Getty Images
پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایک خط میں وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اُن کی تنخواہ بڑھائی جائے، اس کی توجیح پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق صدر پاکستان کی تنخواہ ملک کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے ایک روپیہ زیادہ ہونی چاہیے۔
خط لکھے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے ایوانِ صدر کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ صدر کی خواہش نہیں ہے، بلکہ قانون یہ کہتا ہے کہ ان کی تنخواہ چیف جسٹس کی تنخواہ سے ایک روپیہ زیادہ ہو۔ جس کی بنیادی وجہ فیڈریشن میں ان کا عہدہ سب سے بڑا ہونا ہے۔‘
خیال رہے کہ صدر پاکستان کی تنخواہ ’پریذیڈنٹ سیلری، الاؤنسز اینڈ پریویلجز ایکٹ 1975 کے تحت دی جاتی ہیں جس میں 2018 میں ایک اہم ترمیم کی گئی تھی۔
اس ترمیم کے مطابق اب صدر کی تنخواہ میں اضافہ کابینہ کے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ایکٹ کے شیڈول فور میں کیا جاتا ہے اور یہ کہ صدر کی تنخواہ، چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ سے علامتی طور پر ایک روپیہ زیادہ ہو گی۔
ایوان صدر کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’گذشتہ پانچ سال کے دوران دو مرتبہ چیف جسٹس کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اُن کی تنخواہ صدر سے بڑھ گئی ہے، جو خود قانون کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔‘
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ان کی صدارتی مدت پوری ہونے میں چندہی دن باقی ہیں۔ ان کا مطالبہ پورا ہونے کی صورت میں صدر عارف علوی کو جولائی 2021 سے بقایاجات بھی ملنے کا امکان ہے۔
صدر پاکستان حالیہ چند مہینوں میں مختلف تنازعات کا شکار رہے ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں حال ہی میں ان کی وہ ٹویٹس شامل ہیں جن کے مطابق ان کے عملے نے ان سے دو ایکٹس میں ترامیم کے معاملے پر غلط بیانی سے کام لیا اور حکم عدولی کی۔
ایوان صدر کے افسر کے مطابق ’یہ وفاقی کابینہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ جب چیف جسٹس کی تنخواہ بڑھا رہے تھے تو آئین کے مطابق صدر مملکت کی تنخواہ میں اضافہ کرتے تاکہ ان کی تنخواہ عہدے کے مطابق ہوتی، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب اسی قانونی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ خط لکھا گیا ہے۔‘
ایوان صدر کے اہلکار کا یہ موقف آئینی و قانونی اعتبار سے تو درست ہے البتہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر اس مطالبے پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔
سنہ 2018 میں ہونے والی ترمیم کے بعد سابق صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں یکمشت سات لاکھ 65 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ اضافہ اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ بنیادی تنخواہ ہے، جبکہ دیگر الاؤنسز اور مراعات تنخواہ سے الگ ہیں۔ اس وقت یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ مہنگائی کے تناسب سے ہر سال صدر پاکستان کی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ بھی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی تنخواہ، دو مواقع پر چیف جسٹس کی تنخواہ میں اضافے کی بنیاد پر کیے جانے کا امکان ہے۔چیف جسٹس کی تنخواہ میں پہلا اضافہ یکم جولائی 2021 کو کیا گیا تھا، جبکہ تنخواہ میں دوسرا اضافہ رواں برس یکم جولائی کو کیا گیا تھا۔ ایوان صدر کے ایک اہلکار کے مطابق دونوں بار یہ اضافہ ’دو، دو لاکھ روپے کا ہوا تھا۔‘
اہلکار کے مطابق اس وقت صدر پاکستان کی ماہانہ تنخواہ آٹھ لاکھ 46 ہزار 550 روپے ہے جس میں وہ دو مراحل کا اضافہ چاہتے ہیں۔ یعنی جولائی 2021 سے ان کی تنخواہ دس لاکھ 24 ہزار روپے جب کہ جولائی 2023 سے ان کی تنخواہ بارہ لاکھ 29 ہزار روپے ہونی چاہیے۔
