EPA
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں سمیت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لیے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی کی آج آخری تاریخ ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اس حوالے سے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دی تھی اور واضح طور پر بتایا تھا کہ اس میں کوئی توسیع نہیں ہوگی۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کشمنر روینا شمدسانی نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے اس اقدام سے پاکستان میں مقیم 14 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شہری متاثر ہوں گے۔
جبکہ حکومت پاکستان کے ایک محتاط اندازے کے مطابق 17 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔
پاکستان میں افغان شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کے سامنے آنے کے بعد ایک سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا حکومت کا یہ اعلان صرف افغان شہریوں کے لیے ہے ؟
ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ حکومت کی وارننگ کے بعد اب تک کتنے افراد نے رضاکارانہ طور پر واپسی اختیار کی اور یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا مستقبل کیا ہو گا۔
غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ڈیڈ لائن
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں واضح کیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے جس میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے ایک جامع آپریشن ہو گا۔‘
وزیر داخلہ کے مطابق پہلے مرحلے میں ان غیر قانونی افراد کو واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس کوئی سفری دستاویز نہیں، نہ یہ ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کب اور کیسے آئے تھے۔
ان کے مطابق دوسرے وہ افراد ہیں جنھوں نے ریکارڈ کو تبدیل کیا اور وہاں سے اپنے آپ کو رجسٹرڈ کر لیا۔ اس کے بعد باقی دیگر کیٹیگریز ہیں جن کے تحت آخر میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تمام افراد کو پاکستان سے واپس جانا ہو گا۔
وزیر داخلہ کے مطابق ان لوگوں کو بھی واپس بھیج دیا جائے گا جن کے پاس رجسٹریشن پروف (پی او آر) کارڈز ہیں کیونکہ اب ان کے اپنے آبائی ملک کے حالات بہتر ہیں۔
اب تک کتنے افراد پاکستان چھوڑ چکے ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں مقیم غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے کم از کم چھ لاکھ لوگ 2021 کے دوران افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان آئے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کشمنر روینا شمدسانی نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ تین اکتوبر سے 15 اکتوبر تک 59 ہزار سے زیادہ افغان شہری پاکستان میں گرفتاری کے خوف سے افغانستان واپس لوٹ گئے ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ تقریباً دو لاکھ کے قریب غیر قانونی افراد دو ماہ کے دوران واپس گئے ہیں اور ’یہ تاثر غلط ہے کہ صرف افغانستان کے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔‘
اے پی پی کے مطابق یکم اکتوبر سے 23 اکتوبر کے درمیان تقریباً 33 ہزار پانچ سو سے زیادہ غیر دستاویزی افغان تارکین وطن ضلع خیبر کے راستے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے بتایا ہے کہ صوبے میں غیر ملکیوں کی تعداد 14 لاکھ کے قریب جن میں سے ایک لاکھ 74 ہزار غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
دوسری جانببلوچستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد پانچ لاکھ 84 ہزار ہے۔ صوبائی نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بتایا کہ محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
سندھ کے نگراں وزیر داخلہ برگیڈیئر حارث کا کہنا ہے کہ صرف کراچی میں ایک لاکھ 75 ہزار کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں، ان میں سے جن کے پاس کوئی بھی قانونی دستاویز نہیں یا جعلی دستاویزات ہیں انھیں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے حکام کے مطابق اب تک 52000 غیر قانونی غیر ملکیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پشاور میں محکمہ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ صوبے میں افغان پناہ گزینوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
جو افغان پناہ گزین اب تک واپس نہیں گئے ان کے ساتھ کیا ہو گا؟EPA
حکومت کے مطابق یکم نومبر تک ’رضاکارانہ انخلا‘ کی حوصلہ افزائیکی جا رہی ہے تاہم یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف دو نومبر سے آپریشن کی تیاریاں جاری ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ہولڈنگ سینٹرز بنا دیے ہیں۔ ایسے تمام افراد کو ہولڈنگ سینٹرز میں رکھا جائے گا۔ چھاپے مارے جائیں گے اور ان کو ہولڈنگ سینٹرز لایا جائے گا۔‘
سرفراز بگٹی کے مطابق ان تمام مراحل میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ انتہائی احترام کا سلوک روا رکھا جائے گا۔ ’تمام ادویات سمیت راشن بھی فراہم کیا جائے گا۔ ہر سینٹر سے ایک ہفتے میں تین سے چار شفٹوں میں انھیں وہاں سے بارڈر پر شفٹ کیا جائے گا۔‘
