’جب دبئی میں سٹیج سے اعلان کیا گیا کہ اس سال کا ’گلوبل ٹیچر ایوارڈ‘ میں نے جیتا ہے تو مجھے زیادہ حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ میرے علاوہ جن نو لوگوں کو اس ایوراڈ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے اُن میں سے کسی اُستاد کی جدوجہد اور مشکلات کی کہانی میری جیسی نہیں۔‘
یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع گوجرانولہ کی رہائشی رفعت عارف کا (جنھیں زیادہ تر لوگ سسٹر زیف کے نام سے جانتے ہیں)، جنھیں یونیسیف کے تعاون سے ’ورکی فاؤنڈیشن‘ نے رواں برس گلوبل ٹیچر ایوارڈ سے نوازا ہے۔
اس ایوارڈ کے تحت انھیں دس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم بھی ملے گی۔ یہ رقم انھیں دس سال کے دوران ادا کی جائے گئی یعنی ہر برس ایک لاکھ ڈالر۔
بی بی سی کے لیے صحافی محمد زبیر نے سسٹر زیف سے خصوصی انٹرویو کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ انھوں نے کن حالات میں بچوں کو پڑھانے کے اپنے مشن کا آغاز کیا اور وہ یہ سب کرنے میں کیسے کامیاب رہی ہیں۔
سسٹر زیف بتاتی ہیں کہ وہ صرف 13 برس کی عمر میں ہی اُس وقت استاد بن گئی تھیں جب سکول میں ٹیچرز کی مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کے باعث انھوں نے سکول کو خیرباد کہا۔
ان کی کہانی، اُن کی ہی زبانی سُنیے۔
’بیٹی پیدا ہونے پر والدہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘
ہم چار بہنیں ہیں، ہمارا بھائی کوئی نہیں۔ میرے والد اور والدہ کو گھر میں چار بیٹیاں ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر پھر بھی جب میری چھوٹی بہن پیدا ہوئی تو میرے والدہ کو میرے والد کے خاندان کے لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا کیونکہ انھیں بیٹا چاہیے تھا۔ اُس وقت میرے والد کراچی میں کام کرتے تھے۔
چونکہ میرے والد اور والدہ میں بہت اچھی انڈر سٹیڈنگ تھی اسی لیے تشدد کی بات میرے والد کو بہت ہی زیادہ ناگوار گزری جس پر انھوں نے اپنا آبائی علاقہ اور گھر چھوڑ دیا اور میری والدہ کے آبائی علاقے (سرگودھا) میں رہائش اختیار کر لی۔ سرگودھا میں ہمارے پاس بڑا گھر تھا جہاں پر زیادہ کمرے اور سہولتیں تھیں۔
میرے والد ایک اچھے کاریگر تھے اور ان کا خیال تھا کہ کچھ ہی عرصے میں ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو جائے گی مگر حادثات بتا کر نہیں آتے اور اچانک میرے والد انتہائی بیمار ہو گئے اور انھیں کام چھوڑ کر گھر پر بیٹھنا پڑا۔
یہ مشکل صورتحال تھی، ہم چاروں بہنیں ابھی چھوٹی تھیں چنانچہ میری والدہ نے باہر نکل کر محنت مزدوری کرنا شروع کر دی۔ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھیں اور اس کے علاوہ کھانا وغیرہ بھی بناتی تھیں، انھیں جو کام بھی ملتا تھا، وہ کرتی تھیں۔
کپڑے پر سلک ستارہ کا کام اور 10 روپے اجرت
میرے والد کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انھیں اخبارات اور کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ پرانی اخباریں گھر لے کر آیا کرتے تھے۔ پرانی کتابوں کی دکانوں پر جا کر کتابیں پڑھتے اور تازہ اخبار پڑھنے کے لیے اخبار کے سٹالوں پر چلے جاتے تھے۔
والد کی یہی خصوصیات مجھ میں بھی منتقل ہوئیں۔ کتب بینی کی وجہ سے مجھے سوال کرنے کی عادت ہو گئی تھی، میں بہت سوال کیا کرتی تھی۔ سوال کرنے کی اسی عادت کے باعث مجھے سکول میں استادوں کے ہاتھوں مار پڑتی اور ڈانٹ ڈپٹ ہوتی جو مجھے بہت ناگوار گزرتی تھی۔ میں زیادہ عرصہ یہ صورتحال برداشت نہیں کر سکی اور میں نے سکول چھوڑ دیا۔
