مستونگ دھماکے میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی محمد نواز: ’پاکستان میں پولیس اہلکار ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 30, 2023

’مستونگ میں دہشتگردی کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور دوبارہ بھی ہوں گے لیکن افسوس رہے گا کہ میرا دوست محمد نواز اب واپس نہیں آسکے گا۔‘

یہ بات مستونگ واقعے میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی سٹی محمد نواز گشکوری کے برادر نسبتی محمد قاسم نے بی بی سی سے کو بتائی۔

محمد قاسم ان لاتعداد افراد میں شامل ہیں جو ڈی ایس پی محمد نواز کی تدفین کے موقع پر موجود تھے۔ڈی ایس پی محمد نواز کو جمعے کی شب ان کے آبائی علاقے سبی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

جمعے کو مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے جمع ہو رہے تھے جب ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

اس حملے میں اب تک 52 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 139 افراد زخمی ہیں۔

اسی حملے میں ڈی ایس پی مستونگ سٹی محمد نواز گشکوری خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔

Getty Imagesاس حملے میں اب تک 52 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 139 افراد زخمی ہیں ’پاکستان میں پولیس اہلکار ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے‘

محمد نواز کے قریبی دوست سلیم گشکوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے سنا کہ ایک پولیس افسر نے خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش کی تو مجھے عجیب سی بے چینی ہوئی اور لگا کہ یہ کام محمد نواز ہی کر سکتا ہے۔‘

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں پولیس اہلکار ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے، جو محمد نواز نے اپنی جان دے کر چکائی۔‘

سلیم گشکوری نے مزید کہا کہ ’سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ اچانک کیا ہو گیا۔ ان کے چار بچے ہیں۔۔۔ ان کا گھر اب کیسے چلے گا۔‘

محمد نواز کے ایک پولیس افسر دوست محمد سرفرازنے بتایا کہ ’صبح ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ مدینہ مسجد کے پاس ایک جلوس کی شکل میں بڑی تعداد میںلوگ جمع تھے۔ اچانک سے (ڈی ایس پی) نواز ایک شخص کی جانب بڑھے۔ اس سے پہلے کہ میںانھیں آواز دے پاتا یا ان کی طرف دوڑ سکتا، تب تک دھماکہ ہوچکا تھا۔ بعد میں سمجھ آیا کہ نواز جسے روکنے کی کوشش کررہا تھا، وہ خودکش بمبار تھا۔‘

سرفراز نے کہا کہ ’مجھے اپنے دوست پر بہت فخر ہے لیکن جو اس کی کمی ہے وہ اپنی جگہ رہے گی۔‘

Getty Images’ایماندار اور خاموش طبیعت کے مالک‘

محمد نواز گشکوری سنہ 1966 میں سبی میں پیدا ہوئے۔ وہ سنہ 1988 میں بی اے کرنے کے بعد مقامی تھانے میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے جبکہ سنہ 2015 میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے۔

ان کے علاقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ محمد نواز ایک نہایت ہی ایماندار اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔

محمد قاسم نے بتایا کہ ’پہلے کئی دھماکوں اور تشدد کے واقعات میں ان کی جان بچ گئی لیکن اس بار وہ بمبار کو روکنے کے لیے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔‘

محمد نواز کے چار بچوں میں سب سے بڑا بیٹا 27 برس کا ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر 17 سال ہے۔

قاسم نے بتایا کہ محمد نواز مستونگ میں اپنے قیام کے دوران لوگوں کی مدد بھی کرتے رہے۔ ’اب لوگ ان کے علاقے سبی میں پہنچ رہے ہیں۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کتنی عزت تھی‘۔

ایس ایس پی سٹی مستونگ شعیب مسعود نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر پاکستان میں ہونے والے دونوں حملے پولیس کے خلاف لگ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری مدینہ مسجد سے نکلنے والے جلوس کی سکیورٹی پر مامور تھی اور حملے کا ٹارگٹ بھی یہ جلوس تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More