Getty Images
’ہر وہ شخص جس کی بچہ دانی ہے عورت نہیں ہے، اور ہر عورت کی بچہ دانی نہیں ہوتی۔ عورتوں کو بچہ دانی تک محدود کر دینا صنفی امتیاز کے زمرے میں آتا ہے۔‘
عورت مارچ کے پیج پر پوسٹ کیے گئے ان الفاظ نے سوشل میڈیا پر ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک سوال جو بارہا کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ خواتین کی تولیدی صحت کے متعلق جاری ہونے والا یہ بیان آخر کن لوگوں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے؟
واضح رہے کہ عورت مارچ کے اب متنازعہ سمجھے جانے والے الفاظ دراصل ایک فیمنسٹ بیٹھک کا حصہ ہیں۔ اس موضوع کے تحت جمعہ کی شب (یعنی آج ) سوشل میڈیا ویب سائیٹ ایکس پر ماہواری، جنس اور صنف پر بات ہو گی۔ اس بحث میں عورت دشمنی اور پدرشاہی جیسے موضوعات پر بھی بات کی جائے گی۔ اس بیٹھک کا ایک بنیادی حصہ خواتین کی صحت اور خاص طور سے بچہ پیدا کرنے کے فیصلہ سے جڑی ہے۔
لیکن اس موضوع کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔ اور اب عورت مارچ پر ’ٹرانس ایجنڈا‘ نافذ کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔ اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ’جینڈر فلوئیڈٹی‘ کے نام پر خواتین کی جنس کو ختم کیا جا رہا ہے۔
بات تب شروع ہوئی جب عورت مارچ نے اپنے سوشل میڈیا صفحہ سے اس بیٹھک کے مقصد کو سمجھانے کے لیے لکھا کہ ’جنس اور صنف میں فرق ہے۔ ماہواری ایک بائیولوجیکل عمل ہے۔ اور بائیولوجی اور صنف میں فرق ہوتا ہے۔ ہم بچہ دانی رکھنے والے افراد کے ساتھ ہیں اور ان پر ہونے والی زبردستی کے خلاف ہیں۔‘
اب اس پورے جملے پر بحث یہ چھِڑی کہ ’بچہ دانی رکھنے والے افراد‘ کہنے کا کیا مقصد ہے؟
Getty Images
ایک سوشل میڈیا صارف ارم عباس نے لکھا کہ ’یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہم بائیولوجی کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ یہ بحث کیوں کی جا رہی ہے؟‘
ایک اور صارف ثمینہ نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ اتنی دل سوز بات ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کے لیے کچھ کر سکتے ہیں، وہ کسی اور بات پر دھیان دیے بیٹھے ہیں۔ جس خاص آئیڈیا کی بات عورت مارچ کر رہا ہے اس کو مغربی ممالک میں بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘
اسی طرح فیشن ڈیزائنر محسن سعید نے لکھا کہ ’میں نے ایک بار پہلے بھی یہ کہا ہے کہ کئئ ممالک میں جینڈر فلوئیڈٹی کے نام پر خواتین کی جنس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تنقید اور تنقید کرنے والوں کو طریقے سے دبایا اور چپ کروایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’عورت مارچ کو صرف عورتوں کے حقوق کی بات کرنی چاہیے نہ کہ دیگر جنس کی جس پر پہلے سے ہی بہت کنفیوژن ہے۔‘
عورت مارچ نے اس پوری بحث پر ایکس پر ہی ایک اور پوسٹ لکھی اور اس میں بتایا کہ ’بچہ دانی رکھنے والے افراد لکھ کر ہم اس بنیادی پدرشاہی سوچ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت عورت کو صرف بچہ پیدا کرنے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‘
اب اس پوسٹ کے نیچے بھی مزید بات ہو رہی ہے جس میں صاف ظاہر ہے کہ لوگوں میں اب بھی اس میسج کو لے کر ابہام پایا جا رہا ہے۔
ایکس صارف ثمیرہ علی نے لکھا کہ ’کیا یہ بحث ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے لیے کی جا رہی ہے؟‘
Getty Images