اس کے بعد میں نے خواتین کے کپڑوں پر سلک ستارہ کا کام کرنا سیکھ لیا۔ سکول چھوڑ کر میں نے یہ کام باقاعدہ طور پر شروع کر دیا اور مجھے ایک سوٹ پر سلک ستارہ کا کام کرنے پر دس روپے اجرت ملتی تھی۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ میں اپنی پڑھائی بھی کر رہی تھی۔ پڑھانے کا اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میں نے گھر کے صحن میں بچوں کو پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ شروع میں تین، چار بچے آتے تھے جنھیں نصابی کتب پڑھانے کے لیے مجھے خود پڑھنا پڑتا تھا۔ مجھے سکول میں سوال کرنے پر مارپیٹ کا سامنا تھا مگر میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی کہ وہ سوال کریں، جب وہ سوال کرتے تو اکثر اُن کا جواب تلاش کرنا پڑتا تھا۔
اسی دوران میں نے سنہ 2000 میں پرائیوٹ میٹرک کر لیا جس کے بعد میری پہلی ملازمت کی راہ ہموار ہو گئی۔
پہلی ملازمت اور دو ہزار روپے ماہوار تنخواہ
جب میں نے میٹرک کرلیا تو اس کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ کچھ ہی عرصے میں مجھے ایک کمپنی میں استقبالیہ ڈیسک پر ملازمت مل گئی جہاں میری تنخواہ دو ہزار روپے تھی۔ اس ملازمت کے دوران بھی میں اپنے گھر کے سکول میں بچوں کو پڑھاتی اور ساتھ ساتھ پرائیوٹ ایف اے کی تیاری کرتی۔
سنہ 2003 میں جب پرائیوٹ ایف اے کر لیا تو اسی کمپنی میں میری پروموشن ہوئی اور تنخواہ بھی کچھ بہتر ہو گئی،اب میں بی اے کی تیاری کر رہی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ میرے گھر کے صحن میں قائم سکول میں بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی، جس کے باعث علاقے میں مجھے کچھ توجہ بھی مل رہی تھی۔
گھر کے حالات ویسے ہی تھے کیونکہ پڑھنا پڑھانا تو میرا شوق تھا۔ مجھے جو تنخواہ ملتی، اس میں کچھ صحن والے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی ضروریات پر خرچ ہو جاتے اور کچھ میرے اپنے اخراجات کی مد میں۔
وقت کے ساتھ میں نے بی اے بھی کر لیا اور پھر بہتر ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہو گئی۔ بی اے کے بعد مجھے ابتدائی طور پر ہی پر کامیابی ملی اور پی ٹی سی ایل میں گریڈ سترہ کی ملازمت مل گئی۔
’میں اور والدہ ترپال پکڑ کر کھڑے رہتے‘
اب میرے گھر کے صحن والے سکول میں 120 بچے ہو گئے تھے اور گرمی اور سردی میں ہمیں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میں بچوں کو پڑھانے اور تعلیم دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر کرتی تھی اور اسی دوران آسڑیلیا میں میری ایک دوست نے میرے سکول کے لیے 50 ڈالر بھیجے۔
اُس وقت سکول کے لیے سب سے بڑی ضرورت صحن کو سائبان فراہم کرنا تھا تاکہ گرمی، سردی اور بارش سے کچھ بچاؤ ممکن ہو سکے۔ دوست کی جانب سے دیے گئے 50 ڈالر سے میں نے صحن کو ڈھانپنے کے لیے ترپال خریدی مگر یہ ترپال بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی تھی۔
ہوا یہ کہ ایک روز زور کی آندھی چلی اور ترپال اپنے بانسوں سمیت اڑ گئی تھی۔
اس کے بعد میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر مختلف کپڑوں کو جوڑ کر ترپال جیسی ہی ایک چیز تیار کی اور اس کو لگایا اور جب تیز آندھی اور بارش ہوتی تو میں اور میری والدہ اس کو پکڑ کر کھڑے ہو جاتے کہ کہیں یہ اڑ نہ جائے اور دوبارہ ہمیں نقصان نہ ہو۔
پی ٹی سی ایل میں نوکری کی وجہ سے مجھے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کا پتا چل چکا تھا۔ اس دوران مجھے پتا چلاکہ ’ورلڈ پلس‘ نے خواتین کی جدوجہد کی کہانیوں پر ایک مقابلہ رکھا ہے۔ پہلے تو میں نے دلچسپی نہیں لی مگر بعد میں، میں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تو اس میں مجھے پہلا انعام ملا اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالے سے کام کی بھی آفر ہوئی۔
یہ میرے لیے اپنے صحن سکول کے اخراجات پورے کرنےکا ایک اچھا موقع تھا چنانچہ میں نے یہ آفر قبول کر لی۔
سوشل میڈیا پر دیکھنے والوں اور میرے کچھ دوستوںنے مزید رقم جمع کی جس سے میں نے اپنے گھر کے ساتھ کرائے پر جگہ لے کر وہاں پر تعلیم و تربیت کا ادارہ قائم کرنا شروع کر دیا۔ اس ادارے میں ووکیشنل سینٹر اور کمپیوٹر سینڑ بھی قائم کر لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب میرے کام کو شناخت ملنے لگی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ ساتھ کئی مسائل اور انتہائی مشکلات بھی پیدا ہو رہی تھی۔
