’یونیورسٹی میں منشیات پہنچ جاتی ہے مگر کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں‘: تربت یونیورسٹی کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2023

’جن کتابوں پر دکانوں اور لائبریوں میں پابندی نہیں ہے اُن کو یونیورسٹی میں لے جانے کی کیوں اجازت نہیں؟‘

یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کی تربت یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے طالبعلم باہوٹ چنگیز کا جن کے مطابق تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ دنوں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو یونیورسٹی میں کتابوں کا سٹال لگانے سے روکا گیا۔

اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے جس میں یونیورسٹی کے سکیورٹی اہلکار ہاتھوں میں کتابیں اٹھائے بعض طلبا کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔

بی بی سی نے اس ویڈیو کے حوالے یونیورسٹی کے طلبا اور انتظامیہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے۔

باہوٹ چنگیز کا کہنا ہے کہ ’ایک طرف یونیورسٹی میں غیر نصابی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں اور دوسری طرف ہوسٹل میں اگر چار طالبعلم اکھٹے بیٹھ جائیں تو بھی سکیورٹی اہلکار انھیں یہ کہہ کر اٹھا دیتے ہیں کہ یہاں اکھٹے ہونے کی اجازت نہیں۔‘

تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبا کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے بعض طلبا ’یونیورسٹی کو بدنام‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ایک سیاسی پارٹی کی طلبا تنظیم نے یونیورسٹی سے باہر کے طلبا کی مدد سے ایک بُک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے۔‘

وائرل ویڈیو میں کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر تربت یونیورسٹی کی اس ویڈیو میں چھ سے سات نوجوان نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں بہت ساری کتابیں ہیں۔ ان نوجوانوں کو سکیورٹی گارڈ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک طالب علم بلوچی زبان میں کہتا ہے کہ ’یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر اور یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بیٹھے لوگ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے اندر کتاب نہ جائے۔‘

طالب علم کہتا ہے کہ ’ہمارے پاس اور کچھ نہیں بلکہ صرف یہ کتابیں ہیں لیکن وہ ان کو اندر نہیں جانے دے رہے ہیں۔‘ ایک اور طالب علم کہتا ہے کہ ’یونیورسٹی میں منشیات تو پہنچ جاتی ہے لیکن باہر سے کتاب لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘

اسی ویڈیو میں موجود باقی طلبا سکیورٹی گارڈ سے یہ کہتے ہیں کہ ’آپ لوگ کس طرح کتابوں کو لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، اگر یونیورسٹی میں ہم کتاب نہیں لے جائیں تو پھر یونیورسٹی کا کیا فائدہ ہے۔‘

طلبا کا اس حوالے سے کیا کہنا ہے؟

ویڈیو میں جن طلبا کو روکا جا رہا تھا ان میں یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے آٹھویں سمسٹر کے طالب علم اور بی ایس او (پچار) کی مرکزی کمیٹی کے رکن باہوٹ چنگیز بھی شامل تھے۔

فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں ایک بُک سٹال لگانا چاہتے تھے اور اسی کے لیے کتابیں لے جا رہے تھے لیکن ان کو یونیورسٹی کے گیٹ پر روکنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ یونیورسٹی میں باہر سے غیرنصابی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبا کی جانب سے بُک سٹال لگتے ہیں جن میں زیادہ تر غیرنصابی کتابیں ہی ہوتی ہیں لیکن وہاں کوئی پابندی نہیں۔ معلوم نہیں تربت یونیورسٹی میں کتابوں کے سٹال لگانے پر پابندی کیوں ہے؟‘

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کے صدر اور یونیورسٹی میں قانون کے دسویں سمسٹر کے طالب علم حبیب بلوچ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بھی کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی میں بُک سٹال لگایا تو ’انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور ہمیں ہراساں کیا جاتا رہا۔‘

حبیب بلوچ نے بتایا کہ ’جن کتابوں کا سٹال وہ یونیورسٹی میں لگانا چاہتے ہیں وہ لٹریچر، فلسفہ، سیاست، تاریخ ، بلوچی ادب اور نیشنلزم کے نظریات سے متعلق ہوتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’طلبا کو سٹڈی سرکلز منعقد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘

