انڈیا کی جانب سے روانہ کیا جانے والا چندریان تھری خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا ہے۔
چندریان تھری نے بدھ کی شام تقریباً چھ بجے چاند کے جنوبی حصے پر لینڈنگ کی۔
اس کے نتیجے میں انڈیا چاند کے اس حصے پر خلائی جہاز اتارنے والا پہلا اور امریکہ، سابق سوویت یونین اور چین کے بعدسافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے
انڈیا کی خلائی ایجنسی نے اپنے ہیڈکوارٹر میں اس مشن کے آپریشن سینٹر کی تصاویر بھی آج شیئر کی ہیں جہاں سائنسدان اور ٹیکنیکل سٹاف تمام تر صورتحال پر بغور نظر رکھے ہوئے ہے۔
چندریان 3 مشن کے بڑے اہداف میں سے ایک ’پانی سے بننے والی برف‘ کی تلاش ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چندریان اس برف کی تلاش میں کامیاب رہتا ہے تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے۔
چندریان 3 کب روانہ ہوا تھا اور اس کا مقصد کیا ہے؟
چندریان 3 کا خلائی مشن 14 جولائی کو انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے شروع ہوا تھا اور 40 دن کے طویل سفر کے بعد یہ آج چاند کے قطب جنوبی پر اترا ہے۔
اس خلائی جہازنے چاند کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے تقریباً دس دن زمین کے گرد چند چکر لگائے جس کے بعد یہ پہلے ٹرانس لونر اور پھر پانچ اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔
17 اگست کو اس مشن کا آخری مرحلہ شروع ہوا تھا جب لینڈر پروپلشن ماڈیول سے الگ ہوا جو بعد میں اسے چاند کے قریب لے گیا تھا۔
کامیاب لینڈنگ کے بعد اس خلائی مشن سے چھ پہیوں والی ایک گاڑی چاند کی سطح پر اُترے گی اور وہاں موجود چٹانوں اور گڑھوں کے گرد گھومے گی، اس دوران وہ جمع کیے جانے والے اہم ڈیٹا اور تصاویر کو واپس زمین پر تجزیے کے لیے بھیجے گی۔
چاند کی سطح پر اُترنے والی یہ گاڑی ایسے آلات لے کر جا رہی ہے جو چاند کی سطح کی خصوصیات، سطح کے قریب کے ماحول اور سطح کے نیچے کیا ہو رہا ہے جیسے معاملات کا مطالعہ کرنے کے لیے 'ٹیکٹونک ایکٹوٹی' کے بارے میں معلومات جمع کرے گی۔
چاند کی سطح کا مشاہدہ کرنے کے سب سے اہم ترین مقاصد اور اہداف میں سے ایک پانی کی موجودگی کا پتہ چلانا ہے اور ان معلومات کے سامنے آنے کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چاند پر انسانوں کی آبادکاری کہ امکانات قوی ہو سکتے ہیں۔
چندریان 3 چاند پر کہاں اترا اور اس جگہ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
انڈین سائنسدانوں نے اپنی خلائی گاڑی اتارنے کے لیے چاند کے جس حصے کا انتخاب کیا ہے وہ اس سیارے کے قطب جنوبی کا دوردراز خطہ ہے اور مستقل طور پر سائے میں رہنے کی وجہ سے اسے 'چاند کا اندھیرے والا حصہ' بھی کہا جاتا ہے۔
چاند کا جنوبی قطب ابھی تک بڑی حد تک غیر دریافت شدہ ہے۔ وہاں کی سطح کا رقبہ چاند کے شمالی قطب کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
سائنسدانوں کو اس کے بارے میں بہت کم علم ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں اترنا خطرناک یا مشکل ہو سکتا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کے غالب امکانات ہیں کہ چاند کا جو حصہ سائے میں ہے وہاں پانی کی موجودگی کے آثار ملیں۔
اسرو نے اس سے پہلے بھی دو بار چاند کے جنوبی قطب کے لیے مشن روانہ کیا تھا جو کہ ناکام ہو گئے تھے تاہم چندریان 3 کی اس خطے میں اُترنے کی کوشش کامیاب رہی۔
انڈین خلائی جہاز میں ہے کیا؟ BBC
چندریان تھری کا وزن 3900 کلوگرام ہے اور اس کی تیاری پر چھ ارب روپے لاگت آئی ہے۔
چندریان تھری میں موجود چاند گاڑی کا نام اسرو کے بانی وکرم سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس چاند گاڑی کا وزن 1500 کلوگرام ہے اور اس میں موجود پرگیان نامی روور 26 کلو کا ہے۔
پرگیان سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی دانشمندی کے ہیں۔
کیا یہ انڈیا کی چاند پر خلائی گاڑی اتارنے کی پہلی کوشش ہے؟
چندریان 3 انڈیا کی جانب سے چاند پر تحقیق کی غرض سے بھیجا جانے والا تیسرا خلائی مشن ہے اور اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اس سے قبل بھیجے جانے والے دو مشنز کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔
یہ انڈیا کا تیسرا مشن ہے جسے ملک کے پہلے مون مشن کے 15 سال بعد بھیجا گیا ہے۔
اکتوبر 2008 میں چاند کی جانب انڈیا کا پہلا مشن چندریان 1 بھیجا گیا تھا جس نے چاند کی سطح پر پانی کے مالیکیولز کی موجودگی کو دریافت کیا اور یہ ثابت کیا کہ چاند کی سطح پر دن کے وقت ایک ماحول ہوتا ہے۔
انڈیا کے پہلے چاند مشن کی کامیابی نے انڈیا کی خلائی تحقیق کو نئی قوت بخشی اور اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اسی زمانے میں چندریان 2 مشن کو منظوری دی تھی۔
یہ مشن جولائی 2019 میں بھیجا گیا جس میں ایک آربیٹر، چاند گاڑی اور روور شامل تھا۔ اس مشن کو جزوی کامیابی مل سکی تھی کیونکہ اس مشن میں شامل آربیٹر آج بھی چاند کے مدار میں موجود ہے جو روزانہ کی بنیاد پر چاند کی جانچ کر رہا ہے۔ دوسری جانب آربیٹر سے چاند کی سطح کے لیے جو لینڈر روانہ کیا گیا تھا، چاند کی سطح سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر اس کا آربیٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