’شام کو ایک رشتے دار نے فون کیا کہ جلدی آؤ، تمہارے لیے خوشخبری ہے۔ ہم جیسے ہی وہاں پہنچے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے والد تھے لیکن ان کی حالت اور حلیہ دیکھ کر ہم ان کو پہچان ہی نہیں پائے تھے۔ 31 ماہ کے بعد ہماری اذیت اور انتظار ختم ہوا۔‘
یہ کہنا ہے عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید کا جن کے والد تقریبا ڈھائی سال کی مبینہ جبری گشمدگی کے بعد واپس لوٹے ہیں۔
سعیدہ حمید نے اپنے والد کی واپسی کی اطلاع سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر دیتے ہوئے ساتھ میں عبدالحمید زہری کی ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں ان کے چہرے کی داڑھی بڑھی ہوئی ہے اور وہ کمزور نظر آتے ہیں۔
سعیدہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا کسی مذہبی یا سیاسی جماعت سے تعلق نہیں اور انھیں ’آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انھیں آخر کیوں اٹھایا گیا تھا۔‘
عبد الحمید زہری کون ہیں؟
عبدالحمید زہری کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار سے ہے اور وہ گزشتہ 10 سال سے کراچی میں مقیم ہیں۔
ان کی بیٹی سعیدہ کے مطابق عبد الحمید زہری بچوں کی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ خود عبدالحمید زہری نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ان کی بیٹی سعیدہ کے مطابق وہ ریئل اسٹیٹ اور گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔
تاہم ان کی زندگی 10 اپریل 2021 کو اس وقت بدل گئی جب کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے ان کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
ان کے اہلخانہ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں جبری گمشدگی کے خلاف آئنی درخواست دائر کی گئی جس میں دعوی کیا گیا کہ ’سادہ کپڑوں میں ملبوس چند لوگ عبدالحمید زہری کو زبردستی اپنے ساتھ ایک گاڑی میں لے گئے۔‘ اہلخانہ کے مطابق ان افراد کے ساتھ دو پولیس موبائلیں بھی موجود تھیں۔
سعیدہ زہری اور ان کے چھوٹے بھائی گزشتہ کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر اپنے والد کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کرتے رہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے حق میں آواز اٹھائی گئی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں بھی عبد الحمید زہری کی جبری گمشدگی پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
واضح رہے کہ ماضی میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر پاکستانی حکومت اور فوج کا ردِعمل اظہار لاتعلقی اور اظہار لاعلمی تک محدود رہا ہے۔
’والد کو ان کا بٹوہ پیسوں سمیت لوٹایا گیا‘
سعیدہ زہری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اپنے فلیٹ پر ہی موجود تھیں جب ان کے کزن کے گھر سے شام پانچ بجے کال آئی کہ ’خوشخبری ہے، جلدی آ جاؤ۔‘
سعیدہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ایک ہی عمارت میں رہتے ہیں۔ ہم ساتویں جبکہ کزن پانچویں منزل پر رہائش پذیر ہیں۔ میں نے بچوں کو اٹھایا، امی کو ساتھ لیا اور دوڑتے ہوئے نیچے فلور پر پہنچے۔‘
کزن کے گھر پہنچ کر سعیدہ نے ایک باریش شخص کو دیکھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سامنے والد بیٹھے ہوئے تھے لیکن بلکل پہچانے نہیں جارہے تھے۔ ہم نے انھیں گلے لگایا اور بہت دیر تک آنسو بہاتے رہے۔‘
’وہ ایک ایک کرکے سب سے ملتے رہے اور خدا کا شکر ادا کرتے رہے کہ اپنے بچوں سے مل رہے ہیں۔ انھیں لگا تھا کہ ہمیں کچھ ہو گیا ہوگا۔ وہ ہمارے لیے بہت پریشان تھے۔‘
سعیدہ کے مطابق ان کے والد کو لے جانے والے افراد نے ان کا بٹوہ، جس میں تین ہزار روپے تھے، اور شناختی کارڈ واپس کیا اور ’گھر سے دور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ آپ اپنے گھر چلے جائیں۔‘
’اس کے بعد والد آٹو رکشہ میں ہماری بلڈنگ پہنچے اور اپنا گھر ڈھونڈتے رہے لیکن نہیں ملا جس کے بعد رشتے داروں کے گھر چلے گئے۔‘
لیکن اس دوران عبدالحمید پر کیا بیتی؟
سعیدہ نے بتایا کہ ان کے والد کے مطابق انھیں سادہ کپڑوں میں لوگ سرف گاڑی میں لے گئے اور انھیں ایک کمرے میں بند رکھا گیا۔
’ان کی آنکھیں بند رہتی تھیں، انھوں نے 31 مہینوں کے بعد آسمان کو دیکھا ہے اور اذان سنی ہے۔‘
سعیدہ نے کہا کہ ’انھیں بغیر کسی جرم کے قید میں رکھا گیا لیکن اب ہماری خوشیاں لوٹ آئیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ والد اور ہمیں مزید پریشان نہ کیا جائے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعیدہ نے بتایا کہ ان کے والد ذیابیطس کے مریض ہیں لیکن انھیں دوائی بھی نہیں دی جاتی تھی۔
’نگران دور حکومت میں عبد الحمید پہلے شخص ہیں جو واپس لوٹے ہیں‘
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نگران حکومت میں عبدالحمید زہری پہلے شخص ہیں جو واپس لوٹے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے موجودہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، جن کا ماضی میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق تھا، بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رواں سال تقریبا 20 کے قریب لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی ہے جبکہ جبری گشمدگیوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔
’یہ پڑھے لکھے نوجوان تھے جن کو مکران ، تربت، آواراں، گوادر، کے علاوہ خضدار، مستونگ سے لاپتہ کیا گیا ہے۔‘