BBC
’اگلے 12 گھنٹوں میں علاقے میں موجود غیر قانونی افغان شہری اپنے وطن جانے کے لیے تیار ہو جائیں، کوئی بھی پاکستانی شہری انھیں کرائے پر گھر یا ملازمت نہ دے۔‘
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع افغان بستی کے لوگوں کی صبح کا آغاز پولیس کی جانب سے کیے گئے ایسے اعلانات سے ہوا۔
حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دے رکھی تھی جو گذشتہ رات پوری ہوئی جس کے بعد انھیں وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا۔
مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ اور آس پاس کی افغان بستیوں میں پولیس نے کوئی ایکشن تو نہیں لیا تاہم مقامی عمائدین اور افغان شہریوں کو متنبہ ضرور کیا۔
جب ہم آلاصف سکوائر کے عقب میں پہنچے تو جمال الدین افغانی سکول کے باہر کئی درجن لوگ ہاتھوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ایلین کارڈ لیے موجود تھے۔
ایک افغان شہری محمود اللہ ایک ڈیسک پر یہ فارم پُر کرنے میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ صبح اپنے گھر بیٹھے ہوئے تھے تو انھیں معلوم ہوا کہ پولیس مزدروں کو تنگ کر رہی ہے اور انھیں فارم بھرنے کے لیے کہا گیا ہے لہٰذا وہ ان کے فارم بھر رہے ہیں جو متعلقہ تھانے میں جمع کروائے جائیں گے۔
’اس فارم میں نام، فیملی کی تفصیلات، ایڈریس اور فون نمبر جیسی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ جس کے پاس کارڈ نہیں ہو گا اس کو اٹھا لیں گے جس کے پاس کارڈ ہے وہ تھانے میں بھی رجسٹر ہو۔‘
BBC’صبح کام پر گیا تو پولیس اہلکار نے تھپڑ مارا اور 500 روپے لے کر چھوڑا‘
حاجی عبداللہ شاہ بخاری افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر ہیں وہ صبح سے پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ سے رابطوں اور تعاون کی یقین دہانیوں میں مصروف رہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایس ایس پی نے انھیں یقین دہانی کروائی ہے کہ جو لوگ رجسٹرڈ ہیں وہ اپنے فارم بھر کے متعلقہ تھانے میں جمع کروائیں گے تو ان کے گھروں پر چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لہٰذا یہ فارم بھر کر تھانے میں جمع کروا کے وصولی کی کاپی لی جائے گی۔‘
حاجی عبداللہ شاہ نے بتایا کہ سہراب گوٹھ، سچل، مبینہ ٹاؤن اور سائیٹ ایریا کے تھانوں میں انھیں یہ فارم جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے۔
آلاصف کے علاقے میں شناختی کارڈ فوٹو سٹیٹ کروانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی نظر آئیں جس کے بعد یہ رضاکاروں کے پاس آ کر فارم پُر کرواتے نظر آئے۔
محمد حسن گل بھی اپنی فیملی کا فارم پر کروا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پانچ ان کی فیملی کے لوگ ہیں اور چھ ان کی والد کے کنبے کے لوگ ہیں۔
’میں دکانوں سے گتے جمع کرتا ہوں۔ صبح کام پر گیا تو پولیس اہلکار نے تھپڑ مارا اور پانچ سو روپے لے کر چھوڑا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں فارم پر کیے جا رہے ہیں، وہ اسلام آباد بھیجیں گے اس لیے یہاں آئے ہیں۔‘
پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں افغانستان میں روس نواز حکومت کے خلاف جہاد کی ابتدا کے بعد افغان پناہ گزین پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی بھی آئے تھے۔
اس وقت سہراب گوٹھ کے باہر افغان پناہ گزینوں کی بستی قائم کی گئی تھی جس کی دیکھ بال اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آر کرتا تھا۔ بعد میں ان کیمپوں کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے حوالے کی گئی تاہم سندھ حکومت نے یہ ذمہ داری نہیں لی جس کے بعد پناہ گزین کراچی شہر کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے جہاں وہ روزگار سے وابستہ ہو گئے۔
سپر ہائی وے کے آغاز پر موجود افغان آبادی میں کراچی آپریشن سے قبل پولیس اور رینجرز کی رسائی نہیں تھی جبکہ پولیو مہم کے دوران رضاکاروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
صوبائی وزیر داخلہ برگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایک لاکھ 75 ہزار کے قریب افغان شہری مقیم ہیں۔
کمشنر کراچی کے مطابق کراچی میں مقیم غیر قانونی افراد کی اکژیت نان بائی، کھانے پینے کی اشیا کی فروخت مقامی ہوٹلز، ماربل فیکٹریز میں ورکر، مخلتف مارکیٹوں میں دکاندار، موچی اور گھریلو ملازمین یا چوکیدار ہیں۔
BBC’طالبان نہیں چھوڑیں گے‘
کراچی میں سابق افغان حکومت میں سرکاری ملازمتوں سے وابستہ لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے کراچی میں پناہ اختیار کی ہے۔
