’مجھے بلائنڈ کرکٹ میں دنیا کا بہترین بالر مانا جاتا ہے۔ میرے والد دیہاڑی دار مزدور ہیں اور میرا بھی اصل پیشہ دیہاڑی دار مزدوری کا ہے۔ مجھے کسی بھی مستری کے ساتھ کام کرنے پر یومیہ 1200 روپے ملتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے سٹار بالر 25 سالہ شاہزیب حیدر کا جن کا تعلق ضلع راولپنڈی کے علاقے گوجر خان سے ہے۔
پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم اس وقت برطانیہ میں جاری انٹرنیشنل بلائنڈ سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ابسا ورلڈ گیمز 2023 کے فائنل میں موجود ہے۔
اپنے گروپ میں ناقابل شکست رہنے کے بعد آج (26 اگست کو) ہونے والے فائنل میں پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کا سامنا اپنے روایتی حریف انڈیا سے ہونے جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کو سات وکٹوں سے شکست دیکر فائنل کے لیےکوالیفائی کیا ہے جبکہ گذشتہ ہفتےورلڈ گیمز کے راؤنڈ میچز کے دوران پاکستان انڈیا کو 18 رنز سے شکست دے چکا ہے۔
فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے بلائنڈ عالمی کپ کے تمام پانچ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ٹیم دو مرتبہ عالمی چمپیئن بھی رہ چکی ہے اور یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا۔
ایک شاہزیب حیدر ہی نہیں بلکہ ان سمیت پاکستان بلائینڈ کرکٹ ٹیم میں موجود دیگر کھلاڑی بھی زندگی میں مختلف چیلینجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کی جیت کے لیے بلند حوصلوں کے ساتھبرمنگھم کے میدان میں موجود ہیں۔
بی بی سی نے بینائی سے محرومی کے باوجود عزم و ہمت سے لیس ان کھلاڑیوں سے بات چیت کی ہے۔
’میرے سر پر تو کھیل ہی سوار رہتا تھا‘
شاہزیب حیدر پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بالر ہیں۔ برطانیہ میں منعقدہ گروپ کے آخری اور کانٹے کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا سہرا شاہزیب حیدر کو جاتا ہے جس میں چار وکٹیں حاصل کر کے وہ گروپ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔
تاہم پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں اس مقام پر پہنچنے والے شاہ زیب کو ذاتی زندگی میں ان گنت چیلینجز کا سامنا ہے جس کا مقابلہ وہ مسلسل ہمت و حوصلے سے کرنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔
’میں دنیا کے سات ممالک میں کھیل چکا ہوں۔ سینٹرل کنڈیکٹ بھی موجود ہے جن کے پہلے 15 ہزار اور اب 20 ہزار روپے ماہوار ملتے ہیں۔ مگر ابھی تک گھر کے حالات نہیں بدلے۔ کوئی رشتہ بھی ساتھ نہیں دیتا بلکہ الٹا وہ کہتے ہیں بلائنڈ کرکٹ کا عالمی سٹار ہونے کا کیا فائدہ؟‘
شاہزیب حیدر بتاتے ہیں کہ انھیں بچپن ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں انھیں المکتوب سکول اسلام آباد میں داخل کروا دیا گیا تھا۔
’میری توجہ پڑھائی سے زیادہ کھیل پر ہوتی تھی جس بنا پر مجھے ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ مگر میرے سر پر تو کھیل ہی سوار رہتا تھا۔ سکول ہی کے زمانے میں کرکٹ کا سٹار بن گیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سکول ہی میں وہ مقامی زون ٹیم کی نظروں میں آ گئے جس وجہ سے ڈومیسٹک کھیلی اور وہاں کارگردگی کی بنیاد پر پاکستان کی قومی ٹیم میں منتخب ہوئے۔ مگر اب 20 ہزار ماہانہ سے تو گھر نہیں چلتا۔
’جب سمجھ بوجھ آئی تو دیکھا کہ میں سٹار کھلاڑی تو ہوں مگر میری تعلیم صرف میٹرک ہے اس وقت آگے پڑھنا چاہا مگر کیونکہ والد صاحب دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں اور گھر کے اخراجات تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، میں نے مزید تعلیم کا خیال چھوڑ کر ان کے ساتھ دیہاڑی پر مزدوری کرنا شروع کر دی۔‘
’جب میچ یا کیمپ نہیں ہوتا اور کسی دوسرے شہر یا ملک میں سفر نہیں کرنا ہوتا تو جہاں پر والد صاحب دیہاڑی لگا رہے ہوتے ہیں وہاں پر میں بھی مزدوری کرتا ہوں۔ اس دوران کوشش کرتا ہوں کہ والد صاحب کو کچھ آرام دینے کے لیے ان کے حصے کا زیادہ کام بھی میں کروں۔‘
