Getty Images
پاکستان میں کرکٹ کی صورتحال ملک کے باقی اداروں کی طرح تیزی سے ابتری کی جانب سے گامزن ہے اور وقت کے ساتھ ایک عرصے سے آئی سی سی ٹورنامنٹس میں اچھی کارکردگی دکھانے والی ٹیم اب اچانک تتر بتر ہو چکی ہے۔
یہ گتھی الجھانے والے اہلِ دانش تو ہرگز نہیں، البتہ گذشتہ ایک سال سے پے در پے ناقص فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو دیرپا نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ورلڈ کپ ابھی اختتام کو نہیں پہنچا ہے لیکن پاکستان لوٹنے والی کرکٹ ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز ٹیم کے لوٹنے کے چند روز بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔
اس بھونچال کی ٹائم لائن کچھ اس طرح ہے:
گیارہ نومبر پاکستان ٹیم انگلینڈ سے میچ ہارنے کے بعد سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوئی۔ بارہ نومبر کو کپتان بابر اعظم لاہور پہنچے جن کے بعد دیگر کھلاڑی بھی مرحلہ وار مختلف شہروں میں پہنچنا شروع ہوئے۔ چودہ نومبر کو پہلے پی سی بی کی عبوری کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف نے محمد حفیظ، سہیل تنویر اور وہاب ریاض سمیت دیگر سابقہ کھلاڑیوں سے مشاورت کی۔ 15 نومبر کو پہلے کپتان بابر اعظم کا بطور کپتان استعفیٰ سامنے آیا اور پھر پی سی بی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی خدمات کا اعتراف کیے بغیر ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹس کے لیے بابر اعظم کو کپتان بنا دیا گیا۔ سولہ نومبر کو محمد حفیظ کو پاکستان ٹیم کا کرکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے بطور ہیڈ کوچ بھی خدمات سرانجام دیں گے۔
محمد حفیظ کا نام کچھ عرصہ پہلے پاکستان سپر لیگ کی جانب سے ڈرافٹ کی ڈائمنڈ کیٹیگری میں سامنے آیا تھا۔ وہ اب بھی مختلف لیگز کا حصہ ہیں اور سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔
حفیظ نے پاکستان کے لیے وائٹ بال کرکٹ میں کپتانی کر رکھی ہے اور سابق آل راؤنڈر نے پاکستان کے لیے 55 ٹیسٹ، 218 ون ڈے اور 119 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے ہیں۔
Getty Images’حفیظ کے پاس لیول تھری کرکٹ کوچنگ اکریڈیٹیشن نہیں ہے‘
تاہم حفیظ کے پاس نہ تو کوچنگ کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی انھوں نے لیول تھری کوچنگ کورس کر رکھا ہے جو پی سی بی کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر ہیڈ کوچ کے لیے درج شرائط میں سے ہے۔
پی سی بی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ محمد حفیظ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ٹیم کے ہیڈ کوچ نہیں بن سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے پاس ہیڈ کوچ بننے کے لیے ’لیول تھری سرٹیفیکیشن‘ نہیں ہے، اسی لیے حفیظ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے صرف ’ڈائریکٹر‘ کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔
تاہم بطور ڈائریکٹر ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی اور کیا اصطلاح تبدیل کر کے انھیں یہ عہدہ دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس بارے میں صورتحال کچھ روز میں واضح ہو جائے گی۔ تاہم ایک بات بہت واضح ہے کہ حفیظ کے پاس اس سے قبل کسی مینیجیریل رول کے علاوہ کوچنگ کا بھی کوئی تجربہ نہیں۔
سوشل میڈیا پر پی سی بی کی جانب سے کیے گئے ان فیصلوں کے بارے میں ابھی بحث چلی ہی رہی تھی کہ گذشتہ روز سابق فاسٹ بولر وہاب ریاض کو چیف سیلیکٹر بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وہاب اس وقت نگران وزیرِ کھیل پنجاب ہیں اور انھوں نے اس عہدے کے ساتھ ہی سیلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
