڈز، یہ وہ خطرہ تھا جس کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔

یہ خواتین ہر چند گھنٹوں بعد کسی نہ کسی چوٹی کے نچلے سرے پر کھڑی ہوتیں اور چوٹی کی جانب غور سے دیکھتیں۔ کچھ لمحے مشاہدہ کرنے کے بعد وہ فیصلہ کرتیں کہ اس چوٹی پر چڑھنا ہے یا انتظار کرنا ہے۔ یہ مقامی واخی باشندے پہاڑوں کی چوٹیوں پر اڑتی گرد کے بادلوں سے اندازہ لگاتے ہیں کہ لینڈسلائیڈ ہو گی یا نہیں۔

جب میں اپنے ڈرون آپریٹر کے ہمراہ پورٹرز سے آگے بڑھ گئی تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ جس پہاڑ پر اب ہم نے چڑھنا ہے، وہاں لینڈسلائیڈ ہونے کو ہے۔ یہاں ایک بڑا نالہ اپنے پورے زور و شور کے ساتھ بہہ رہا تھا، شور اس قدر تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ نیچے نالے کے پُل پر پورٹرز چیخ رہے تھے اور ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ اگلے چند ہی لمحوں میں پتھروں کی آوازیں اور مٹی کے بادل اڑنا شروع ہو گئے۔

ہم لینڈسلائیڈ کی زد میں آ چکے تھے۔ میرے ساتھی نے کہا کہ ’بس اپنا سر بچانا ہے، اسے پہاڑ کے پتھر کے ساتھ جوڑ دیں۔‘ مجھے یقین تھا کہ آج بچنا ممکن نہیں کیونکہ پتھر بڑے تھے اور تیزی کے ساتھ نیچے آ رہے تھے لیکن معمولی چوٹوں کے سوا ہم سب ہی بچ گئے۔ میرے لیے یہ ایک معجزہ تھا، مگر ان خواتین کے لیے پامیر کی جانب سفر کے دوران یہ سب عام سی بات ہے۔

بانو بتاتی ہیں کہ ’راستہ بند ہونے کا ڈر، ایک مسلسل خوف تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ ہوتی تھی، جو بہت خطرناک تھی۔ اس کی زد میں جانور بھی آتے تھے اور ہم بھی۔ جو پرانا راستہ ہم استعمال کرتے تھے۔‘

ان خواتین کے ساتھ آنے والے مویشی جب بھاگتے ہیں تو پتھریلے پہاڑوں پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے،یہاں بکھرے پتھر گرنا شروع ہوتے ہیں اور ہر طرف گرد پھیل جاتی ہے۔ یہاں ان پتھروں سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ مویشی بان ایسی صورتحال میں انتظار کرتی ہیں اور جب ان پتھروں کو صبر آ جائے تو یہ واپس اپنا سفر شروع کر دیتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

اکثر ان پتھروں کی زد میں آ کر خواتین مویشی بان زخمی ہو جاتیں۔ معمولی چوٹیں تو عام سی بات تھی، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سر پر لگنے والی چوٹیں اور گہرے زخم ان کے سفر کو مزید طویل کر دیتے۔

شدید زخمی ہونے والی خواتین کو واپس شمشال پہنچایا جاتا ہے۔

پامیر چراگاہ کی جانب سفر کے چوتھے دن واخی مویشی بان اپنے پہلے سٹاپ پر پہنچی ہیں۔ یہ شمشال پاس ہے۔ سفر اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے اور مشکل راستہ وہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔

پہاڑ کی چوٹی پر پتھروں کی بنی ایک طویل دیوار کے بیچ میں ایک دروازہ لگایا گیا ہے جس کے اوپر دو ہمالیائی آئی بیکس کے سینگ نصب ہیں۔

اس دروازے میں داخل ہونے سے پہلے دوسری جانب کے منظر کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہم اپنے پیچھے گہری کھائیاں، پتھریلی چٹانیں، اونچی چوٹیاں چھوڑ رہے ہیں اور دروازے کی دوسری طرف تاحد نظر کُھلا اور وسیع میدان ہے، جہاں اودے رنگ کے جنگلی پھولوں کی ایک چادر بچھی ہے۔

