آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی کی مدد سے فلموں اور ڈراموں کیلئے لاتعداد خوفناک کردار تخلیق کئے جارہے ہیں لیکن ماضی کا ایک کردار ایسا بھی ہے جس کی دہشت اور دبدبہ ہمیشہ سے برقرار رہے وہ ہے ڈریکولا، خون پینے والا ڈریکولا ایک حقیقی انسان سے متاثر ہوکر بنایا گیا لیکن محققین کا کہنا ہے کہ جس انسان پر یہ کردار بنایا گیا وہ خون نہیں پیتا تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ برطانوی ادیب بریم اسٹوکر نے ڈریکولا ناول تحریر کیا تھا جس میں ڈریکولا کو انسانی خون پینے والا ویمپائر دکھایا گیا تھا اور یہ کردار 15 ویں صدی میں یورپی ملک رومانیہ کے علاقے ٹرانسلوینیا کے حکمران ولاد سوم سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا جس نے اپنے دور میں 80 ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا تھا۔
نئی تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس انسان کو دیکھ کر یہ کردار بنایا گیا حقیقت میں وہ خون پینا تو دو گوشت بھی نہیں کھاتا تھا بلکہ وہ سبزی خور تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ولاد سوم کو سانس کے مسائل کا سامنا تھا اور وہ ایسے مرض کا شکار تھا جس میں متاثرین خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ولاد سوم کی آنکھوں سے ایسے آنسو نکلتے تھے جن میں خون ملا ہوتا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ خطوط پر موجود مالیکیولز میں حیوانی غذائی پروٹینز موجود نہیں تھے اور جو غذائی ذرات دریافت کیے گئے وہ نباتاتی تھے۔ ان شواہدسے عندیہ ملتا ہے کہ ڈریکولا سے منسوب کی جانے والی یہ شخصیت درحقیقت سبزیاں کھانا پسند کرتی تھی جبکہ خون پینے کےحوالے سے کہانیاں فرضی تھیں۔