عورت مارچ کی آرگنائزر عطیہ عباس سے جب اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’(اس موضوع پر) اب تک کی ساری بحث خاصی مضحکہ خیز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لوگ اس بات پر غصہ ہو رہے ہیں کہ عورت مارچ نے لکھا ہے کہ جینڈر معاشرے کی جانب سے بنایا گیا ہوا نظام ہے۔ جس کے تحت مخصوص حرکات اور سکنات عورت اور مرد سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس بات میں کچھ غلط نہیں ہے۔ ہمارے ایسا کہنے میں ہم ان تمام افراد کو اس بحث میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو خود کو عورت، مرد، ٹرانسجینڈر سمجھتے ہیں۔ اس میں کنفیوژن کیا ہے؟‘
ایکس صارف گوڈ پارٹیکل نے لکھا کہ ’کتنے ٹرانس لوگوں کے قتل ہونے کے بعد یہ بحث پاکستان میں قابلِ قبول ہو گی؟ ایک فیمنسٹ تحریک میں اس بحث کو اب ہونا چاہیے۔‘
اس سے پہلے بھی عورت مارچ پر ایک خاص طبقے کے موقف کو اہمیت دینے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اور اس بار بھی تنقید کا مرکز یہی ہے کہ کیا پاکستان میں جینڈر فلوئیڈٹی پر بات کرنے کے لیے یہ ’مناسب‘ وقت ہے؟
عطیہ نے کہا کہ ’دیکھیں اگر ہم اس بات کا انتظار کرتے رہیں گے کہ کوئی بھی بات کرنے کا موزوں وقت کیا ہے تو ہم انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے۔ مجھے تو حیرت ہے کہ لوگ اس بات کا اتنا بتنگڑ کیوں بنا رہے ہیں۔‘
انھوں نے مہم کا پیغام سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’پیپل وِد یوٹرس (یا وہ لوگ جن کی بچہ دانی ہے) ان تمام لوگوں کو اس کیمپین میں شامل کرتا ہے جو اپنے تولیدی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس میں ہم کسی طرح کا امتیاز نہیں کر سکتے۔‘
Getty Imagesلیکن عورت مارچ کا مخاطب آخر کون ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے عطیہ نے کہا کہ ’وہ تمام لوگ جو جسم میں موجود عضو سے خود کی شناخت نہیں کرتے۔‘
سبین قاضی نے لکھا کہ ’ایک طرف تو عورت مارچ ہمیں کوئی بھی پوسٹ لکھ کر کہتا ہے کہ اس پر بات کریں یا انگیج کریں۔ جب ہم سوال اٹھاتے ہیں تو ہمیں چپ کروا دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوال ایسے نہ کرو۔ تو آخر بحث کیسے کریں؟ آپ پاکستان میں ایک ایسے موضوع پر بات کر رہے ہیں جو بنیادی مسائل سے بہت دور کی بات ہے۔‘
عورت مارچ کی اس پوسٹ پر تنقید کرتے ہوئے لاہور کی سماجی کارکن سمیعہ الطاف نے کہا کہ ’پاکستان میں اس وقت بنیادی حقوق نہیں ہیں۔ یہاں اس وقت سب سے بڑی بحث عورت کی خود مختاری سے جڑی ہے۔ عورت مارچ ایک سادہ سے پیغام کو مشکل بنا کر پیش کر رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو پہلے سمجھنا ہو گا کہ کیا پاکستان میں عورت اور مرد کے علاوہ دیگر صنف کو قبول بھی کیا جاتا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں کیا جاتا تو اس صنف کو ماہواری کی بحث میں شامل کرنا کیا صحیح ہے؟ آپ کہیں گے کہ مغرب میں یہ بحث ہوتی ہے۔ وہ ایک آزاد اور خود مختار معاشرہ ہے لیکن وہاں ہر طرح کی جنس کو قبول کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہے۔‘
سمیعہ نے کہا کہ ’ایسے الفاظ کا چناؤ کہ ’بچہ دانی رکھنے والے افراد‘ ایسے الفاظ ہیں جو یہاں پر ابھی نہیں سمجھے جائیں گے کیونکہ بائیولوجی کے تحت بچہ دانی عورتوں کی ہوتی ہے۔ایک ایسے معاشرے میں ابہام پیدا کرنا جہاں بنیادی تعلیم بھی بمشکل ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، غلط ہے اور اس پر تنقید ہونی چاہیے۔‘