’تھپڑ مارے گئے‘
ایک دفعہ میں اکیلی کہیں جا رہی تھی کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان آئے، انھوں نے نہ صرف مجھ سے بدتمیزی کرنا شروع کر دی بلکہ مجھے تھپڑ بھی مارے۔
وہ پنجابی میں بات کر رہے تھے۔ مجھے کہہ رہے تھے کہ ’میں بڑی چودھرائن بننے جا رہی ہوں۔ علاقے کے رسم و رواج کے خلاف بچیوں کو چلنے کی تربیت دے رہی ہوں۔‘
یہ بہت ہی خوفناک واقعہ تھا، کئی دن تک تو سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے لیکن میرا عزم بہت مضبوط تھا۔ خود کو اس صورتحال سے باہر نکالا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔ اب میری چھوٹی بہن بھی ملازمت کرنے اسلام آباد جا چکی تھی جس کے باعث گھر کی مالی حالت کچھ بہتر ہوئی اور ہم نے وہاں پر دو مزید کمرے تعمیر کر لیے۔
میں نے اپنے ووکیشنل سینٹر کی مدد سے کئی بچیوں اور بچوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا۔ کئی ایک کی مدد اپنے مالی حالات سے باہر نکل کر کی۔
ایک دفعہ ہمارے علاقے میں ایک بچی بری طرح جھلس گئی مگر اُس کے ماں باپ اس کو ہسپتال لے کر نہیں جا رہے تھے۔ میں نے دو بار اُن سے گزارش کی کہ وہ مجھے اس بچی کو ہسپتال لے جانے کی اجازت دیں مگر وہ انکاری رہے۔
تیسری دفعہ میں اُن کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ اب اگر وہ مجھے اس کی اجازت نہیں دیں گے تو پھر میں پولیس کو اطلاع کروں گی۔ یہ ترکیب کام کر گئی اور مجھے بچی کو ہسپتال لے جانے کی اجازت مل گئی۔
اس سب سے یہ ہوا کہ مجھے اکثر اوقات اپنا سکول بند کرنے کی جو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں وہ ختم تو نہیں ہوئیں مگر علاقے کی سب کمیونیٹز یعنی مسلم اور کرسچین میرے حمایتی بن گئے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہوتی تو میرے سکول اور سینٹر میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کی مائیں میرے حق میں کھڑی ہو جاتیں۔
’دوستوں کے کہنے پر ایوارڈ کا حصہ بنی‘
میں نے سنہ 2018 میں ملازمت چھوڑ دی اور اب میری ساری توجہ ووکیشنل سینٹر اور سکول پر ہے۔ ہائی سکول باقاعدہ رجسڑڈ ہے اور اس میں 200 بچے بالکل مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ کو باقاعدگی سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ووکیشنل سینٹر اور کمپیوٹر سینٹر سے تربیت مکمل کرنے والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
جب اس ایوارڈ کا اعلان ہوا تو میں نے بھی اپنے کچھ دوستوں کے کہنے پر درخواست دے دی۔ جب دس استاد شارٹ لسٹ ہوئے تو یہ میرے لیے انتہائی خوشی کا موقع تھا۔ مجھے تو خوشی ہوئی ہی تھی مگر میرے والدین اور بہنوں کو جو خوشی ہوئی وہ میں بیان نہیں کر سکتی ہوں۔
جب دبئی گئی اور اختتامی تقریب سے پہلے ہونے والے مراحل میں شرکت کی تو سمجھ میں آ گیا کہ میری کہانی اور جدوجہد اُن تمام لوگوں سے مختلف ہے جو اس کا حصہ ہیں۔ اس لیے جب سٹیج پر نام پکارا گیا تو میں اس کے لیےتیار تھی۔
اس موقع پر پاکستان کے سفیر اور وفاقی وزیرتعلیم نے جس طرح مجھے سراہا اور جس طرح وہاں پر بار بار پاکستان کا ذکر ہوا اس سے بہت خوشی ملی۔
اب میں نے ایک اور نزدیکی گاؤں میں وہاں کی ضرورت کے مطابق پچاس بچوں کے لیے الگ سے سکول قائم کیا ہے۔ سکول، ووکیشنل سینٹر سب کچھ کرائے کی عمارتوں میں ہے۔ یہ سب اخراجات بمشکل ہی پورے ہوتے ہیں مگر پورے ہو رہے ہیں۔
اس ایوارڈ کے ملنے کے بعد خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں ایک ماڈل سکول بناؤں۔ اگر مجھے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ نے ملاقات کا موقع دیا تو میں ان سے گزارش کروں گی کہ مجھے سکول کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کر دیںاور مجھے جو انعامی رقم ملی ہے اس کا بڑا حصہ میں سکول کی تعمیر پر خرچ کروں گی۔