وہاب نے تاحال باضابطہ طور پر فرینچائز کرکٹ کو خیرباد تو نہیں کہا لیکن ان کی فرینچائز پشاور زلمی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ ضرور کیا ہے۔
اس بھونچال کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نہ صرف پی سی بی پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں کرکٹ کوچنگ سے متعلق بحث کرتے ہوئے انڈیا کی مثالیں دے رہے ہیں۔
https://twitter.com/joji_39/status/1725518057337147574?t=b86k2NKMm9oyulQ9bvjkAg&s=08
’پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل اشرافیہ کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے‘
صحافی رضوان علی نے اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے پی سی بی کی ویب سائٹ پر ہیڈ کوچ بھرتی کرنے کے لیے شرائط کا حوالہ دیا اور لکھا کہ کیا پہلی دو شرائط پڑھنے کا کہا۔
پہلی شرط لیول تھری کرکٹ کوچنگ اکریڈیٹیشن یا اس بین الاقوامی متبادل ہے جبکہ دوسری شرط اسی پوزیشن میں انٹرنیشنل یا قومی ٹیم کے ساتھ پانچ سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔
اسد نامی کرکٹ کے مداح نے اس صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس وقت جو کچھ بھی پاکستان کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ درد ناک ہے۔
’یہ ہمارا دنیا بھر میں مذاق بنا رہے ہیں اور اگر یہ ایسے ہی چلتا رہا تو ہمارے ساتھ کوئی نہیں کھیلے گا کیونکہ ہمارے پاس دنیائے کرکٹ کو آفر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔‘
https://twitter.com/krick3r/status/1725396228936995274?t=sFRU1zFCYr3xII5diw91aA&s=08
صحافی اور تجزیہ کار کامران مظفر نے لکھا کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل اشرافیہ کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔
’ایسے کئی لوگ ہیں جو متعلقہ تجربے اور تعلیم کے باوجود نچلے لیول کی کرکٹ میں بھی کوچنگ نہیں کر پاتے لیکن سب سے اوپر کے درجے پر کوچنگ کرنے کے لیے کسی بھی تجربے یا تعلیم کی ضرورت نہیں۔‘
انھوں نے ایک پاڈکاسٹ کاٹ بیہائنڈ میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں ہر ورلڈ کپ شکست کے بعد ناتجربہ کار کوچ، چیف سیلیکٹر اور کپتان لانے کی روایت اب بھی برقرار ہے۔ ہم نے اتنے سالوں میں کچھ نہیں سیکھا۔‘
https://twitter.com/SillyTiddy/status/1725557966890508532?t=OgBP0lMW_-r9cXSk7eccJA&s=08
صحافی عبداللہ نیازی نے محمد حفیظ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’نہ صرف ان کا کوئی کوچنگ کا تجربہ نہیں ہے بلکہ حفیظ نے اب تک آسٹریلیا میں کبھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔
’انھوں نے اپنے کیریئر میں آسٹریلیا میں صرف نو وائٹ بال میچ کھیلے ہیں جن میں ان کی بیٹنگ اوسط صرف 17 کی ہے۔‘
اس بارے میں پاکستان سپر لیگ کی شروعات کرنے والی ابتدائی ٹیم میں شامل شعیب نوید نے ایکس پر اس بارے میں تفصیل سے بات کی اور کہا کہ پاکستان کی کرکٹ کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ انتظامیہ برخواست کی جائے جس کے بعد سے ہی صورتحال سنبھل پائے گی۔
اس حوالے سے اکثر صارفین راہل ڈریوڈ کی مثال بھی دے رہے ہیں جنھیں انڈیا کی بہترین کارکردگی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
ڈریوڈ دراصل انڈیا کے انڈ 19 ٹیم اور اے ٹیم کے سنہ 2015 سے 2019 تک کوچ رہے جس کے بعد سنہ 2021 کے بعد سے انھیں انڈین کرکٹ ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ایک صارف نے ڈریوڈ کی پروفائل شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا محمد حفیظ، مصباح الحق یا وقار یونس ڈریوڈ کی طرح نچلی سطح پر اتنا وقت لگانے کے لیے تیار ہیں؟ ہر گز نہیں۔‘