BBC
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے ٹیسٹ میں نقل سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد صوبائی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پورے امتحان کا ہی انعقاد دوبارہ سے کیا جائے گا۔
اس فیصلے کے بارے میں جمعرات کے دن پشاور ہائیکورٹ میں اسی داخلہ ٹیسٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عبدالشکور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ کو ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے آگاہ کیا۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکا خیل نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’کابینہ نے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ایم ڈی کیٹ امتحان دوبارہ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا جو آئندہ چھ ہفتوں کے دوران ہی منعقد ہوگا۔‘
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں 10 ستمبر کو میڈیکل کالجز میں داخلے کا امتحان صوبے میں قائم 44 امتحانی مراکز میں لیا گیا، جس میں تقریباً 46 ہزار طلبا اور طالبات نے حصہ لیا۔
اس امتحان سے پہلے چیف سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ حکام کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اس امتحان میں بڑے پیمانے پر نقل کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی جاچ پڑتال کے لیے امتحانی مراکز میں سختی کی گئی اور 200 سے زیادہ بلیو ٹوتھ ڈیوائسز برآمد کی گئی تھیں۔
ان طلبا اور طالبات کے خلاف ایف آئی آرز درج کر کے انھیں پولیس کے حوالے بھی کیا گیا جس کے بعد پولیس نے دعوی کیا کہ انھوں نے نقل سکینڈل میں ملوث گروہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سرغنہ سمیت نو افراد کو حراست میں لیا۔
پولیس کے مطابق یہ گروہ امتحان میں شامل طالب علموں کو بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے نقل کرانے کے لیے 25 لاکھ روپے سے 35 لاکھ روپے تک رقم وصول کر رہا تھا۔
پولیس نے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں کی جانے والی کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے افراد سے 44 الیکٹرانک ڈیوائسز، چار عدد مائیکروفون، تین عدد موبائل فون، ایک سمارٹ واچ اور لاکھوں روپے کا ایک بینک چیک بھی برآمد کیا۔
’صوبائی حکومت کے پاس ٹیسٹ کینسل کرنے کا اختیار نہیں‘
جمعرات کے دن ایم ڈی کیٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی تو ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کراچی، لاہور اور پنجاب میں بھی ٹیسٹ پر جے آئی ٹی بنی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور میں پہلے سے اطلاع ہونے کی وجہ سے نقل کرنے والے 200 سے زیادہ امیدوار گرفتار کر لیے گئے۔‘
ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو ایم ڈی کیٹ کے دوبارہ انعقاد کے بارے میں آگاہ کیا تو درخواست گزار کے وکیل ضیا الحمان تاجک نے کہا کہ ’صوبائی حکومت کے پاس ٹیسٹ کینسل کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس ہے۔‘
جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ’ایکٹ کے مطابق تو یہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے۔‘ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایکٹ کے مطابق صوبائی حکومت اور ریگولیشن میں یہ اختیار یونیورسٹیز کے پاس ہے۔
ایک اور درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ’دوبارہ امتحان سے ذہین طلباء متاثر ہوں گے۔‘
پشاور ہائیکورٹ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور امتحان لینے والے ادارے ایٹا کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ منگل کے دن اس کیس کو سن کر فیصلہ کیا جائے گا۔
BBCنقل نیٹ ورک میں سرکاری ملازمین بھی شامل
واضح رہے کہ 22 ستمبر کو پشاور میں سی سی پی او سید اشفاق انور اور ریجنل پولیس آفیسر کوہاٹ شیر اکبر خان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں جن افراد کی نشاندہی ہوئی ہے ’ان میں دو سرکاری ملازم شامل ہیں، جو بھائی ہیں اور بظاہر اس نیٹ ورک کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔‘
اشفاق انور نے بتایا کہ انھوں نے ملزمان سے بلیو ٹوتھ ڈیوائسز برآمد کیں اور ان کی فرانزک تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے سے رابطہ کیا گیا تاکہ اس بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں کہ ملزمان نے یہ ڈیوائسز کیسے حاصل کیں اور انھیں کیسے استعمال کیا گیا۔
آر پی او کوہاٹ شیر اکبر خان نے بتایا کہ جب اطلاع موصول ہوئی تو انھوں نے فوری طور پر کارروائی کی اور نو افراد کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی۔
’ابتدائی طور پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کوئی نقل کا کیس ہے لیکن جوں جوں تفتیش بڑھتی گئی اس میں بہت سی چیزیں سامنے آتی گئیں اور یوں ایک بڑا نیٹ ورک سامنے آیا۔‘
پولیس کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گرفتار ہونے والے نیٹ ورک کے ارکان ایک سینٹرلائز سسٹم کے تحت بیک وقت امیدواروں کے ساتھ پیپر حل کرانے کے لیے رابطے میں تھے۔
پولیس نے یہ بتایا کہ ’اس سافٹ وئیر اور طریقہ کار کے حوالے سے جانچ پڑتال کے لیے ایف آئی اے سے معلومات فراہم کرنے کے لیے استدعا کی گئی ہے۔ طلبا کے پاس موجود ڈیوائسز، جس سرور کے ساتھ منسلک تھی، اس کے آئی پی ایڈریس کی معلومات کے لیے بھی متعلقہ اداروں کو تحریری مراسلہ ارسال کر دیا گیا۔‘
منظم نقل سے ڈاکٹر بننے کا شوق BBC
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایویلوئیشن ادارے (ایٹا) کے حکام کے مطابق انھوں نے امتحانی ہال میں طلبا اور طالبات کی تلاشی لی اور 200 سے زیادہ امیدواروں سے یہ بلیو ٹوتھ ڈیوائسز برآمد کی۔
اس بارے میں پشاور ہائیکورٹ میں درخواستیں دی گئیں جن پر عدالت نے نتائج پر حکم امتناعی جاری کیا۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالشکور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل بینچ کی جانب سے ان درخواستوں پر پونے والی گزشتہ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئیں، اس کے مطابق اس میں صوبائی اور یہاں تک کہ وفاقی سطح کے اعلی افسران بھی شامل ہیں
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عامر جاوید کے مطابق ’اس امتحان میں 90 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے، جس پر بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔‘
وکلا نے بتایا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی پشاور ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور انٹیلیجنس ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2023 کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے منعقدہ امتحان میں جدید ترین آلات کے ذریعے سے نقل کروانے میں منظم گروہ ملوث تھا۔
’گروہ میں شامل ارکان نے طالب علموں سے رابطے کیے اور انھیں بلیوٹوتھ، جی ایس ایم، آلات کے استعمال اور امتحان میں زیادہ نمبر حاصل کرنے کا لالچ دیا تھا۔‘
جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق کم از کم 800 امیدواروں کو امتحان میں نقل کرانے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا طریقہ کار صرف ایم ڈی کیٹ امتحان ہی کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں منعقدہ دیگر امتحانات میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتحان کی نگرانی کرنے والے افراد کو متنخب کرنے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایٹا کے ایک اور امتحان میں اسی طرح کے آلات بر آمد ہوئے ہیں جن پر کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں جاری کردہ ابتدائی سمری واضح کرتی ہے کہ امیدواروں نے غیر معمولی طورپر گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ’امتحان کی ساکھ پر سمجھوتہ ہوا۔‘