یہاں آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے افغانستان کی جانب سرحد سے تین یاک پہنچے اور ہمیں بتایا گیا کہ اب آگے کا سفر ہم ان پر بیٹھ کر کریں گے۔ یاک کی سواری انتہائی مشکل ہے۔ ایک گھنٹے کی سواری کے بعد میں نے پیدل چلنا ہی مناسب سمجھا اور یوں باقی کا سفر شجراب کی چراگاہ میں پہنچ کر ختم ہوا جہاں ہم نے اس سفر کی آخری رات گزار کر اگلی صبح پامیر کی جانب روانہ ہونا تھا۔

BBCانار بیگم اپنے یاک کے ہمراہ

شجراب چراگاہ کو چھوٹی چراگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر پامیر میں موسم شدید خراب ہو جائے تو یہ خواتین ماضی میں اپنے جانوروں کے ہمراہ یہیں آتی تھیں۔ یہاں دو بڑے رانچز ہیں جہاں ہزاروں جانور رات گزارتے ہیں۔

سفر کے پانچویں دن تقریباً چار گھنٹے پیدل چلنے کے بعد خواتین مویشی بان سبزہ زار پہنچیں۔

پامیر کے کُھلے میدان ان کے سامنے ہیں اور یہ واخی خواتین کے لیے جشن منانے کا وقت ہے۔ وہ مقامی لوک گیت گا رہی ہیں۔ ایسے میں قریب برف سے ڈھکی چوٹی سے ایک برفانی تودہ گرنے کی آواز آتی ہے۔ مگر یہاں کسی کو پرواہ نہیں کیونکہ ابھی پامیر پہنچنے کا جشن جاری ہے۔

’ ہم نے اس زمین پر اپنی ماؤں اور دادیوں کے ساتھ سفر کیا ہے۔ وہ ہماری طرح مویشی بان تھیں۔ اور ہم سب ایک دوسرے کی ساتھی تھیں۔ جیسے ایک چرواہا دوسرے چرواہے کا ساتھی ہوتا ہے۔‘ انار بیگم نے پامیر پہنچ کر فخر سے بتایا۔ وہ اس زمین سے اس قدر محبت کرتی ہیں کہ اس کے ذکر پر ان کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتیں۔

قراقرم کے عظیم سنگلاخ پہاڑی سلسلے کے بیچ، پامیر کی چراگاہ کسی خواب جیسی لگتی ہے۔ سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر، گلیشیئرز سے پگھلتی برف کے پانیوں کی جھیلیں اور ندیاں ہر طرف بہہ رہی ہیں۔ اس میدان کے اردگرد سات ہزار میٹر کی بلندی تک کی چوٹیاں اپنی پوری شان سے کھڑی ہیں۔ یہ چراگاہ سنگلاخ چٹانوں کے درمیان ایک نخلستان ہے۔ ’پامیر ہمارا پھول ہے‘، افروز نما نےخوشی سے کہا۔

پامیر کی چراگاہ کا یہ سفر واخی خواتین اپنے مویشیوں کی خوراک اور انھیں صحت مند رکھنے کی خاطر کرتی ہیں۔ مگر یہ منفرد طرز زندگی اب مسقبل میں گم ہو رہا ہے۔

پامیر کی چراگاہ میں تین رانچز ہیں۔ ان میں سے ایک میں یاک رکھے جاتے ہیں جبکہ دوسرے دونوں میں بھیڑ بکریاں۔ ماؤں اور بچوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ تمام دودھ نہ پی لیں۔

یہ خواتین اس وقت تک ان رانچز میں داخل نہیں ہوتیں جب تک ان کی مذہبی رسومات مکمل نہ ہو جائیں۔ گروپ میں سب سے بڑی عمر کی خاتون کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان رسومات کی ادائیگی کریں۔ انار بیگم آگے بڑھتی ہیں اور سب سے پہلے دروازے کی چوکھٹ کو چومتی ہیں، پھر انھوں نے دعائیہ الفاظ کہے اور رانچ میں قدم رکھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک گرم پلیٹ ہے جس میں ایک مقامی جڑی بوٹی ’سپیندر‘ کو آگ لگائی گئی ہے۔ انار بیگم رانچ میں جانوروں کے بیچ چلتی ہیں تاکہ ہر جانور تک اس پلیٹ میں جلتے سپیندر کا دھواں پہنچ سکے۔

