BBC
پاکستان کے صوبہ خیرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے سنٹرل پولیس آفس کے تہہ خانے میں ایک کمرہ کمیروں کے ڈسپلے سے بھرا ہوا ہے جہاں 24 گھنٹے پانچ سے چھ افراد تین سو سے زائد چھوٹی چھوٹی سکرینوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ہے پشاور پولیس کا صوبے کی تاریخ کا پہلا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیمرہ سرویلینس سسٹم جو حال ہی میں نصب کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ابتدائی طور پر نگرانی کا یہ نظام فی الوقت صرف شہر کے ریڈ زون تک ہی محدود ہے جس کا دائرہ کار بعدازاں باقی علاقوں تک بھی پھیلایا جائے گا۔
جنوری 2023 میں پشاور کے سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے ریڈ زون میں واقع پشاور پولیس لائن میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے دوران خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں پولیس اہلکاروں سمیت 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد سکیورٹی اداروں پر کافی تنقید کی گئی کہ اگر شہر کے اس قدر سکیورٹی والے علاقے میں دھماکہ ہوسکتا ہے تو پھر پشاور میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہ سکتی۔
جس کے بعد حکام نے اس علاقے کی نگرانی کے لیے اسے فیشل ریکیگنشن والے کمیروں سے لیس کیا۔ لیکن یہ نظام کتنا مؤثر ہے اور یہ کام کیسے کرتا ہے؟
BBCیہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟
پولیس لائن میں دھماکے کے بعد پشاور پولیس نے ریڈ زون کے علاقے میں 365 مصنوعی ذہانت والے کیمرے نصب کیے ہیں۔
اس جدید نظام میں سٹیٹ آف دی آرٹ کیمرے اور دیگر مواصلاتی آلات نصب کیے گئے ہیں جس کے ذریعے چہروں کی شناخت، گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی خود کار شناخت(ANPR) ، گاڑیوں کے نیچے چیکنگ (UVSS)اورمداخلت کا پتہ لگانے والے کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔
ان کیمروں کی مدد سے گاڑیوں کی چیکنگ، مطلوب افراد اور مطلوب گاڑیوں کی شناخت کا خود کار نظام تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی مشکوک شخص یا گاڑی کے ریڈ زون میں داخلے پر الارم جنریٹ کیا جاتا ہے۔ جس سے تمام فیلڈ افسران کو مطلوب شخص اور گاڑی کو پکڑنے کے لیے فوری مطلع کر دیا جاتا ہے۔
اس سسٹم کو سمجھنے کے لیے میں نے کنٹرول سنٹر میں اپنی تصویر مشتبہ افراد کے سسٹم میں اپلوڈ کی تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ مصنوعی ذہانت والے کیمرے کتنے فعال ہیں۔
اس کے بعد جب میں ایک چیک پوائنٹ کی طرف گیا لیکن جیسے ہی چیک پوسٹ کے قریب نصب کیمرے نے مجھے پہچانا فورا سسسٹم میں الارم بجنا شروع ہوا اور پھر کنٹرول روم سے وائرلیس پر اطلاع دی گئی کہ جو بندہ نیلی شرٹ میں ابھی چیک پوائنٹ کی طرف بڑھ رہا ہے اس کو پکڑ لیا جائے۔ اس تمام عمل میں بمشکل سے چار منٹ بھی نہیں لگے۔
ریڈ زون میں زبردستی داخلے کو روکنے کے لیے روڈ بلاکرز، ٹائرز برسٹ اور ٹرن سٹائل گیٹ بھی نصب کیے گئے ہیں۔
سینٹرل پولیس آفس پشاور میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر ریڈ زون کی حدود میں سنٹرل جیل گیٹ پشاور سے لے کر پولیس لائنز مین گیٹ، سول سیکرٹریٹ، گورنر ہاﺅس، سپیکر ہاﺅس، چیف منسٹر ہاﺅس اور سیکرٹریٹ اور دیگر اہم عمارات شامل ہیں۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سے اگر ایک طرف فیلڈ کمانڈروں سے بیک وقت فوری رسائی ممکن ہوسکے گی تو دوسری طرف درپیش کسی بھی ایمرجنسی یا بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی آپریشنل صلاحیتیں بھی مزید بہتر ہوگی۔
BBCآئی جی پولیس اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ سسٹم کو غلط استعمال کیا جائےگااس سسٹم کو لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور کا کہنا تھا کہ پہلے لوگوں کی شناخت اور سکیورٹی خدشات کی نشاندہی کا تمام تر نحصار انسانوں پر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہمارے پاس اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی مطلب اگر کوئی بندہ مطلوب ہوتا تو مینول طریقے سے آگاہ کرتے تھے‘
