’40 ہزار کا بل، ہمیں تو کوئی اتنا ادھار بھی نہیں دے گا‘: حکومت بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 31, 2023

BBC

’پچھلے مہینے ہمارا بجلی کا بل 19 ہزار آیا تھا تو ہم نے ادھار لے کر اسے پورا کیا تھا۔ ابھی تو ہم وہ ادھار بھی واپسنہیں کر پائے تھے کہ اس مہینے کا بل 40 ہزار روپے آ گیا۔ ہمیں تو اتنے پیسے کوئی ادھار بھی نہیں دے گا۔‘

چہرے پر پریشانی کے آثار لیے لاہور کی رہائشی آمنہ نے بجلی کے بل کے بارے میں کچھ ایسا شکوہ کیا اور شاید یہ آمنہ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں لاکھوں گھروں کی کہانی ہے۔

ان دنوں پاکستان کے طول و عرض میں بجلی کے بلوں کی صورت میں لگنے والے ’برقی جھٹکوں‘ نے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین حرام کر رکھا ہے۔

آمنہ نے اپنا بل دکھاتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے سال اگست کے مہینے میں ہمارا بل 11 ہزار آیا تھا لیکن اس بار یہی بل 40 ہزار ہے۔ میرے تین بچے ہیں جو سرکاری سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ ہمارا گھر بھی کرائے کا ہے۔ میرے شوہر اکیلے کمانے والے ہیں۔ ایسے میں ہم اتنا بل کیسے ادا کریں گے؟‘

معاشی چیلنجز میں گھرے پاکستان نے جب آئی ایم ایف کے ساتھحالیہ معاہدہ کر کے معیشت کو سہارا دیا تو پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں اور مختلف ٹیکسز کی مد میں اضافے کی صورت میں اس کی بھاری قیمت عوام کو اپنی جیب سےادا کرنا پڑ رہی ہے۔

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کےدور میں بجلی کی قیمت میں اوسط 100 گنا تک اضافہ تو ہو ہی چکا تھا اور اب نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو آتے ہی مزید بڑھا دیا ہے جس کے بعد اگست کے مہینے میں موصول ہونے والےبجلی کے بلوں نے آمنہ سمیت محدود آمدنی رکھنے والے پاکستانی عوام کےچودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔

آمنہ کے شوہر ایک کیمرہ مین ہیں اورمیڈیا انڈسٹری میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اب ان دونوں میاں بیوی کے درمیان مہنگائی سے درپیش پریشانیوں کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں ہوتی۔

’میرے شوہر میڈیا میں کیمرہ مین ہیں۔ میں تو ان سے یہی گلہ کرتی ہوں کہ آپ سب لوگوں کے احتجاج ریکارڈ کرتے ہیں لیکن ہمارا احتجاج کون ریکارڈ کرے گا۔ سارا دن وہ کام کر کے جب رات میں گھر آتے ہیں تو ہماری بات صرف یہی ہوتی ہے کہ خرچے کیسےاور کہاں سے پورے کرنے ہیں۔‘

BBC’مجھے تو کپڑوں کی سلائی کے علاوہ کوئی دوسرا کام بھی نہیں آتا‘

بجلی کے زیادہ بلوں کا مسئلہ صرف گھریلو صارفین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طبقہ اور شعبہ ہی متاثر ہو رہا ہے۔ ایسی ہی پریشانی کاشکار جاوید اقبال بھی ہیں جو پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں۔

’میرا تو تمام تر کام ہی بجلی سے منسلک ہے۔ بجلی ہو گی تو کام کروں گا اور اب تو بجلی ہو بھی،تو بل اتنا زیادہ آ رہا ہے کہ آمدن کم ہوتی ہے اور بل کہیں زیادہ۔‘

’میں اپنے کسٹمزر کو کہتا ہوں کہ سوٹ کی سلائی بڑھانی ہے کیونکہ میں مجبور ہوں تو وہ فوری کہتے ہیں ہم تو خود مجبور ہیں۔ پہلے تو ایک کسٹمر چار چار سوٹ بھی سلوا لیتا تھا لیکن اب ان کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے۔‘

جاوید اقبال کی دکان چھوٹی سی ہے جہاں وہ اکیلے ہی کام سنبھالتے ہیں۔

’یہاں میں نے ایک پنکھا لگا رکھا ہے اور ایک لائٹ وہ بھی سولر پر ہے۔ کپڑوں کی کٹائی اور انھیں استری کرنے کا کام میں گھر پر ہی کر لیتا ہوں تاکہ کمرشل یونٹ کے بجائے سستی بجلی زیادہ استعمال کروں۔ پھر بھی میرے گھر کا بل 18 ہزار روپےآیا ہے اور دکان کا پانچ ہزارروپے۔‘

’آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے باعث ریلیف نہیں دیا جا سکتا‘

ملک کے طول و عرض سے احتجاج سامنے آنے پر سنیچر کے دن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انھوں نے ’بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائے گی اور صارفین کو بجلی کے بِلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔‘

نگران وزیر اعظم کے اعلان نےلوگوں میں امید کی ایک کرن جگائی۔مگر چار دن گزرنے کے باوجود یہ وعدہ اب تکوفا نہ ہو سکا۔