پاکستان میں پارلیمنٹرینز، صدور، وزرائے اعظم، ججز اور اعلی فوجی افسران اور بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں گاہے بگاہے اضافے کو اکثر سخت تنقید کا سامنا بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہو۔
مثلا گذشتہ سال ستمبر میں ہی ایوان بالا نے سینیٹ چیئرمین اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی مراعات میں اضافے کی منظوری دی۔ یہ بل ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا تھا جب ملک میں تقریبا چار کروڑ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے تھے جن میں گیارہ ملین کے قریب بچے بھی شامل تھے۔تب بھی ناقدین نے اس مطالبے کو ’بے حسی‘ قرار دیا تھا اور یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ اپنی مراعات میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنی تنخواہ اور مراعات سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کر دیں۔
صدر کی جانب سے تنخواہ میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایلیا زہرا نے اس مطالبے کو ’بے رحمانہ‘ قرار دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ (صدر عارف علوی) ایک ایسے وقت میں تنخواہ میں اضافے کی بات کر رہے ہیں جب ملک میں ایک بہت بڑا طبقہ محض بل ادا کرنے اور دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔‘
دوسری طرف سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ صارفین نہ صرف صدر کے تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ ملک میں بڑے عہدوں پر کام کرنے والے افسران کی بڑی تنخواہوں اور مراعات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سوشیالوجی پروفیسر اور سماجی کارکن ندا کرمانی نے صدر عارف علوی سے سوال پوچھا ہے کہ ’کیا اس کے لیے بھی اللہ سے معافی مانگیں گے؟‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایوان صدر سے آنے والے اس مطالبے سے یقینی طور پر یہی تاثر ملا ہے کہ انہیں اس ملک کی عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘
صحافی مونا عالم نے بھی صدر عارف علوی کی جانب سے لکھے گئے اس مطالبے پر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’عام شہری بجلی کے بل ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں جبکہ صدر کو دو مراحل میں اپنی تنخواہ میں اضافہ چاہیے۔‘
لیکن کئی صارفین ایسے بھی ہیں جو ان کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق دراصل ’جج صاحبان کی تنخواہوں پر تنقید ہونی چاہیے‘۔
زلفی نامی ایک ایکس اکاؤنٹ نے لکھا کہ ’صدر کا عہدہ سب سے بڑا ہے اسی لیے ان کی تنخواہ بھی سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ یہاں (صدر عارف) علوی کی مذمت کرنا ناانصافی ہے۔ اگر آپ نے مذمت ہی کرنی ہے تو سپریم کورٹ کے ججز کی کریں جنھوں نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کروایا۔‘
اسی طرح بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر صحافی، جو اپنے ادارے کی پالیسی کی وجہ سے نام ظاہرنہیں کرنا چاہتیں، کہتی ہیں کہ اس وقت پارلیمان اور سیاسی جماعتوں سے منسلک بعض سیاستدان ایسے ہیں جن کی آمدن ان کے سیاسی اخراجات سے کئی گنا کم ہے۔ ’میرے خیال میں پرویز رشید، صدر عارف علوی، مشتاق احمد اور چند دیگر سیاستدان ایسے ہیں جو مڈل یا اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں مگر بطور سیاسی لیڈر اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میں ذاتی طور پر ایسے سیاستدانوں کو بھی جانتی ہوں جنہوں نے بیرون ملک سے بچوں کو اس لیے واپس بلایا کیونکہ ان کی فیس کے لیے رقم نہیں تھی۔‘
ان کے خیال میں ’یہ حقیقت ہے کہ پارلیمان میں ایک بڑا طبقہ انتہائی امیر ہے مگر انہی میں چند ایسے نام ہیں جن کے پاس نہ تو بڑی رقم ہوتی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی سپانسر کرتا ہے۔‘
دوسری جانب صدر کی تنخواہ میں اضافے کا فیصلہ اب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