’یہ ہماری روایت ہے۔ ہم جب بھی یہاں آتے ہیں، ہم سر جھکاتے ہیں۔ یہ احترام کی علامت ہے اور اس کے بعد ہی ہم رانچ میں قدم رکھتے ہیں اور پھر رسم کے مطابق تھوڑا سا آٹا اپنی بھیڑ بکریوں کو دیتے ہیں۔ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ لوگ اور ان کے مویشی سلامتی اور امن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں‘، انار بیگم نے جانوروں کو دھواں دیتے ہوئے اس کی اہمیت بھی بتائی۔

’ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھایا کہ کیسے یہ سپندر نام کا پودا استعمال کرنا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا کیونکہ اس سے تکلیف اور پریشانی دور ہوتی ہے۔‘

ان رانچز سے چند ہی میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو تقریبا& ساٹھ کمروں پر مشتمل ہے۔ یہ کمرے وہیں موجود پتھروں سے بنائے گئے ہیں مگر یہ تمام گھر اور ان کے بیچ بل کھاتی چھوٹی چھوٹی گلیاں اب ویران ہیں۔

ہر کمرے کے باہر لکڑی کے دروازے پر ایک تالا لگا ہے۔ بیشتر کو اب زنگ لگ چکا ہے، کئی ایسے ہیں جن پر پلاسٹک کے شاپر چڑھے ہیں۔ دروازوں پر پڑے یہ تالے واخی مویشی بانوں کے منفرد طرز زندگی کے خاتمے کا نشان ہیں۔

BBC

کئی صدیوں سے ہر سال درجنوں خواتین مویشی بان ، وہ چاہے بزرگ ہوں یا جوان، یہاں گرمیوں کے موسم میں پہنچتی تھیں اور پھر اکتوبر تک یہیں رہتیں۔

بانو بیگم کہتی ہیں کہ چند برس پہلے تک وہ سب خواتین گھروں کے باہر بیٹھتیں اور اون بناتے ہوئے گپ شپ لگاتیں۔ ’ہم ہر وقت مصروف رہتے تھے۔ ہمارے پاس کبھی فراغت کا وقت نہ ہوتا تھا۔ کبھی ہم گیت بھی گاتے۔ بہت زیادہ گیت۔ خاص طور پر کام کے دوران، چاہے دن ہو یا رات‘۔ انھوں نے ہنستے ہوئے اپنی روٹین شیئر کی۔

مویشیوں کی حفاظت کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ آبادی سے دور اس قدر ویران علاقے میں رہنے کا مطلب تھا کہ جنگلی جانور کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ انار بیگ، افروزنما، بانو بیگم اور دیگر کئی خواتین مویشی بان، رات اپنے کمروں کی چھتوں پر گزارتیں تاکہ وہ ان برفانی چیتوں اور بھیڑیوں پر نظر رکھ سکیں جو ان کے مویشیوں پر تاک لگائے بیٹھے تھے۔

سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر سخت سرد موسم میں چھتوں پر کھلے آسمان تلے رات گزارنا آسان نہیں تھا۔ وہ مویشیوں کے رانچ کے گرد آگ لگا کر دھواں پیدا کرتیں تاکہ بھیڑیے خوف سے آگے نہ بڑھیں۔ ان خواتین نے ان جانوروں کو پھنسانے کے لیے ’ٹریپ‘ بھی تعمیر کر رکھے تھے۔ ان میں سے تین اب بھی موجود ہیں۔

BBCبھیڑیوں کو پھنسانے کے ٹریپ آج بھی یہاں موجود ہیں

لیکن حملے جاری رہتے۔ بعض اوقات ان خواتین کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔ انار بیگم نے کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا جب ان جنگلی جانوروں نے ان کے مویشیوں پر حملے کیے اور ان کے سینکڑوں جانوروں کو ہلاک کر دیا۔

’یہاں بہت ہی خطرناک بھیڑیے اور جنگلی جانور تھے۔ ہم ان پر نظر رکھنے کے لیے چھتوں پر سویا کرتے تھے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے بھیڑیے یہاں حملہ کرتے۔ ہم اونچی آواز میں چلانا شروع کر دیتے۔ ہم اس وقت تک چیختی رہتیں جب تک کہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ حملے کے بعد ہم سب رانچ میں جمع ہوتے۔ تب بہت اندھیرا ہوتا تھا اور ہمارے پاس روشنی کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ جب تک صبح نہ ہوتی، ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ ہمارا کتنا نقصان ہوا۔‘

