سمیع چوہدری کا کالم: ’اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا کیا قصور؟‘

بی بی سی اردو  |  Aug 31, 2023

Getty Images

قدیم ادب میں جہاں جہاں بھی ملتان کے کچھ خواص بیان کئے گئے ہیں، سبھی میں ’گرمی‘ قدرِ مشترک ہے۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں بھی اگرچہ میدان کے اندر کا کھیل گرم جذبات سے تشنہ ہی رہا مگر ملتان کی گرمی نے بہرحال اپنا رنگ ضرور جمایا۔

قسمت کی خوبی تھی یا پاکستانی پیسرز کی دعائیں کہ ٹاس ان کے حصے آیا اور وہ حبس آلود تمازت میں لمبے سپیل پھینکنے کی مشقت سے آزاد رہے۔ اور پھر بعد ازاں نیپالی بیٹنگ جیسے پاکستانی اٹیک کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئی، بھلا ہی ہوا کہ ٹاس نیپال نہیں جیتا ورنہ ایشیا کپ کا افتتاحی میچ تین گھنٹے میں ہی نمٹ جاتا۔

نیپال کے بولنگ اٹیک کی جانب سے پھینکی گئی تیز ترین گیند کی رفتار 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ تھی۔ اور یہ رفتار شاید ہی کسی پاکستانی پیسر کی سست ترین گیند کی بھی رہی ہو۔ جب معیار میں اس قدر تفاوت ہو تو نتائج کا انتہائی یکطرفہ ہو رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

نیپال کو ون ڈے انٹرنیشنل سٹیٹس ملے فقط پانچ ہی برس ہوئے ہیں اور اس قدر کم وقت میں ایشیا کپ جیسے ایونٹ تک رسائی حاصل کر پانا بھی نیپالی کرکٹ کے لیے کسی کامیابی سے کم نہیں مگر اس پہ مستزاد کہ میچ کے پہلے 20 اوورز میں نیپالی ٹیم کا ارتکاز جیسے کھیل پہ طاری ہوا، اس نے پاکستان کے اوسان خطا کر چھوڑے۔

فخر زمان اس ارتکاز کا پہلا شکار ٹھہرے اور پھر اگلے درجن بھر اوورز پاکستانی اننگز اوپر تلے ایسی ڈگمگائی کہ ملتان کے کراؤڈ کو بھی سانپ سونگھ گیا اور پاکستانی شائقین ورطۂ حیرت میں جا ڈوبے۔ کیونکہ اس میچ سے پہلے تک تو اکثر یہ بھی نہ جانتے تھے کہ نیپال کی کوئی کرکٹ ٹیم بھی ہے، کجا یہ کہ پاکستانی شاہین نیپالی رائنوز کے دبدبے میں خاموش سے ہو رہیں۔

مگر پھر ملتان کی گرمی تھی جو اچھے بھلے حواس کو بھی مخبوط کر ڈالے اور اس سے بھی سوا تھا۔ بابر اعظم کا ارتکاز، جسے بالآخر نیپالی بولنگ اٹیک کی مجموعی دانش پہ بھاری پڑنا ہی تھا۔ آمدہ کرکٹ کیلنڈر کے اہم ترین مرحلے کا آغاز بابر نے جس دھیان اور عزم سے کیا ہے، وہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔

Getty Images

لیکن نیپالی بولنگ نے پہلے 20 اوورز میں ہی یہ ضرور دکھلا دیا کہ یہاں تک پہنچنے کو وہ کیسی تگ و دو سے گزرے ہیں۔ اور اگر نیپالی کرکٹ اسی ڈگر پہ گامزن رہی تو اگلے ون ڈے ورلڈ کپ میں نمائندگی کا خواب بھی غیر حقیقت پسندانہ ہرگز نہ ہو گا۔

اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا بھی بھلا کیا قصور کہ اس کے مقابل جو پیس اٹیک تھا، یہ تو کسی تگڑی سے تگڑی ٹیم کے بھی طوطے اڑا سکتا ہے تو وہ نوآموز بھلے وہاں کر ہی کیا پاتے۔ پہلے ہی اوورز میں وکٹ اڑانا شاہین آفریدی کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ نسیم شاہ کے سپیل کی اٹھان دن بدن تیز تر ہوئی جاتی ہے اور حارث رؤف کی پیس تو کسی جغادری کے بھی قدم متزلزل کر سکتی ہے۔

بہرحال نیپالی بیٹنگ کے انہدام میں پاکستانی پیس نے جو کردار نبھایا، اس کا اجر یہ بھی ہوا کہ ملتان کی حبس آلود تمازت میں پیسرز کو اپنا کوٹہ پورا کرنے کی اذیت سے رہائی مل گئی کیونکہ اگلے دو ماہ کے شیڈول میں پاکستانی کیمپ اپنے پیسرز کی فٹنس میں کسی کسر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اور جو ابتدائی جھٹکا پاکستانی بیٹنگ کو ٹورنامنٹ کے پہلے ہی بیس اوورز میں سہنا پڑا، وہ نہ صرف ٹاپ آرڈر کے لیے چشم کشا ثابت ہوا بلکہ اسی کی بدولت افتخار احمد کو بھی ایک لمبی اننگز کھیلنے کا موقع ملا اور بابر کے ہمراہ ان کی پارٹنرشپ کے طفیل ہی پاکستان تین سو کا ہندسہ عبور کر پایا ورنہ جب وہ کریز پر آئے تب کواکب یکسر کسی بڑے مجموعے کے نظر نہ آتے تھے۔

کرکٹ کیلنڈر کے اس اہم ترین مرحلے پہ افتخار احمد کے لیے ایسی اننگز کا تجربہ ورلڈ کپ کی تیاریوں میں ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے اور میگا ایونٹ کے دقیق مراحل پہ ایسی متنوع اننگز کھیلنے والے بلے باز کی دستیابی غنیمت سے کم نہ ہو گی۔

نیپالی کپتان روہت کے لیے بھی یہ میچ ایک اچھا سبق ثابت ہو گا کہ اگر انھیں مسابقتی سطح کی کرکٹ میں آگے بڑھنا ہے تو ان تمام غلطیوں سے احتراز برتنا ہو گا جن کی قیمت اس شکست کی ضخامت سے عیاں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More