’بک سٹال سے قبل ہم نے ایک سٹڈی سرکل کا اعلان کیا تو یونیورسٹی کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن نکالا گیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا تو آپ لوگوں کی ہاسٹل الاٹمنٹ کو منسوخ کیا جائے گا۔‘

یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں بی ایس فورتھ سمسٹر کی طالبہ اور بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی انفارمیشن سیکریٹری نگرہ بلوچ نے بھی شکایت کی کہ یونیورسٹی میں نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

’ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے بار بار پوچھا ہے کہ عام کتابیں یونیورسٹی میں لے جانے کی کیوں اجازت نہیں تو وہ کوئی جائز جواز پیش کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں کتاب لے جانا منع ہے۔‘

’جو کتابیں یہ ہمیں یونیورسٹی میں نہیں لے جانے دیتے، وہ پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہیں۔‘

تربت یونیورسٹی کے حکام کا کیا کہنا ہے؟

بی بی سی نے طلبا کے الزامات کے حوالے سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ سفرکے باعث وہ اس حوالے سے بات نہیں کر سکتے تاہم انھوں نے اس سلسلے میں یونیورسٹی کی جانب سے جاری ایک بیان بھیج دیا۔

اس بیان کے مطابق سوشل میڈیا پر کتابوں کے حوالے سے پابندی کا معاملہ حقائق پر مبنی نہیں۔

بیان کے مطابق تربت یونیورسٹی بلوچستان کی دوسری بڑی یونیورسٹی ہے جہاں 5000 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کے لیے یونیورسٹی میں دو بڑی لائبریریاں قائم کی گئی ہیں جہاں پڑھنے کے لیے ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔

تاہم یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، مرکزی اور صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق تربت یونیورسٹی کی ایک واضح پالیسی ہے کہ کیمپس کے اندر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایک سیاسی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے اندر باہر کے طلبا کی مدد سے ایک بُک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے جبکہ اصل معاملہ اسی طلبا تنظیم کے دو کارکنان کا امتحانات میں مسلسل فیل ہونے سے متعلق ہے۔‘

بیان کے مطابق ’گذشتہ سمسٹر کے امتحانات میں فیل ہونے کی وجہ سے اس طلبا تنظیم سے جڑے دو طالب علموں سمیت 40 طلبہ و طالبات یونیورسٹی اکیڈمک قواعد و ضوابط کے مطابق ڈراپ آوٹ ہو چکے ہیں جو مختلف ذرائع سے یونیورسٹی پر پریشر ڈال کر دوبارہ اسی سمسٹر میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں جس میں وہ کئی بار فیل ہو چکے ہیں۔‘

بیان کے مطابق فیل ہونے کے باوجود یونیورسٹی نے ان کو پہلے سے دو مواقع دیے ہیں لیکن وہ پڑھائی میں بہتری نہیں لا سکے۔ ’یہی فیل اور ڈراپ آؤٹ ہونے والے سٹوڈنٹ اب مختلف ہتھکنڈوں سے یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یونیورسٹی آف تربت ایک ذمہ دار تعلیمی ادارہ ہے جس کا مقصد مکران ڈویژن سمیت بلوچستان بھر میں تمام شعبوں میں تعلیم پھیلانا اور ریسرچ کرنا ہے، اس لیے یونیورسٹی سے متعلق اس طرح کے منفی پروپیگنڈہ سے گزیر کیا جائے۔‘

تاہم طلبا کے نمائندوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ معاملہ چند انفرادی طلبا کو نہیں بلکہ کتابوں کا ہے جو یونیورسٹی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ یونیورسٹی میں لائی جائیں۔

بی ایس او پجار کے رہنما باہوٹ چنگیز نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ فیل ہونے والے طلبا یونیورسٹی انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاس اور فیل ہونا تعلیم کا حصہ ہے۔ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ کس فیل ہونے والے طالب علم یا ان کے والدین نے آپ لوگوں پر دباؤ ڈالا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس بعض پابندیوں کے حوالے سے کوئی جواز نہیں ہے تو وہ بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔‘

