جیلی فِش کی مختلف اقسام سمندروں میں لاکھوں سالوں سے گھومتی پھر رہی ہیں، اس مخلوق میں دماغ نہیں ہوتا لیکن جیلی فش دماغ سے محروم ہونے کے باوجود سیکھنے کے قابل ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ممکن ہے کہ سیکھنے کیلئے کسی پیچیدہ اعصابی نظام کی ضرورت نہ پڑتی ہو لیکن کیریبین باکس جیلی فِش محض آنکھوں اور مخصوص خلیات کی مدد سے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی شناخت کر لیتی ہے، جیلی فش بغیر دماغی فعالیت کے واقعات کے درمیان ذہنی روابط بنا سکتی ہے۔
جرمن نیورو ایتھولوجسٹ جان بیلیکی کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے سیکھنے کے لیے کوئی بہت پیچیدہ اعصابی نظام کی ضرورت نہ ہو بلکہ سیکھنا عصبی خلیات یا بہت ہی محدود سرکٹ نظام پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ نئی تلاش یہ معلوم کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ جانوروں میں سیکھنے کا ارتقا کیسے ہوا۔
جیلی فش بغیر دماغی فعالیت کے واقعات کے درمیان ذہنی روابط بنا سکتی ہے جیسے کسی چیز کو دیکھنا اور اس کے پاس جانا یا اس کے مطابق اپنے رویے کو تبدیل کرنا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیلی فِش کی کیریبین باکس نامی نسل کو باقی جانداروں کی طرح کچھ سیکھنے کے لیے دماغ کی ضرورت نہیں ہے، کیریبین باکس جیلی فِش دماغ نہ ہونے کے باوجود محض آنکھوں اور مخصوص خلیات کی مدد سے راستوں میں آنے والی رکاوٹوں کی شناخت اور ان سے بچنا سیکھ جاتی ہیں۔