محمد آصف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سنہ 2015 میں افغانستان کی پولیس میں بھرتی ہوئے اور اس کے بعد فوج میں چلے گئے۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہو گئی اور طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو وہ پاکستان آ گئے جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔‘
’اب اس وقت نہ میرے پاس شناختی کارڈ ہے نہ رجسٹریشن کی کوئی دستاویزات، پریشان ہوں کہاں جائیں کس کا دروازہ کھٹکٹائیں جو ہماری آواز سنے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم وہاں سے بھاگ کر آئے ہوئے ہیں اگر دوبارہ جائیں گے تو وہ (طالبان) ہمیں چھوڑیں گے نہیں مار دیں گے، حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ جو افغان پولیس یا فوج میں رہا انھیں سپورٹ کرے تاکہ وہ مرنے سے بچ جائیں یا تو ہمیں کسی اور ملک بھیج دیں یا پھر ہمیں یہاں رہنے دیا جائے۔‘
افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر حاجی عبداللہ شاہ بخاری کہتے ہیں کہ ’افغان مہاجرین نے رواں سال جولائی سے وطن واپس جانا شروع کر دیا تھا کیونکہ یہاں ان پر چھاپے پڑ رہے تھے، گرفتاریاں ہو رہی تھیں جس سے وہ تنگ تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت پاکستان کو درخواست ہے کہ کئی سال اپنی آغوش میں رکھا، اب وہاں افغانستان میں لوگوں کا کوئی سائبان نہیں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خواتین ہیں، معذور ہیں اس وقت وہاں برفباری کا موسم ہے۔‘
’انھیں دو تین ماہ کا وقت دے دیتے تاکہ موسم سرما ختم ہو جاتا، لوگ کچھ سائبان بنا لیتے، افغان پناہ گزین جانے کے لیے تیار ہیں انھوں نے عزت کے لیے ہجرت کی، بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے۔‘
BBCٹرانسپورٹ کا فقدان
آلاصف سکوائر کے پیچھے افغانستان جانے والی بسوں کا اڈہ موجود ہے جہاں موجود ایک درجن کے قریب بسوں کی چھتیں سامان سے لدی ہوئی تھیں جبکہ اس سے بھی کئی گنا سامان نیچے موجود تھا جو گھٹڑیوں کی صورت میں تھا۔
لوگوں کے ساتھ یہ سامان سوزوکی پک اپ اور چنگچی رکشہ میں لایا جارہا تھا۔
خواتین بچے اور بزرگ ان بسوں میں سوار ہو رہے تھے جبکہ کئی رشتے دار انھیں چھوڑنے کے لیے آئے ہوئے تھے، ان کا رویہ کافی سخت تھا اور کوئی تبصرہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ایک ٹرانسپورٹر ولی خان نے بتایا کہ کل سے 20 کے قریب بسیں نکل چکی ہیں جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جا رہی ہے لیکن مزید بسیں دستیاب نہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مسافروں کو قندھار تک لے جاتے ہیں اور فی مسافر چھ ہزار روپے کرایہ لیتے ہیں۔
ہر بس میں 35 سے 40 مسافروں کی گنجائش ہے، اس وقت پیچھے سے گاڑیاں نہیں آ رہیں کیونکہ جب چمن سے گاڑی آتی ہے تو اس میں کوئی مسافر نہیں ہوتا، نہ مال ہوتا ہے خالی آتی ہے، اس وجہ سے بسوں کی قلت ہے۔‘
یاد رہے کہ حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے لاجسٹکس کی مد میں آنے والے اخراجات صوبائی حکومتیں ادا کریں گی اور سندھ حکومت نے اس مد میں ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے ہیں۔
رضاکارانہ طور پر جانے والوں کی معاونت اور مدد کے لیے حکومتی سطح پر کوئی انتظامات نظر نہیں آئے تاہم افغان پناہ گزین کمیٹی کے صدر حاجی عبداللہ شاہ بخاری نے بتایا کہ ’انھیں ایس ایس پی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس کرایہ نہیں تو اس کے کرائے اور کھانے پینے کا بندوبست حکومت کی طرف سے کیا جائے گا۔‘
حکومت کی جانب سے کراچی میں حاجی کیمپ سلطان آباد اور امین ہاؤس، بوائے سکاوٹس ہاسٹلز کی صورت میں افغان پناہ گزینوں کے لیے ہولڈنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔
پہلے مرحلے میں ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے ضلع سے غیر قانونی افراد کو ہولڈنگ پوائنٹس منتقل کریں گے دوسرے مرحلہ میں انھیں چمن بارڈر پہنچایا جائے گا۔
اسی طرح حکومت کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کا معاشی گھیراؤ بھی کیا جا رہا ہے۔ کمشنر آفس کا کہنا ہے کہ تمام فیکٹری مالکان، مارکیٹ تنظیموں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو ملازمت نہ دی جائے اور لوگوں کو بھی کہا گیا ہے کہ انھیں کرائے پر مکان نہ دیا جائے بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
واضح رہے کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کراچی میں برمی، بنگالی اور انڈین شہری بھی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں تاہم اس وقت تک صرف افغان شہریوں کے خلاف ہی کارروائی ہوتی نظر آ رہی ہے تاہم صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی طور پر مقیم ہر غیر ملکی کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