’انھوں نے بتایا کہ ’سوچ بچار کے بعد یہ جدید آرٹیفشل انٹیلیجنس سسٹم لایا گیا جو کہ خود کار نظام کے تحت ریڈ زون آنے والے روزانہ ساٹھ ہزار افراد کی ایک پروفائل بنا رہا ہے کہ ایک بندہ کس کس حلیے میں اور کس گاڑی میں کتنی بار یہاں داخل ہوا اور اس کا ڈیٹا بنتا جارہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ڈیٹا میں موجود یہی چہرہ کسی مطلوب شخص کے ساتھ میل کھاتا ہے تو پولیس اس پر ایکشن لیتی ہے۔‘
آئی جی پولیس اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سسٹم کو غلط استعمال کیا جائے گا یا کوئی چیز اس سسٹم سے لیک کی جائےگی۔
اختر حیات گنڈاپور کے مطابق ’یہ سسٹم کئی لحاظ سے محفوظ نظام ہے اس میں سکیورٹی کے تین چار سٹیپ ہیں اگر کوئی بندہ لاگن ہوتا ہے اور وہ کوئی چیز سرچ کررہا ہے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ کس شخص نے اور کس ٹائم کیا سرچ کیا ہے۔‘
’یہاں کے عملے کا ایک مخصوص لاگ اِنہے اور ان کے لاگ اِن کرنے اور سسٹم استعمال کرنے کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ یہاں سے کوئی چیز لیک ہوتی ہے تو ہمیں پتا چل جائے گا کے کس نے کی ہے۔ ‘
BBC’پبلک مانیٹرنگ غیر قانونی ہے‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے کارکن اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سسٹم جن کی رسائی ایک سے زیادہ افراد کے پاس ہو تو وہاں ڈیٹا لیک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں آج تک ان کیمروں کا اور دیگر آلات جو کہ پبلک کی مانیٹرنگ کرتے ہیں یہ سب غیر قانونی ہیں۔ ابھی تک ایسا کوئی قانون نہیں بنا ہے۔ اگر کسی کی کوئی تصویر یا ڈیٹا لیک ہوجائے تو وہ کس قانون کے تحت انصاف مانگے گے اس طرح کی چیزیں آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہیں جس کے مطابق عوامی جگہوں پر پرائیویسی پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے۔‘
اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ’لوگوں نے آسان بہانہ بنایا ہوا ہے کہ باہر کے ممالک میں بھی عوامی مقامات پر کیمرے لگے ہیں وہاں پر بھی یہ غیر قانونی ہیں۔‘
اس سوال پر کہ ریڈ زون میں صرف متعلقہ لوگوں کا ہی داخلہ ہوتا ہے جن کا ڈیٹا ضروری ہے کے جواب میں اسامہ نے کہا کہ ’پاکستان کا ہر شہری ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت ہے۔ ریڈ زون میں صرف دفاتر ہی نہیں بلکہ رہائشی علاقے بھی آتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان چیزوں سے پہلے قانون بنائے تاکہ اگر کسی کا ڈیٹا غلط استعمال ہوتا ہے تو اس کو حق حاصل ہو کہ وہ انصاف حاصل کرسکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت والی ٹیکنالوجی اس وقت امریکہ، چین اور اسرائیل بنا رہے ہیں تو ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ کمپنیاں ڈیٹا آسانی سے حاصل کرسکتی ہیں ان کو کیسے روکا گیا ہے یہ جاننا ضروری ہے۔‘
’دوسرا یہ کیمرے گوری رنگت کے چہرے کو باآسانی شناخت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی اس ماحول اور رنگت کی بنا پر بنے ہیں مگر پاکستان میں چونکہ اکثر گندمی رنگ کے حامل لوگ ہیں ان کو شناخت کرنے میں پیچیدگیاں آسکتی ہے۔‘
BBCکن لوگوں کا ڈیٹا سسٹم میں اندراج کیا گیا ہے
پولیس سربراہ کے مطابق جو لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہیں یا کوئی کریمنل ریکارڈ رکھتا ہے ان کا ڈیٹا سسٹم میں اپلوڈ کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ان میں سے کچھ گرفتار ہیں تو گرفتار ہونے والے افراد کی تصاویر تو ہوتی ہیں جو گرفتار نہیں ہیں ان کی تصاویر ان کے گھر یا کسی اور ذرائع سے حاصل کرکے اپلوڈ کی گئی ہیں۔‘
آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات گنڈاپور بتاتے ہیں کہ ’اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم عوام کو تمام سرکاری دفاتر میں حفاظت سے آنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں جہاں تک پرائیویسی کی بات ہے تو یہ کیمرے عوامی مقامات پر لگے ہیں اور پبلک جگہوں کی نگرانی کرنے میں قباحت نہیں اس طرح دنیا کے کئی ممالک میں نگرانی کی جاتی ہے۔‘