چار دہائیوں سے انڈیا میں مقیم پاکستانی نژاد خاتون انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو تقریباً 30 سال سے راکھی باندھ رہی ہیں۔
راکھی کے تہوار میں روایتی طور پر بہنیں اپنے بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں اور بھائی ان کی تاعمر حفاظت کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
قمر محسن شیخ کے مطابق ان کا مودی کے ساتھ بہن بھائی کے طور پر قربت کا آغاز سنہ 1995 میں گجرات کے گورنر سوروپ سنگھ کی الوداعی تقریب میں ہوا تھا۔
احمد آباد میں ہونے والی اس تقریب میں نریندر مودی بھی موجود تھے، جو اس وقت آر ایس ایس کے ایک معمولی کارکن تھے۔
قمر بتاتی ہیں کہ ’گورنر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انھیں (مودی) جانتی ہوں۔ میں نے کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں۔‘
قمر کے شوہر ایک مصور ہیں اور ان کی نمائشوں کا افتتاح انڈیا کی کئی معروف شخصیات نے کیا ہے، جن میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی، آئی کے گجرال، لال کرشن ایڈوانی اور خشونت سنگھ بھی شامل ہیں۔
قمر بتاتی ہیں کہ وہ ان نمائیشوں میں اس سے پہلے بھی وزیراعظم مودی سے مل چکی تھیں۔
گورنر نے مودی سے مخاطب ہو کر مزید کہا کہ ’یہ میری بیٹی ہیں۔ میں اب یہاں سے جا رہا ہوں اور میں انھیں اب آپ کے حوالے کر کے جا رہا ہوں‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’نریندر بھائی نے کہا کہ یہ اگر آپ کی بیٹی ہیں تو یہ آج سے میری بہن ہیں۔‘
قمر تب سے ہر سال مودی کو راکھی باندھتی ہیں، یہاں تک کہ کووڈ کے دوران جب آمدورفت مشکل تھی تو وہ ڈاک کے ذریعے وزیراعظم مودی کو راکھی بھیجتی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ جب وزیراعظم مودی نے پہلی بار انھیں بہن بولا تب یہ ان کے دل کو چھو گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اُنھوں نے پوچھا، کیسی ہیں بہن؟ یہ سن کر میں بہت خوش ہوئی۔‘
مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ایک بار قمر نے راکھی باندھتے ہوئے مودی سے کہا کہ وہ دعا کرتی ہیں کہ وہ گجرات کے وزیراعلیٰ بن جائیں۔
وہ کہتی ہیں ’وہ ہنسنے لگے اور کہا کہ میں سنگھ (آر ایس ایس) کا کام کر رہا ہوں، یہی بہت ہے میرے لیے، یہی کروں گا میں۔‘
جب مودی وزیر اعلیٰ بن گئے تو قمر کی ان سے دہلی میں ملاقات ہوئی اور انھوں نے راکھی باندھنے کے دوران کہا کہ ’اب میں دعا کر رہی ہوں کی آپ انڈیا کے وزر اعظم بنیں۔ وو زور سے ہنسنے لگے۔‘
وہ کہتی ہیں مودی کے لیے ان کی تمام دعائیں قبول ہوئی ہیں۔
وہ انڈیا کیسے آئیں؟
قمر بتاتی ہیں کہ تقسیم ہندوستان کے وقت ان کی والدہ احمد آباد میں بہت سے رشتہ داروں کو چھوڑ کر پاکستان چلی گئی تھیں۔
جب قمر کی پڑھائی مکمل ہو گئی تو انھوں نے ان کی شادی طے کر دی لیکن شادی سے پہلے انھوں نے قمر سے کہا کہ وہ برسوں سے اپنے بہن بھائیوں سے نہیں ملی ہیں۔
’میں چاہتی ہو کہ تمھاری شادی ہونے سے پہلے تمھیں سب سے ایک بار ملا دوں‘۔
انڈیا میں قمر اور ان کی والدہ نے ان رشتہ داروں سے ملاقات کی جن سے وہ برسوں سے نہیں ملی تھیں۔
قمر بتاتی ہیں کہ ’ہم یہاں ملنے آئے تو ماموں نے کہا کی آپ نے اُدھر بہت رہ لیا، اب آپ یہیں رہو اور بیٹی کی شادی بھی یہیں کرو۔‘
آخر کار قمر کے ماموں اور دیگر رشتہ داروں نے ان کی والدہ کو ان کے لیے انڈیا میں دولہا تلاش کرنے پر راضی کر لیا۔
’یہیں پر لڑکا دیکھا اور پھر میری شادی ہو گئی اور تب سے میں یہیں رہ رہی ہوں‘۔
’اسے سیاسی طور پر نہ دیکھیں‘
انسانی حقوق پر کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں وزیر اعظم نریندر مودی پر مسلم مخالف ہونے کا الزام عائد کرتی ہیں۔
ان میں سے اہم گجرات، جہاں قمر قیام پذیر ہیں، میں مودی کے دور حکومت میں سنہ 2002 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات ہیں، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور جن کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
لیکن قمر مسلمانوں کے ساتھ مودی کے تعلقات کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’پہلی بات تو یہ کہ آپ سیاسی سوال کر رہے ہیں جو کہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ میرا اور ان کا رشتہ ایک ذاتی رشتہ ہے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگ ان پر مسلم مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن یہ تنازع پیدا کرنے کی خاطر کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ہمیں مثبت سوچ رکھنی چاہیے۔ ’اگر ہم ہر چیز کو مثبت دیکھتے ہیں تو وو زیادہ اچھا رہتا ہے۔ سیاسی طور پر نہیں دیکھتے، میں اس سب میں نہیں پڑتی ہوں‘۔