Getty Images
توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سزا کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ان کی سزا معطل کر دی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے منگل کے دن اس کیس کا مختصر فیصلہ سنایا اور سابق وزیر اعظم کو ضمانت رہا کرنے کا حکم بھی دیا۔ عدالت نے آگاہ کیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملنے والے اس ریلیف کے باوجود یہ واضح نہیں کہ آیا 22 دن سے اٹک جیل میں قید چیئرمین عمران خان اس فیصلے کے نتیجے میں فوری طور پر رہا ہو سکیں گے یا نہیں۔
یہ فیصلہ آنے سے کچھ دیر قبل عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی اور کیس میں گرفتار نہ کرنے کی درخواست بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے پانچ اگست کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد پنجاب پولیس نے سابق وزیر اعظم کو صوبائی دارالحکومت لاہور کی زمان پارک میں واقع ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرنے کے بعد اٹک جیل منتقل کر دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو درپیش قانونی چیلنجز ابھی بھی موجود ہیں کیوںکہ متعدد مقدمات میں ان کی ضمانت پہلی ہی خارج ہو چکی ہے۔
تحریک انصاف کو عمران خان کی پھر سے گرفتاری کا خدشہ
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل پارٹی رہنما رؤف حسن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’عدلیہ کے لیے چیلنج صرف یہ نہیں کہ وہ غلط سزا کو معطل کریں بلکہ انھیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ عمران خان کو 180 سے زیادہ مقدمات میں دوبارہ گرفتار نہ کر لیا جائے۔‘
بظاہر تحریک انصاف کو بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ عمران خان کسی اور مقدمے میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔
ان میں سے ایک اہم مقدمہ سائفر کی گمشدگی کا ہے جس میں اب تک کی کارروائی میں چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں ان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہے اور ایف آئی اے انھیں شامل تفتیش کرتے ہوئے ان کی گرفتاری بھی ڈال چکی ہے۔
ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم دو بار عمران خان سے اٹک جیل میں سائفر کیس میں تفتیش بھی کر چکی ہے۔
اسی مقدمے میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی گرفتار ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اسد عمر ضمانت لے چکے ہیں۔
اس کے علاوہ لاہور کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ پر درج ایک مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو عمران خان کی گرفتار کرنے اور تفتیش کرنے کی منطوری بھی دی ہوئی ہے۔
ان کے علاوہ دیگر کئی کیسز میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر منسوخ ہو چکی ہے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت اسلام آباد نے 190ملین پاؤنڈ سکینڈل میں ان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کی تھی۔
تحریک انصاف کا قانونی موقف کیا ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی بھی کیس میں گرفتاری سے روکنے کی درخواست دائر کر دی جس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے، نیب اور پولیس کو گرفتاری سے روکا جائے۔
منگل کے دن چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل سلمان صفدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ضمانتیں خارج ہونے سے متعلق درخواست دائر کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی قانون نہیں کہ ایک بار ضمانت خارج ہونے کے بعد دوبارہ درخواست دائر نہیں ہو سکتی۔‘
سلمان صفدر نے کہا کہ’اگر عمران خان کو ضمانت مل گئی اور ان کی درخواستوں پر نوٹسز ہو گئے تو دوبارہ گرفتاری نہیں ہو سکے گی۔‘
سلمان صفدر کے مطابق انھوں نے ہائیکورٹ کے سامنے یہ نکات اٹھائے ہیں کہ ضمانت تکنیکی بنیادوں پر خارج نہیں ہو سکتی۔
BBCسلمان صفدر: ’اگر عمران خان کو ضمانت مل گئی اور ان کی درخواستوں پر نوٹسز ہو گئے تو دوبارہ گرفتاری نہیں ہو سکے گی‘
’جج صاحب کو صرف چیئرمین تحریک انصاف کا پروڈکشن آرڈر کرنا تھا، عدالتی حکم پر چیئرمین تحریک انصاف کو پیش کیا جاتا اور درخواستوں کا فیصلہ میرٹ پر ہو جاتا۔‘
سلمان صفدر نے کہا کہ ’اگر سپریم کورٹ نے کوئٹہ وکیل قتل کیس کی ضمانت میں توسیع کی اور القادر کیس میں ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا تو کیا نچلی عدالتیں اس فیصلے کو ماننے کی پابند نہیں تھی؟‘
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سزا معطلی کے باوجود عمران خان کا جیل سے باہر آنا بظاہر مشکل ہے کیونکہ ایف آئی اے نے اٹک جیل میں ان کی گرفتاری ڈال کر انھیں شامل تفتیش کر رکھا ہے۔‘
شاہ خاور کہتے ہیں کہ ’اگر توشہ خانہ کیس میں ان کی رہائی عمل میں آتی ہے تو اس کے باوجود وہ دوسرے مقدمات میں گرفتار رہیں گے۔‘
ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا عمران خان اٹک جیل میں ہی قید رہیں گے یا انھیں دوسرے ٹرائلز کے دوران کسی اور جیل میں منتقل کیا جائے گا۔
اس پر قانونی ماہر شاہ خاور نے بتایا کہ اس کا فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا کہ آیا عمران خان کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اٹک جیل میں ہی قید رکھا جائے گا یا کسی دوسری جیل منتقل کیا جائے گا۔
Reuters
انھوں نے کہا کہ ایک سزا یافتہ شخص کو کسی بھی جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
’سزا معطلی کی صورت میں چونکہ ایف آئی اے کا کیس اسلام آباد میں درج ہے لہذا انھیں راولپنڈی کے اڈیالہ جیل لایا جاسکتا ہے یا دوسری صورت میں ان کا جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘
شاہ خاور نے بتایا کہ ’اس بات کے بھی امکان موجود ہیں کہ سائفر کیس میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کا جیل ٹرائل اٹک جیل میں ہی کیا جائے۔‘
تاہم سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن شعیب شاہین کی رائے میں سزا معطلی کی صورت میں عمران خان کو رہا ہونا چاہیے۔
انھوں نے ایک حالیہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’عمران خان توشہ خانہ کیس کی وجہ سے جیل گئے اور باقی کیسز میں عدم پیروی کی بنیاد پر ان کی ضمانتیں خارج ہوئیں۔‘
’اصولی طور پر جب اس کیس میں رہائی ملتی ہے تو انھیں وقت دیا جائے گا کہ دوسرے کیسز میں بھی اپنی ضمانت کروا لیں۔ مگر اس ملک میں حکومت کیا کرتی ہے، ہمیں اگلے لمحے کا نہیں پتا ہوتا۔‘
دوسری طرف سابق معاون خصوصی برائے قانون عطا اللہ تارڑکہہ چکے ہیں کہ عمران خان توشہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود رہا ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’سائفر کیس میں ایف آئی آر بعد میں ہوئی جبکہ عمران خان کے وکلا نے ان کی ہدایت پر انھی دنوں میں ضمانت کی درخواست دائر کی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اس کیس میں 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