’آپ لوگ یہ کتابیں پڑھ کرپہاڑوں کا رخ کرتے ہیں‘

باہوٹ چنگیز نے بتایا کہ یونیورسٹی میں کتابوں کا سٹال لگانے کی کوشش سے قبل انھوں نے عطا شاد ڈگری کالج میں کتابوں کا ایک سٹال لگایا تھا تو ’وہاں ریاستی اداروں کے چند اہلکار آئے اور یہ کہا تھا کہ آپ لوگ جو کتابیں یہاں فروخت کر رہے ہیں، ان میں سے بعض پر پاکستان میں پابندی ہے۔‘

’جن کتابوں پر انھوں نے پابندی کی بات کی ان میں ایک سندھی ادیب کی مسخ شدہ لاشیں نامی کتاب کے علاوہ کارل مارکس، لینن اور چی گویرا سے متعلق کتابیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کتابوں کو آپ لوگ فروخت نہ کریں۔‘

’ہم نے کہا یہ کتب پاکستان کے دیگر حصوں میں فروخت ہوتی ہیں تو آپ لوگ ان کو یہاں کیوں فروخت نہیں ہونے دیتے؟‘

’ہمارے سوال پر ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے دوسرے حصوں کے لوگوں کے مائنڈ سیٹ سے آپ لوگوں کا مائنڈ سیٹ مختلف ہے۔ آپ لوگ یہ کتابیں پڑھ کر پھر پہاڑوں کا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کے آغاز کے ساتھ ناصرف نیشنلزم سے متعلق لٹریچر اور قوم پرست تنظیموں کے جرائد بلکہ سخت گیر موقف کے حامل قوم پرست رہنماؤں کی تصاویر کی فروخت میں اضافہ ہوا۔

قوم پرست رہنماؤں کی تصاویر کے علاوہ یہ لٹریچر اور جرائد عام دکانوں اور کتابوں کے سٹالز پر بھی دستیاب ہوتے تھے۔

تاہم 2010 کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بک سٹالوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا 2013 میں تربت میں عطا شاد ڈگری کالج پر سکیورٹی فورسز نے چھاپہ مارا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی کتابوں کے علاوہ قوم پرست طلبا تنظیموں کے جرائد اور رسالوں کو اٹھوایا گیا تھا۔

ان چھاپوں کے باعث سٹالوں پر قوم پرست رہنمائوں کی تصاویر اور قوم پرست تنظیموں کے جرائد کی فروخت کا سلسلہ بند ہو گیا تھا اور ان کی اعلانیہ فروخت اب کہیں نہیں ہو رہی۔

’مکران کے لوگوں کو کتابوں کا نشہ ہے‘

بلوچستان کے معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا انتظامیہ یونیورسٹی میں کتابوں کے سٹال کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ مائنڈ سیٹ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کے لٹریچر یا اس طرح کی دوسری کتابیں پڑھیں اور صرف تبلیغی بن جائیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو لٹریچر پڑھنے سے روکنے کی کوشش مکران ڈویژن میں ہو رہی ہیں جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا علاقہ ہے اور مکران کی یہ دوسری نسل ہے جو کہ کتابیں پڑھ کر جوان ہوئی ہے۔‘

’وہاں کے لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا نشہ ہے۔ جن لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا نشہ ہو آپ ان کو کتابیں پڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ ایسے علاقے میں لوگوں کو کتابیں پڑھنے سے روکنے کی کوشش کرنے والے میرے خیال میں ذہنی طور پر اپاہج ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے جو حاکم ہیں ان کو حکمرانی کرنی نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح کے کام کرتے رہتے ہیں۔‘

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ’جن کتابوں کو پڑھنے سے آپ لوگوں کو روکنے کی کوشش کریں گے وہ مزید پاپولر ہوں گی اور ان کے بارے میں لوگوں کی جستجو مزید بڑھے گی۔‘

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بلوچستان میں عام کتابوں کی خریدوفروخت پر پابندی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے عام کتابوں کی خرید وفروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے علاوہ مختلف علاقوں میں کتب میلوں کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی باقاعدہ حکومت کی جانب سے سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لٹریچر اور کتابوں پر ضرور پابندی ہے جو کہ ریاست کے خلاف ہیں یا جو کہ معاشرے میں نفرتوں کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی پابندی صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی ریاست شرانگیزی پھیلانے والے یا معاشرے میں نفرت کا باعث بننے والے لٹریچر یا مواد کی اجازت نہیں دیتی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More