حکومت کے ریلیف دینے کے اعلان کے باوجود اب تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آ سکا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور حکومت بجلی کے بلوں میںکمی سامنے لانے کے اقدامات سے آگاہ کرنے کی پوزیشن میں کب ہو گی؟

یہی سوال جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا نگران وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی سے تاہم انھوں نے اس اجلاس سے متعلق کسی بھی سوال کا جواب دینے کے بجائے وزارت توانائی سے رابطہ کرنے کا کہا۔

نگران وزیر توانائی محمد علی سے فون پر رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی تاہم وہاں سے بھی جواب نہ آیا۔

تاہم گذشتہ روز مقامی ٹی وی چینل دنیا نیوز میں اینکر کامران خان کے پروگرام میں نگران وزیر توانائی نے شرکت کی تھی جس میں اینکر کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک حکومت ریلیف کا کوئی لائحہ عمل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر وزیر اعظم ہر روز اس پر میٹنگ کر رہے ہیں اور ’پوری کوشش ہے کہ عوام پر اس کا بوجھ کم سے کم ڈالا جائے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ’مالی ریلیف تو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہیں تاہم بلوں کی ادائیگی میں جو بھی آسانی ہو سکتی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جتنا ممکن ہوا وہ کریں گے۔ ایک سے دو روز میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔‘

نگران وزیر توانائی کے مطابق ’بجلی کی قیمت کے حوالے سے فی الحال کوئی ایسا امکان نہیں ہے کہ یہ بڑھیں گی، لیکن اگر ڈالر میں تبدیلی آتی ہے اور توانائی پیدا کرنے کے ذرائع مہنگے ہوتے ہیں تو یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ ڈالر یا انٹرسٹ ریٹ میں تبدیلی آئی تو اس کی قیمت میں تبدیلی ضرور آئے گی۔‘

ان کے مطابق ’بجلی کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ ماضی کے کئی فیصلے ہیں دوسرا روپے کی قدر میں کمی اور تیسری وجہ ٹیکسز کے باعثبجلی مہنگی ہونا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہم جتنا دے سکیں عوام کو جلد از جلد ریلیف دیں۔‘

Getty Images ’نگراں حکومت کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا مشکل ہے‘

بدھ کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں نگران وزیر خزانہڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال ان کے اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے اور فی الحال مالی گنجائش نہ ہونے کے باعث حکومت کسی قسم کی سبسڈی نہیں دے سکتی۔

کمیٹی ممبران کی جانب سے ملک کی معاشی صورت حال اور بجلی کے نرخوں پر تشویش کے اظہار کے جواب میں شمشاد اختر نے بتایا کہ ’تیل کے لیے پاکستان دنیا پر انحصار کرتا ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس’فسکل سپیس‘ (گنجائش) نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔‘

تو نگرانوزیر اعظم کے اعلان کے باوجود اب تک حکومت کوئی بھی اعلان کیوں نہیں کر پائی؟

معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانانے بی بی سی کے سوال کے جواب میں کہا کہ لگتا ہے کہپاکستان کی نگران حکومت کا بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ غالباً جلد بازی میں کیا گیا ہے۔

’زمینی حقائق کے مطابق پاکستان کا جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے اس کے مطابقحکومت کے پاس مالی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف دے پائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ جب یہ معاملہ کابینہ کے پاس گیا تو وہاں بھی فیصلہ نہیں ہوا اور معاملہ آئی ایم ایف کو بھیج دیا۔ تو پاکستان یہ معاملہ آئی ایم ایف کے سامنے اٹھا چکا ہے اور کسی بھی قسم کی ریلیف جس میں بلوں کا کم ہونا یا بجلی کی قیمتوں کا کم ہونا ہے شاید وہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘

شہباز رانا کے مطابق ’ایک صورت جو نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اگست کے بلفوری طور پر وصول کرنے کے بجائے اس کی اقساط کر دی جائیں۔ لیکن وہ بھی آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط ہو گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے پاس بہت زیادہ راستے نہیں ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نگران حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی پاسداری کرے گی اور کسی بھی قسم کی سبسیڈیز نہیں دے گی۔‘

شہباز رانا کے مطابق یہ ایک انتہائی مشکل صورت حال ہے ایک طرف آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے جس میں رہنا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے تو دوسری طرف عوام کی مجبوریاں اپنی جگہ ہیں۔ ایسے میں جب مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اوربے روزگاری اور غربت دو سالوں میں کہیں بڑھ گئی ہے تو نگران حکومت ان تکالیف کا اندازہ کرتے ہوئے بھی ان حالات میں کچھ کر نہیں سکتی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب حکومت کے پاس ایک ہی چوائس ہے کہ ڈالر کی سمگلنگ یا ڈالر کی ذحیرہ اندوزی کو روکنے کے اقدامات کرے۔

’ڈالر کی قیمت میں استحکام طویل مدت میں ہی قابو آ سکتا ہے جو برآمدات اور ترسیلات زر بڑھا کر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔فوری طور پر حکومت کے لیے کچھ بھی کرنا مشکل ہے۔ ‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More