’بینائی جانے کا دھچکہ ایسا تھا جس سے نکلنا آسان نہیں رہا‘
پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں کھیلنے والے 35 سالہ ریاست خان بھی سٹار آل راونڈر ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے ہے۔ان کو 2017 کے ورلڈ کپ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔
ریاست خان کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اپنی بینائی کھو دی تھی تو اس کے بعد دو سال تک انتہائی کرب انگیز زندگی گزاری تھی۔ یہ تو بھلا ہو میری اپنی بلائنڈ کمیونٹی کا جس نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔‘
ریاست خان کہتے ہیں کہ ان کی بینائی تقریبا 17 سال کی عمر میں چلی گئی تھی۔
’اس وقت ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں نے الرجی کے لیے ایک دوائی لی تھی۔ اس نے ری ایکشن کیا جس کے فورا بعد مناسب علاج نہ ملا، وقت ضائع ہوا تو میری بینائی چند ہی دنوں میں چلی گئی تھی۔‘
ریاست نے بتایا کہ ان کے والد ایک ڈرائیور تھے۔ بینائی کا چلے جانا نہ صرف ان لیے بلکہ گھر والوں کے لیے بھی ایسا دھچکہ تھا جس سے نکلنا آسان نہیں رہا۔
’میرے لیے ایک ایسا حادثہ تھا کہ میں اپنی زندگی ہی سے مایوس ہوگیا تھا۔۔۔ دو سال میرے ایسے گزرے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ میرے والدین، خاندان والے بھی مایوس ہوچکے تھے۔‘
ریاست خان کہتے ہیں کہ ان کی اس حالت پر عزیر و اقارب کے رویے مایوس کن تھے۔ پھر انھوں نے اپنی زندگی بلدنے کی ٹھان لی۔ جب ان کے علاقے میں غیر سرکاری ادارے جائیکا کی ٹیم آئی۔ تو وہاں انھوں نے سپیشل لوگوں کو میسر سہولیات کے بارے میں جانا۔
’میں نے ایبٹ اباد میں موجود نابینا کمیونٹی میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا۔۔۔ (پتا چلا کہ) یہ لوگ کام کاج بھی کرتے ہیں اور حالات کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ حتی کہ موبائل اور کمپیوٹر بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
ریاست خان کا کہنا تھا کہ انھیں بچپن سے سپورٹس سے خصوصی لگاؤ تھا۔ ’میں نے اپنے زون کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ بھول گیا کہ میں کبھی دیکھ بھی سکتا تھا۔‘
ان کا پہلا ڈومیسٹک میچ پاکستان کے زیر انتظامکشمیر میں ہوا۔ یہاں اچھی کارکردگی پر انھیں وہ ٹیم کے لیے سلیکیٹ ہوئے۔ ’2016 میں دورۂ بنگلہ دیش کے دوران دھواں دھار 60 رنز بھی سکور کیے۔ اس کے بعد 2017 کا ورلڈ کپ یادگار رہا۔‘
’نارمل بچے مجھے اپنے ساتھ نہیں کھلاتے تھے‘
دوسری جانب پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان نثار علی کہتے ہیں کہ انھیں عام کرکٹ کے کھلاڑیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
نثارعلیکے والد استاد تھے۔ ان کی تعلیم عام سکولوں میں ہوئی اور انھیں اپنے والد کی وجہ سے ان مشکلات کا سامنا نہیں ہوا جس سے ان جیسے دیگر لوگ گزرے۔
’کھیل کا شوق تھا مگر مواقع کم تھے۔ نارمل بچے مجھے اپنے ساتھ نہیں کھلاتے تھے مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح کھیل ہی گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارگردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم میں منتخب ہوا اور اب کپتان ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلائنڈ کرکٹ کے لیے بڑی مشکلات ہیں۔ اس کے لیے خصوصی گراونڈ چاہیے۔ ’ہمیں سہولتیں بہت کم میسر ہوتی ہیں اس کے باوجود ہماری ٹیم ابھی دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔‘
تاہم نثار علی کہتے ہیں کہ ہر کوئی ریاست خان اور سید سلطان شاہ کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا اور نہ ہی سب کے والدین ان کے والدین جیسے ہوتے ہیں جو بچپن میں ہر طرح کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم بھی دلائیں جومستقبل میں اچھی ملازمت کا سبب بن سکے۔
’اب میں ایک استاد کے فرائض بھی ادا کرتا ہوں۔ ہماری ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی شاہزیب حیدر کی طرح معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔‘
سید سلطان شاہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین کے علاوہ عالمی بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔وہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے پہلے اور بانی کپتان ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے انڈیا میں منعقدہ پہلا عالمی بلائنڈ کرکٹ ٹورنامنٹ 1999 کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
سید سلطان شاہ بتاتے ہیں کہ ان کی بینائی جانا بھی ان کے والدین کے لیے ناقابل قبول تھا۔ ’کافی عرصے تک تو مجھے عام سکول میں بھیجا جاتا رہا۔۔۔ ہمارے رشتہ دار، براداری کے لوگ مختلف طعنے دیتے تھے۔ اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا کہ پتا نہیں کیا غلطی سرزد ہوئی ہے کہ ایسا ہوا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جب والدین نے انھیں بلائنڈ سکول میں داخل کروایا تو ان کی زندگی بدلنا شروع ہوگئی۔ ’میں کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔‘ یہ دیکھ کر ان کے والدین کو بھی کچھ حوصلہ ملا۔
تعلیم کے دوران انھوں نے بانس سے کرسیاں بنانا بھی سیکھ لیا تھا۔
جب شارجہ کپ میں جاوید میانداد کا چھکا چھا چکا تھا تو اسی دوران انھوں نے بلائنڈ ٹیم اور کونسل بنانے میں مدد کی اور وہ ٹیم کے پہلے کپتان بھی بن گئے۔
کھلاڑیوں کو درپیش مشکلات کے باوجود میرٹ برقرار
ریاست خان اب ایبٹ آباد سپورٹس بورڈ میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اب میں اپنے ضرورت مند خاندان والوں کی مدد بھی کرتا ہوں۔ ایسا صرف کرکٹ کی بدولت ہوا ہے۔‘
بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتاننثارعلی کہتے ہیں کہ ’ہم غیر ملکی دوروں پر دیگر ممالک کے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں۔
’ان کو ان کی حکومتیں بہت زیادہ مراعات دیتی ہیں اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔جبکہ ہمارے یہاں اکثر کھلاڑیوں کے پاس کوئی مناسب ملازمت بھی نہیں ہوتی۔‘
دوسری جانب سید سلطان شاہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے علاوہ کبھی کسی حکومت نے ہماری مدد نہیں کی ہے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کی 2006 میں پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کی مداخلت پر کرکٹ بورڈ کاآئین تبدیل ہوا اور پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ اس سے انھیں گرانٹ ملنا شروع ہوئی۔
سید سلطان شاہ کے مطابق اب تک پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے دیگر ممالک کے ساتھ 17 دو طرفہ سیزیز کھیلی ہیں جن میں سے 15 میں پاکستان فاتح رہا ہے۔
’طویل عرصہ سے ہم بلائنڈ کرکٹ کی نمبر ون عالمی ٹیم ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولتیں نہیں ہیں جو یورپیاور دیگر ٹیموں کے پاس ہیں۔ ہمارے چند کھلاڑیوں کے علاوہ اکثریت کے پاس ملازمتیں بھی نہیں ہیں۔ اکثریت مسائل کے شکار ہیں مگر جو چیز ہمیں کامیاب کرتی ہے وہ ہے میرٹ۔
’ہم نے کبھی بھی میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔‘
سید سلطان شاہ ملک میں بلائنڈ کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جو کھلاڑی گراؤنڈ پر فارمنس دیتے ہیں (صرف) ان کو شریک کیا جاتا ہے۔‘
’ہمارے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی پتا ہے کہ ڈومیسٹک میں پرفارمنس نہیں دیں گے تو وہ قومی ٹیم میں منتخب نہیں ہوں گے، اس لیے وہ بھی اپنے آپ کو فارم میں رکھنے کے لیے فٹ رہتے ہیں۔‘
سلطان شاہ کے مطابق بلائنڈ کرکٹ کی قومی ٹیم کے تقریباً تمام ہی کھلاڑیپسماندہ علاقوں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
’یہاں پر ہر ایک کھلاڑی کی محنت اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ ہر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کا ہیرو ہوتا ہے۔ قومی ٹیم میں شامل ہونے والا کھلاڑی جب ٹیم میں شامل ہوتا ہے تو اس وقت وہ جسمانی، ذہنی اور صلاحیتوں کے حوالے سے اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ وہ بڑی بڑی ٹیموں کا مقابلہ آسانی سے کرتا ہے۔‘