’مسلم بچے کو مارو‘ مظفر نگر میں سکول کی ویڈیو پر ٹیچر کی گرفتاری کا مطالبہ

بی بی سی اردو  |  Aug 26, 2023

Getty Images

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں ایک سکول ٹیچر کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ کلاس کے دوسرے طلبہ کو مبینہ طور پر ایک مسلم بچے کو تھپڑ لگانے کا کہہ رہی ہیں۔

مظفر نگر کے ضلع مجسٹریٹ اروند ملاپا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کی تصدیق کی جا رہی ہے اور اگر یہ ویڈیو سچ ثابت ہوئی تو قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔

وائرل ویڈیو میں مسلم طالب علم کھڑا نظر آ رہا ہے اور کلاس کے دیگر طلبہ ایک ایک کر کے اس کے منھ پر تھپڑ مار رہے ہیں۔

اس میں استانی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ 'یہ محمڈن بچے (مسلم بچے) ہیں، ان کی ماں باہر چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی خراب ہو جاتی ہے۔'

اس ویڈیو کے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ٹیچر کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

کانگریس رہنما راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر لکھا: 'معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب کا زہر بونا، سکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا - ایک استاد ملک کے لیے اس سے بڑا کچھ نہیں کر سکتا۔

'یہ بی جے پی کا پھیلایا وہی مٹی کا تیل ہے جس نے انڈیا کے کونے کونے میں آگ لگا دی ہے۔ بچے انڈیا کا مستقبل ہیں – ان کو نفرت نہیں کرتے، ہم سب کو مل کر محبت سکھانی ہے۔'

ویڈیو میں کیا ہے؟

اس ویڈیو میں ایک استانی کرسی پر بیٹھی ہیں جبکہ بچے سکول کے یونیفارم میں زمین پر بیٹھے ہیں۔ ایک مرد کی آواز آ رہی ہے جو شاید ویڈیو بنا رہا ہے یا اس کے پیچھے سے ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ وہ استانی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔

اس شخص اور استانی کے درمیان ایک بچہ کھڑا ہے اور اس سے چھوٹے قد کا ایک بچہ اس کے گال پر تھپڑ رسید کرتا ہے جس پر ٹیچر کہتی ہیں کہ ’زور سے تھپڑ مارو۔‘ اس کے بعد دو لڑکے اُٹھتے ہیں اور اس مبینہ مسلم بچے کی جانب بڑھتے ہیں اور اس کے گال پر تھپڑ رسید کرتے ہیں جبکہ اس دوران ٹیچر اور کیمرے میں نظر نہ آنے والے شخص کی بات چلتی رہتی ہے۔

اس گفتگو کے دوران وہ شخص کچھ پوچھتا ہے جس پر ٹیچر کہتی ہیں کہ 'میں نے ڈکلیئر کر دیا ہے۔۔۔ کہ یہ محمڈن بچے ہیں، ان کی ماں چلی جاتی ہے۔'

اس پر وہ شخص کہتا ہے 'سہی کہہ رہی ہیں، پڑھائی خراب ہو جاتی ہے۔' پھر وہ ہنستا ہے جبکہ استانی دوسری طرف بیٹھے بچوں سے کہتی ہے ’اے کیا مار رہا ہے تو اسے، زور سے مار نا۔ چلو اب کس کا نمبر ہے۔۔۔ چلو تو بھی کھڑا ہو جا۔۔۔'

اس کے بعد دو لڑکے کھڑے ہوتے ہیں اور بچے کی طرف بڑھتے ہیں اور اسے تھپڑ لگاتے ہیں۔ ایک بچہ گال پر زور سے تھپڑ مارتا ہے جس پر ٹیچر اطمینان کا اظہار کرتی ہیں جبکہ دوسرا بچہ پیٹھ پر تھپڑ رسید کرتا ہے اور اس دوران جس بچے کو تھپڑ لگایا جا رہا ہے وہ زار و قطار رو رہا ہے۔

متاثرہ مسلمان طالب علم کے والد ارشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میڈم نے بچوں کو آپس میں لڑا دیا۔ ہم نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میڈم نے ہماری فیس واپس کر دی ہے اور اب ہم اپنے بچے کو سکول نہیں بھیجیں گے۔'

اس پورے معاملے میں کھتولی کے سی او ڈاکٹر روی شنکر کہتے ہیں کہ ’وائرل ویڈیو کی جانچ کرائی گئی ہے۔ ایک بچے کو خاتون ٹیچر دوسرے بچے کے ہاتھوں سکول کا کام نہ کرنے پر پٹوا رہی ہے۔

’ویڈیو میں ٹیچر کی جانب سے کچھ قابل اعتراض باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ (ہماری جانب سے) مزید تفتیش جاری ہے۔'

سوشل میڈیا پر سخت تنقید

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث کی جا رہی ہے۔ ٹاپ ٹرینڈز میں ٹیچر کا نام ترپتی تیاگی بتایا جا رہا ہے اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مظفر نگر، سکول کا نام، مسلم بچہ، اریسٹ ترپتا تیاگی جیسے ہیش ٹیگ گردش کر رہے ہیں۔

بالی وڈ کی معروف اداکارہ اور کانگریس رہنما ارمیلا نے ایک پوسٹر شیئر کیا ہے جس پر انگریزی اور ہندی میں لکھا ہے 'شیم آن یو ترپتا تیاگی، تم انسانیت پر کلنک ہو۔'

اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ 'یہ خاتون بہت بیمار اور ذہنی طور پر ہلی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بچوں کے ارد گرد بھی نہیں ہونا چاہیے نہ کہ انھیں ٹیچر ہونا چاہیے۔'

https://twitter.com/UrmilaMatondkar/status/1695129897528959299

روشن کمار رائے نامی ایک صارف نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ انھیں ابھی تک معطل کیوں نہیں کیا گیا۔

انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: 'دو استادوں کی کہانی۔ ایک نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ تعلیم یافتہ رہنماؤں کو ووٹ کریں تو اسے اپنی نوکری گنوانی پڑی۔ دوسری نے ایک مسلم بچے کو علیحدہ کیا، دوسرے بچوں سے اسے پیٹنے کے لیے کہا۔

’ابھی تک اسے معطل نہیں کیا گیا ہے، گرفتاری کی بات تو بھول ہی جائیں۔‘

https://twitter.com/RoshanKrRaii/status/1695102108532658395

اس کے ساتھ انھوں نے دونوں ٹیچروں کی ایک ساتھ تصویر بھی پوسٹ کی ہے۔

صحافی جیوتسنا موہن خاتون ٹیچر کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ' میں اس مسلم بچے کے صدمے کو شیئر نہیں کرنے جا رہی ہوں لیکن ہمیں اس بات سے کوئی نہیں روک سکتا کہ ہم ترپتا تیاگی نامی عورت کا نام لیں، اسے شرمندہ کریں، اس کی تصویر کو شیئر کریں۔

’یہ ہیٹ کرائم ہے اور اس پر ہر بار آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔'

https://twitter.com/jyotsnamohan/status/1695111512740729107

انڈیا کی معروف ریڈیو جاکی صائمہ نے لکھا کہ 'ان بچوں کے والدین کو بھی پریشان ہونا چاہیے جن کو تھپڑ لگانے کے لیے کہا گیا تھا۔ آپ یقینا یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کے بچے عفریت بنیں۔ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟'

محمد آصف خان نامی ایک صارف نے دو تصاویر پوسٹ کی ہیں ایک میں ٹیچر کی تصویر ہے دوسرے میں ٹائمس آف انڈیا کی خبر کا سکرین شاٹ ہے جس میں لکھا ہے کہ سکول کے ایک حصے کو حجاب کے تنازع میں گرا دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ 'چند ماہ قبل مدھیہ پردیش میں ایک سکول پر بلڈوزر چلایا گیا۔ کیا اترپردیش کی حکومت نیہا پبلک سکول اور ترپتا تیاگی کے گھر پر بلڈوزر چلائے گی؟'

https://twitter.com/imMAK02/status/1695107191022514222

اس واقعے نے انڈیا میں ایک بحث کو ہوا دی ہے کہ سماج کتنا زہر آلود ہو گیا ہے اور بقول صائمہ 'بعض لوگوں کے لیے اسلاموفوبیا ان کی زندگی کا حصہ ہو گيا ہے۔'

بہت سے لوگوں نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور پوچھا ہے کہ اس ٹیچر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہونا چاہیے۔

صحافی رویش کمار نے ایک لمبی پوسٹ لکھی ہے جس میں انھوں نے لکھا: 'ٹیچر کے کہنے پر اپنی ہی عمر کے مسلمان بچے کو مارنے والے چھوٹے بچے کے والدین کو سامنے آکر مقدمہ درج کرانا چاہیے کہ ترپتی تیاگی ان کے معصوم بچے کو ہندو کے نام پر فسادی بنا رہی ہیں۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ 'فرقہ واریت بچوں کو انسانی بم بنا دیتی ہے۔ جو بچہ مارا گیا ہے وہ اس صدمے کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گزارے گا یہ سوچنے کی بات ہے۔۔۔ تمام والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم دشمنی کے نام پر ان کے بچوں کو فسادی بنانے کی کوشش کس سطح پر کی جا رہی ہے۔

'یہ زہر کہاں تک پہنچ چکا ہے، ہر روز اس کا شرمناک نمونہ سامنے آتا ہے۔ گودی میڈیا اور واٹس ایپ انکلوں نے اپنے ہی بچوں کو فسادی بنانے کا جال بچھا رکھا ہے۔ یہ بات بھی دکھ کی بات ہے کہ مذہب کے نام پر قتل ہونے والے بچے کے باپ کو یقین نہیں ہے کہ انصاف ہو گا۔ چیف جسٹس بار بار عدلیہ پر اعتماد کی بات کرتے ہیں۔ کیا عدلیہ اس باپ میں اعتماد بھر کر سکتی ہے؟'

نرگس بانو نامی صارف نے پولیس کا بیان شیئر کیااور لکھا کہ پولیس نے کارروائی کا حکم دیا ہے اور جلد ہی یہ خاتون جیل میں ہوگی۔

اس ویڈیو میں پولیس افسر کہتے ہیں کہ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اس کا نوٹس لیا اور 'یہ ویڈیو منصور پور تھانے میں آنے والے گاؤں کھببا پور کا ہے، جہاں ایک خاتون کے ذریعے اس کے گھر میں ایک سکول چلایا جا رہا ہے۔ اور یہ ویڈویو دوسری کلاس کا ہے جس میں خاتون ٹیچر کے ذریعے ایک بچے کو دوسرے بچے سے کام نہ کرنے کے لیے پٹوایا جا رہا ہے۔ اور اس ویڈیو میں کچھ قابل اعتراض باتیں کہی جا رہی ہیں۔

’اس کا نوٹس لیتے ہوئے تمام متعلقہ افراد سے بات کی گئی ہے۔ اس میں تحریر حاصل کی جا رہی ہے اور آگے کی کارروائی جلد کی جائے گی۔'

کانگریس رہنما ششی تھرور نے اس پر حیرت اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ 'یہ ناقابل یقین ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اور اس میں شامل لوگ جیل میں نہیں ہیں۔ ہم تمام ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔'

بہت سے ٹویٹ ایسے بھی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں سبق سکھانا ضروری ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے اس متاثرہ بچے کی امداد کی بھی بات کہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More