واخی کمیونٹی کا دارومدار بارٹر ٹریڈ پر تھا۔ پیپر منی (کرنسی نوٹ) موجود نہیں تھی لیکن اُن کی ملکیت میں سینکڑوں بھیڑ بکریاں ہوتیں۔ آج بھی شمشال کی واخی برادری کے پاس بڑی تعداد میں مویشی موجود ہیں۔

یہ مویشی بان خواتین ڈیری مصنوعات تیار کرتیں اور ان کی بنیاد پر کاروبار کرتیں۔ جو ان مصنوعات کو خریدتے، وہ بدلے میں ان کے لیے گھر تعمیر کرتے اور دیگر کام کرتے۔ یہی مصنوعات شمشال کے مشہور فلاحی نظام ’نومس‘ کے لیے بھی استعمال ہوتیں۔ ان نظام کے تحت مقامی واخی کمیونٹی پُل، چھوٹی سڑکیں یا راستے اور دیگر کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔

گرمیوں کے موسم میں واخی مویشی بان خواتین جاڑے کے شدید موسم کی تیاری کرتی تھیں۔ بانو بتاتی ہیں کہ ان کے دن رات سردیوں کے لیے خوراک تیار کرتے گزرتے۔ ’ہم مل کر کام کرتے اور جانوروں کا دودھ جمع کرتے۔ پھر ہم دہی اور دیگر ڈیری مصنوعات بناتے۔ ہم گاؤں لے جانے کے لیے مختلف چیزیں بناتے تھے۔ ہم اپنے جانوروں کی حفاظت بھی کرتے اور اس کے ساتھ دیگر تمام کام بھی کرتے تھے۔ ہمیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہمیں یہاں کوئی مسئلہ یا کسی چیز کی کمی ہے اور وقت پَر لگا کر اڑتا رہا۔‘

پامیر میں پتھروں سے بنے ان چھوٹے چھوٹے کمروں میں کچھ بھی نئے دَور جیسا نہیں۔ صدیوں پرانے طریقے اب بھی رائج ہیں۔ یہاں تمام ڈیری مصنوعات بھی انہی پرانے طریقوں سے بنائی جاتی ہیں۔

لکڑی سے بنے ایک لمبے ڈرم کو قریب ندی پر اچھی طرح دھویا جاتا ہے۔ یہ اتنا بڑا اور بھاری ہے کہ تین خواتین مل کر اِس کو اٹھاتی ہیں۔ جب یہ خشک ہو جاتا ہے تو اس میں وافر مقدار میں دہی ڈالا جاتا ہے۔ اس دہی سے مکھن نکالا جاتا ہے جو وہ اپنے استعمال کے لیے رکھتی ہیں۔ باقی دہی سے ایک اور مقامی خوراک ’کورد‘ تیار کی جاتی ہے جو واخی کمیونٹی اپنے تہواروں پر استعمال کرتی ہے۔

یہ خواتین کچھ بھی ضائع نہیں ہونے دیتی تھیں۔ مویشی بانی اور اس کے ساتھ ڈیری مصنوعات کی تیاری ایک کامیاب کاروبار کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ خواتین اپنے خاندانوں کی کفیل ثابت ہوئیں۔ افروزنما، جن کی عمر 67 سال ہے، نے مویشی بانی کی مدد سے گلگت میں گھر تعمیر کیا اور شمشال میں بھی گھر میں تعمیر کرایا۔

’یہاں پامیر میں ہمارے کام کا پھل ملا۔ ہماری اس محنت کا مطلب ہے کہ ہم اپنی زندگیاں بہتر کرنے کے قابل ہوئے۔ میں نے اس چراگاہ سے بہت کچھ حاصل کیا۔ میں نے اپنے بچوں کی شادیوں کے اخراجات اٹھائے۔ یہیں سے اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کا انتظام کیا، حالانکہ اس وقت حالات بہت مشکل تھے‘، افروز نما نے فخر سے بتایا کہ کیسے پامیر میں مویشی بانی نے ان کی زندگی کے مشکل دور میں ان کی مدد کی۔