ان کے مطابق تمام صوبائی حکومتیں اس حوالے سے تعاون کریں گی۔
اس کے علاوہ انھوں نے کہا ہے کہ ’وہ پاکستانی جنھوں نے غیر قانونی مقیم افراد کو گھر کرایہ پر دے رکھے ہیں، وہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایسے افراد کے لیے موقع ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے بارے میں اطلاع فراہم کریں۔‘
بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کے مطابق یکم نومبر سے غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے لیے تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں اور اس سلسلے میں کوئٹہ میں بروری روڈ پر واقع حاجی کیمپ میں ہولڈنگ سینٹر قائم کیا جا رہا ہے۔
پشین اور قلعہ عبداللہ میں غیرقانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے ہولڈنگ سینٹرز بنائے جا رہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا غیر قانونی افغان تارکین وطن کو افغانستان بھیجنے کے لیے تین مزید کراسنگ سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک قلعہ سیف اللہ میں قمردین کاریز میں ہوگا جبکہ دوسرا کراسنگ پوائنٹ ضلع چاغی میں قائم ہوگا۔
خیبر پختونخوا کے حکام کے مطابق ابتدائی طور پر افغان پناہ گزینوں کو پشاور، ایبٹ آباد اور ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں قائم کیمپوں میں رکھا جائے گا۔
نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے مطابق پنجاب بھر میں 36 ڈویژن میں 34 ہولڈنگ کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں ان غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو رکھا جائے گا۔
سندھ کے نگران وزیر داخلہ بریگیڈیر حارث نے بتایا ہے کہ تمام اضلاع کے ڈپٹی کشمنرز، پولیس، نادرا کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو اس آپریشن میں حصہ لیں گے۔
ان کے مطابق پہلے مرحلے میں غیر قانونی مقیم ان افغان شہریوں کو حاجی کیمپ منتقل کیا جائے گا جہاں سکیورٹی اور کھانے پینے کا بندوست ہوگا۔ وہاں سے پھر تین تین چار چار سو کی تعداد میں بذریعہ ٹرین چمن کے لیے روانہ کیا جائے گا۔
کیا یہ آپریشن صرف افغان شہریوں کے انخلا کے لیے ہے؟
وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان چھوڑنے کا حکم ان تمام غیر ملکیوں کے لیے ہے جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ایسے تمام افراد کے خلاف 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن کے بعد آپریشن شروع کیا جائے گا۔
سرفراز بگٹی کے مطابق ’جب غیر ملکیوں کے انخلا کی بات کی جاتی ہے تو ان میں بدقسمتی سے افغان شہریوں کا نام آ جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکیوں میں سب سے بڑی تعداد ہی افغان شہریوں کی ہے۔‘
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کیا ہے کہ:
انخلا کے منصوبے کا اطلاق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں پر ہو گا۔ منصوبے کے اطلاق میں کسی بھی ملک یا شہریت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔پاکستان میں مقیم تمام رجسٹرڈ غیر ملکی اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
دفتر خارجہ کے مطابق ’فیصلہ پاکستان کی خود مختاری اور بین الااقومی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان خراب صورتحال سے متاثرہ افراد کی سکیورٹی کا عزم کیے ہوئے ہے۔‘
EPAغیر ملکیوں کے انخلا کے دوران احتجاج کیوں ہو رہے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن میں گذشتہ 10 دنوں سے مقامی افراد کا احتجاج جاری ہے اور ان میں زیادہ تر لوگ تاجر ہیں۔
حکام نے اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد چمن بارڈر سے پاکستان کے شناختی کارڈ پر افغانستان جانے اور افغانستان کے شناختی کارڈ (تذکرہ) پر پاکستان آمد پر پابندی ہوگی اور یہ آمد و رفت اب ویزے کے تحت ہو گی جس پر مقامی افراد سراپا احتجاج ہیں۔
واضح رہے کہ یومیہ 30 سے 40 ہزار افراد چمن بارڈر کے راستے افغانستان آمد و رفت کرتے ہیں اور اس کے لیے ان کو صرف اپنے شناختی کارڈ دکھانا ہوتے ہیں۔ دونوں اطراف کے لوگ آپس میں نہ صرف رشتہ داریاں رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی تجارت کے لیے بھی روزآنہ کی بنیاد پر پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آتے جاتے ہیں۔
یومیہ آمد و رفت میں پاکستانی بطور تاجر افغانستان کے علاقے قندھار تک جاتے ہیں جبکہ افغان شہری بھی تجارت یا ملازمت کی غرض سے بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ تک آتے ہیں اور شام کو واپس اپنے وطن چلے جاتے ہیں۔
پاکستان کے فیصلے پر افغانستان کا رد عمل کیا ہے؟
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق افغانستان میں امارت اسلامی کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری حکم میں افغان شہریوں کو نکالنے کے عمل کو ’تمام روایات کے خلاف‘ قرار دیا گیا ہے۔
افغانستان میں مولوی عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں قائم ایک کمیشن پاکستان اور دیگر ممالک سے نکالے گئے افغان شہریوں کو تمام سہولیات فراہم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کر رہا ہے۔