BBC
’ہماری حالت تو ایسی تھی کہ جیسے قبر کے کنارے پر کھڑے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی مرے یا چند لمحوں بعد مرے۔ بس موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔‘
گل فراز جب منگل کی صبح بٹنگئی گاؤں سے ملانے والی کیبل کار پر سوار ہوئے تو ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ان کی زندگی کے اگلے 15 گھنٹے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزریں گے۔
ضلع بٹگرام کے دور افتادہ علاقے پاشتو میں واقع گاؤں بٹنگئی کے رہائشی بائیس سالہ گل فراز اس کیبل کار میں سوار واحد جوان تھے جبکہ ان کے ساتھ باقی سات مسافر سکول کے طالبعلم بچے تھے۔
ابتدا میں میڈیا رپورٹس میں گل فراز کو بھی اس سکول کا استاد قرار دیا گیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک دکان دار ہیں۔
گل فراز کو بچوں کی زیادہ فکر تھی
گل فراز نے بتایا کہ کیبل کار میں موجود بچوں میں ان کا بھتیجا بھی شامل تھا اور انھیں اپنے سے زیادہ بچوں کی فکر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ذرا سوچیں،ایک چھوٹی سے لفٹ فضا میں معلق ہے، جس کی ایک کیبل ٹوٹ چکی ہے۔ ہوا سے بار بار جھول رہی ہے اور اس میں سات بچے موجود تھے۔‘
گل فراز نے بی بی سی کو بتایا کہ کیبل کار جب فضا میں تیز ہوا کی وجہ سے جھولتی تھی تو ان کی چیخیں نکل جاتی تھیں۔
یہ حادثہ صبح سات بجے پیش آیا اور گل فراز کے مطابق پہلے دو تین گھنٹے تک تو شاید کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ کیبل کار کا رسہ کٹ گیا ہے۔
’اس وقت موبائل فون کے سگنل بھی نہیں تھے اور انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب موبائل فون اور انٹرنیٹ کے سگنل بحال ہوئے تو فون کیے گئے اور دوپہر کے وقت فوجی ہیلی کاپٹر پہنچے۔‘
گل فراز کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کی آمد کے بعد کچھ امید بندھی کہ اب کچھ ہو جائے گا لیکن انھیں بھی کامیابی نہ مل سکی کیونکہ ہیلی کاپٹر جب قریب آتے تو اس کی ہوا کا اتنا دباؤ ہوتا تھا کہ کیبل کار جھولنے لگتی تھی۔
ان کے مطابق ہیلی کاپٹر کی مدد سے کارروائی کے دوران ایک موقع پر تو یہ خدشہ بھی پیدا ہوا کہ کیبل کار کہیں نیچے نہ جا گرے لیکن پائلٹ کی حاضر دماغی کی وجہ سے بچت رہی۔
’ایک بچے کو تو ریسکیو کر لیا گیا تھا۔ ہیلی کاپٹر نے جب دوبارہ کوشش کی تو اس دوران اس کا رسہ لفٹ کی کیبل کار کے ساتھ پھنس گیا تھا، جس سے کیبل کار کھینچی جا رہی تھی۔ اس وقت ہماری حالت خراب ہو گئی۔ ایسا لگا کہ بس اب گئے۔ موت سامنے نظر آنے لگ گئی تھی۔ جو بچے کھڑے تو ادھر ہی بیٹھ گئے اور جو بیٹھے تھے وہ کھڑے ہو گئے۔‘
گل فراز کا کہنا ہے کہ اس وقت ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور رسہ کاٹ دیا جس کے بعد کیبل کار پھر اپنی جگہ پر آ گئی۔
ان کے مطابق اس کے بعد شام ہونے لگی تو خوف پھر بڑھ گیا تھا لیکن مقامی لوگوں نے اہلکاروں کی مدد سے آپریشن شروع کیا اور پھر ایک ایک کر کے تمام لوگوں کو نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔
BBCگل فراز نے بتایا کہ کیبل کار جب فضا میں تیز ہوا کی وجہ سے جھولتی تھی تو ان کی چیخیں نکل جاتی تھیں’وہ وقت بہت خوفناک تھا، سب بچے رو رہے تھے‘
گل فراز کے بھتیجے رضوان اللہ بھی اس کیبل کار میں سوار تھے۔ نویں جماعت کے طالبعلم رضوان اللہ نے بتایا کہ ’وہ وقت بہت خوفناک تھا۔ سب بچے رو رہے تھے، مجھے بھی رونا آ رہا تھا اور سب گھر والے یاد آ رہے تھے۔‘