پامیر میں ہمارا چوتھا دن ہے اور موسم تبدیل ہو رہا ہے۔

تیز ہوائیں چلنا شروع ہوئیں اور برف کے گالے اس ہوا سے بکھرتے جاتے ہیں اور سوئیوں کی مانند ان خواتین کے چہروں پر چبھتے ہیں لیکن وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کام میں سخت محنت کے ساتھ مدد بھی درکار ہے جو اب ان خواتین کے پاس نہیں۔

’آج یہاں کوئی نہیں آنا چاہتا۔ یہ صرف اس جگہ (پامیر) کی بدولت ممکن ہوا کہ ہم اپنے گھر تعمیر کرنے کے قابل ہوئے اور اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دی۔ آج یہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں‘ بانو پامیر میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

ان واخی خواتین کی مویشی بانی نے شمشال میں ان کی کمیونٹی کی زندگی بدل دی۔ انھوں نے مل کر یہاں کی واحد روڈ کی تعمیر میں حصہ ڈالا جس کی تعمیر کی بڑی ذمہ داری 1985میں شمشال کے واخی افراد نے اپنے سر لی۔ ڈھائی دہائیوں بعد مکمل ہونے والی اس 53 کلومیٹر طویل کچی سڑک نے اس کمیونٹی کا رابطہ قراقرم ہائی وے سے جوڑ دیا جو پاکستان اور چین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔

وہ سفر جو کئی دن میں کٹتا تھا، اب چند گھنٹوں میں سمٹ آیا تھا۔ محض ایک نسل کا سفر اور شمشال تبدیل ہو گیا۔

لیکن واخی مویشی بانوں کے لیے اب اور زیادہ محنت کا وقت تھا۔ سڑک اپنے ساتھ تعلیم کے مواقع لے آئی تھی۔

وہ مائیں جو پہلے ہی پامیر کی چراگاہوں میں سخت محنت کر رہی تھیں، اب انھیں مزید کام کرنا تھا تاکہ ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ ان کے بچے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے گئے اور نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ شمشال واپس پہنچے، انہی میں فضیلہ فرمان اور وزیر بیگ شامل ہیں۔

مویشی بان بانو بیگم کے بیٹے وزیر، جنھوں نے پامیر تک ان کے آخری سفر میں ان کا ساتھ دیا، ایک مختلف زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اب بھی پامیر کی چراگاہ میں جاتے ہیں، مگر وہ اپنے والد کی طرح کسان ہیں نہ ہی اپنی والدہ جیسے مویشی بان۔ وزیر سیاحت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کے لیے ٹریکنگ، کوہ پیمائی اور ثقافتی دوروں کا انتظام کراتے ہیں۔

وزیر کہتے ہیں کہ شمشال میں نوجوانوں کی ترجیحات اس وقت تبدیل ہوئیں جب یہاں سڑک کا رابطہ قراقرم ہائی وے کے ساتھ قائم ہوا۔ ’میں نے بھی اس وقت اپنا بزنس شروع کیا۔ 2002 سے پہلے تو ہمارے پاس تعلیم اور صحت کی سہولیات انتہائی محدود تھیں۔‘

24 سالہ فضیلہ بھی اسی نئی نسل کا حصہ ہیں۔ اپنی والدہ اور نانی، دادی کے برعکس، ان کے پاس کئی آپشنز موجود تھے۔ وہ شمشال میں پہلے گیسٹ ہاؤس کی مالک اور منتظم ہیں جو ان کے والد نے اپنی وفات سے قبل تعمیر کیا تھا۔

BBCفضیلہ فرمان شمشال میں پہلے گیسٹ ہاؤس کی مالک ہیں

فضیلہ کے لیے ان کی والدہ کی مدد کے بغیر تعلیم ممکن نہیں تھی۔ ’ہماری ماؤں نے ہمیشہ تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے ہمیں یہی نصیحت کی کہ ہم اپنی تعلیم پر توجہ دیں، نہ کہ مویشی بانی پر۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ ہم وہ مشکلات نہ سہیں جو ان کے حصے میں آئیں۔‘

وادی کے دنیا کے ساتھ رابطے نے یہاں نئے مواقع پیدا کیے، آج شمشال کے نوجوانوں خاص طور پر یہاں کی خواتین کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ ہنر مند افراد میں ہوتا ہے، جیسا کہ فضیلہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس یہ آزادی ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، ہم نے کس شعبے میں تعلیم حاصل کرنی ہے، کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے، ہم نے کن فلاحی کاموں میں حصہ ڈالنا ہے ، یہاں تک کہ کن کھیلوں میں حصہ لینا ہے۔ ہم پر کوئی قید ہے نہ ہی قدغن۔‘