رضوان اللہ نے بتایا کہ جب انھیں محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا تھا تو وہ اپنے والد اور والدہ سے ملے جنھوں نے گلے لگایا، پیار کیا اور کہا ’بس اب آئندہ اس کیبل کار میں نہ جانا‘ اور میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ اب اس کیبل کار میں پھر نہیں جاؤں گا چاہے پیدل دو گھنٹوں کا سفر ہی طے کرنا پڑے۔‘
اس کیبل کار میں سوار ایک بچہ ابرار مجھے قریب بنیادی مرکز صحت میں لیٹا ہوا ملا۔ ان کے ساتھ ان کے گاؤں کے نوجوان محمد فیاض بیٹھے تھے۔
ابرار کی طبیعت خراب تھی اور انھیں سخت بخار تھا۔ وہ بات نہیں کر پا رہے تھے۔ فیاض نے بتایا کہ ابرار کی پسلی میں درد ہو رہا ہے اور اسے ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق یہاں بنیادی مرکز صحت میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے لیکن اس بچے کا مکمل علاج کروانا ضروری ہے۔
محمد فیاض نے بتایا کہ ابرار کی طرح بڑی تعداد میں لوگ محفوظ راستے نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں، ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے لیکن اس طرح کے مسائل کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے۔
’یہ خطرناک لفٹ لائف لائن تھی‘
اگرچہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں اس طرح کی تمام کیبل کار پر جنھیں ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے، پابندی عائد کر دی ہے لیکن بٹنگئی میں لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت انھیں جب سڑک یا پل بنا کر نہیں دے رہی تو مجبوراً وہ کیبل کار کے ذریعے ہی کام چلائیں گے۔
آلائی میں یونین کونسل پاشتو کی چار ویلج کونسلز کے لوگوں کا انحصار اسی کیبل کار پر ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لفٹ تو ان کے لیے ایک لائف لائن تھی۔ اگر وہ پیدل جائیں تو دو گھنٹے لگتے ہیں اور اس کیبل کار میں 20 روپے دے کر پانچ منٹ میں پہنچ جاتے تھے۔
عاصم اللہ ایک استاد ہیں۔ وہ اسی گاؤں کے رہائشی ہیں جہاں سے یہ بچے سکول میں پڑھنے کے لیے آ رہے تھے۔
وہ خود اس کیبل کار میں سوار نہیں تھے لیکن وہ اپنے علاقے کے ان بچوں اور دیگر افراد کے لیے فکر مند نظر آ رہے تھے۔
BBC
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کوئی راستہ نہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحصیل میں جتنے گاؤں ہیں ان کے لوگوں کے لیے سڑک اور پل بنائے تو تمام لوگ آسانی سے اور محفوظ طریقے سے سفر کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ کیبل کار کچھ عرصہ پہلے مقامی لوگوں کے کہنے پر نجی سطح پر قائم کی گئی تھی کیونکہ بڑی تعداد میں آبادی رابطہ سڑک یا پل نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہو رہے تھے۔
نجیب اللہ بھی مقامی استاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت زیادہ مشکل ہوتی ہے جب کوئی بیمار ہوتا ہے اور اسے ہسپتال لے جانا ہوتا ہے۔
’اس طرح کے حادثات تو یہاں آئے روز ہوتے ہیں لیکن کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اس واقعے کو میڈیا میں کوریج ملی تو سارے لوگ پہنچ گئے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ صرف کیبل کار پر پابندی نہ لگائے بلکہ لوگوں کی مشکلات حل کی جائیں۔‘