شمشال کی وادی کو ’کوہ پیماؤں کی وادی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہاں سے تعلق رکھنے والے ملک کے بہترین کوہ پیما ہیں۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ کا نام کون نہیں جانتا۔ ان کا تعلق بھی شمشال وادی کی واخی کمیونٹی سے تھا جہاں ان کے والدین نے ان کے لیے ویسے ہی محنت کی جیسے وہاں واخی مویشی بانوں نے نئی نسل کا مستقبل بدلنے کی ٹھان لی۔

لیکن اس نئی نسل کو یہ بھی اندازہ ہے کہ ان کی بدلتی زندگی اور مستقبل میں روایتی مویشی بانی ختم ہو گئی ہے۔ وہ جو ان کی مائیں، دادیاں، صدیوں سے کرتی آئی ہیں، وہ اب قصہ پارینہ بن رہا ہے۔

لیکن وزیر، فضیلہ اور یہاں کے دیگر نوجوان یہ بھی جانتے ہیں کہ بانو، افروز اور انار جیسی خواتین کے بغیر واخی کمیونٹی کے لیے اتنی بڑی کامیابی ناممکن تھی۔ ’ہم آج تعلیم یافتہ ہیں، ہمارے پاس ڈاکٹرز، انجینئیرز اور دیگر پروفیشنلز ہیں، یہ سب کچھ صرف اور صرف ہماری ماؤں، اُن کی محنت اور ان کی مویشی بانی کی وجہ سے ہے۔ ہماری ماؤں نے چراگاہوں کے صحت مند جانور اور ان کے دودھ سے بنی چیزیں بیچیں تاکہ ہماری تعلیم کا خرچہ اٹھا سکیں،‘ وزیر شمشال کو گوجال سے جوڑتی اس خطرناک سڑک پر جیپ چلاتے ہوئے یہی سوچتے ہیں۔

فضیلہ کو بھی اپنی مویشی بان ماں کی جدوجہد کا اندازہ ہے، ’اگر میں نے تعلیم حاصل نہ کی ہوتی تو میں بھی آج وہی مشکل زندگی گزار رہی ہوتی جو میری ماں کے حصے میں ہے۔ یہ نظام یونہی چلتا رہتا۔‘

دوسری طرف سرد پامیر میں پتھروں سے بنے نیچی چھتوں والے گرم کمروں میں واخی مویشی بان خواتین شام ہوتے ہی بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ پرانی واخی زبان میں گزرے دنوں کو یاد کرتی ہیں جب یہاں کی ویران گلیوں میں چہل پہل ہوتی تھی۔

BBC

یہ خواتین نئی نسل کی ترقی دیکھ کر خوش ہیں مگر انھیں یہ غم بھی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد سے سیکھا مویشی بانی کا ہنر انہی کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔

’مویشی بانی میرے لیے محض کام سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہمارا پامیر کے ساتھ ایک بہت مضبوط رشتہ ہے۔ پامیر بہت خوبصورت ہے۔ میرے دل میں کھلے ایک پھول کی طرح ۔ یہ ہمارا پھول ہے، یہی ہمارا رزق ہے،‘ افروز نے اپنی کامیاب مویشی بانی کی کہانی ختم کرتے ہوئے مجھے بتایا۔

لیکن پامیر انار بیگم کے لیے غم کی ایک علامت بھی ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ پامیر میں بنے چھوٹے سے قبرستان کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ’میں پامیر میں مرنا چاہتی تھی تاکہ میں یہاں اپنے بچوں کے ساتھ دفن ہو سکوں۔‘

انھوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا مگر وہ جانتی ہیں کہ یہ ان کا پامیر کا آخری سفر ہے۔ ’میں نے اپنے دو بچوں کو یہاں کھویا۔ میں جب بھی یہاں آتی ہوں، ان کے لیے دعا کرتی ہوں۔ واپسی ہمیشہ بوجھل دل سے ہوتی ہے۔ اس چراگاہ میں آنے کا مطلب میرے بچوں کے پاس آنا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More