پولیس نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے آلائی میں حادثے کا شکار ہونے والی چیئرلفٹ کے مالک اور لفٹ آپریٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان دونوں افراد کے خلاف پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں قیمتی جانوں سے کھیلنے، غفلت اور بےاحتیاطی کا مظاہرہ کرنے اور عوام کو ذہنی اذیت پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
آلائی میں منگل کی صبحجانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے والی کیبل کار رسی ٹوٹنے کے بعد زمین سے 274 میٹر کی بلندی پر فضا میں معلق ہو گئی تھی۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو اس لفٹ پر چھ طلبا سمیت آٹھ افراد سوار تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پاشتو چیئر لفٹ کے مالک گل زرین کے پاس لفٹ چلانے کا سرکاری اجازت نامہ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے لفٹ کو سیل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو لفٹ ہوا میں معلق ہونے کی اطلاع صبح 7:50 پر ملی جس پر پولیس 9:20 بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے ذمہ دار کیبل کار کے مالک ہیں جنھوں لفٹ لگانے کے لیے غیرمعیاری رسی کا استعمال کیا اور دیگر حفاظتی انتظامات یا متبادل انتظامات نہیں کیے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق کیبل کار کے مالک کو پہلے بھی ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ اپنی لفٹ کی فٹنس سے متعلق رپورٹ تھانے میں جمع کروائیں تاہم نہ تو لفٹ لگانے کا اجازت نامہ اور نہ ہی فٹنس سرٹیفیکیٹ مہیا کیا گیا۔
بٹگرام پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے اور تمام تر قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملزمان کا چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نو سو فٹ کی بلندی پر پورا دن لٹکے رہنے والے افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن 12 گھنٹے تک جاری رہا تھا اور اس میں پاکستانی فوج اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی آبادی نے بھی حصہ لیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس ریسکیو آپریشن کی نگرانی فوج کے جی او سی ایس ایس جی خود کر رہے تھے اور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے منگل کی شب ریسکیو آپریشن کے کامیابی سے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
فوج کی جانب سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو آپریشن منگل کی دوپہر شروع کیا گیا تھا۔ تیز ہواؤں کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے جانے والے سلنگ آپریشن میں ابتدا میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے ایک کمانڈو نے منگل کی دوپہر جب ڈولی کے قریب آنے کی کوشش کی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ڈولی نے جھولنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد مختلف طریقوں سے بچوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی اور پھر شام ساڑھے چھ بجے کے قریب ایک بچے کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ہی ڈولی سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی تصدیق کی گئی۔
موقع پر موجود مولانا کفایت اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کچھ دیر پہلے جب لوگ مایوس ہو رہے تھے تواس وقت ہیلی کاپٹر ڈولی کے قریب پہنچا اس میں سے ایک کمانڈو باہر نکل کر رسی کی مدد سے ڈولی تک پہنچا اور اس نے ایک بچے کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اس کو ہیلی کاپٹر تک پہنچا دیا۔
بعد ازاں اندھیرے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے بچاؤ کا عمل معطل کر دیا گیا تھا اور مقامی زپ لائن ماہرین اور اورریسکیو اہلکاروں نے مل کر زمینی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
ریسکیو کے ترجمان کے مطابق فضائی آپریشن معطل ہونے کے بعد ’ایک چھوٹی ڈولی لگا دی گئی جس کے ذریعے مقامی لوگ متاثرہ بچوں تک پہنچے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کیبل کار میں پھنسے افراد کو ایک، ایک کر کے واپس لایا گیا۔
حادثہ کہاں پیش آیا
کیبل کار کو جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہ ضلع آلائی کا ایک دوردراز علاقہ ہے جہاں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے کے لیے مقامی طور پر ایک چیئرلفٹ نصب کی گئی تھی۔
ڈولی میں پھنسے طلبا کا تعلق جانگری سے ہے اور وہ بٹنگی میں واقع سکول جا رہے تھے۔
جانگری سے بٹنگی تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کیبل کار کی مدد سے یہ فاصلہ چند منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔
ایڈیشنل ایس ایچ او بٹنگی محبت شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نزدیکی ضلع بٹگرام کے ایک مقامی مکینک نے یہ کیبل کار نما لفٹ بنائی تھی جس کے لیے اس نے مقامی انتظامیہ سے این او سی بھی حاصل کر رکھا ہے۔
لوگ اس لفٹ کے ذریعے سفر کرتے تھے کیونکہ انھیں اس لفٹ کے ذریعے ’بٹنگی‘ تک پہنچنے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق آج صبح اس کیبل کار نے حادثے کا شکار ہونے سے قبل دونوں گاؤں کے درمیان چار چکر لگائے تھے اور پانچویں مرتبہ بچوں کو لے جاتے ہوئے اس کی رسی ٹوٹ گئی۔
ریسکیو آپریشن میں کیا مشکلات درپیش رہیں؟
بی بی سی نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ریسکیو آپریشن اتنا طویل کیوں ہوا اور اس میں کیا مشکلات درپیش رہی ہیں۔
بی بی سی کی فرحت جاوید سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایئر فورس کے ایک افسر نے بتایا کہ 'اس علاقے میں سب سے بڑا مسئلہ موسم اور ہوا کاہے۔ یہاں ہوا بہت تیزی سے چلتی ہے۔ جیسے جیسے ہوا بڑھتی ہے ہیلی کاپٹر کا پاور مارجن کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں کوئی کلیئر اپروچ نہیں ہے جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیبل کار محض ایک رسی کے ساتھ لٹک رہی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'اس پر ایک طرف بھی وزن بدلتا ہے تو یہ رسی ٹوٹ سکتی ہے۔' انھوں نے بتایا کہ آپریشن میں حصہ لینے ولا اے ڈبلیو 139 ایئرفورس کا ہیلی کاپٹرتھا جو ایسے مشنز کے لیے بہترین ہے اور اگر موسم خراب نہ ہو تو یہ ہیلی کاپٹر رات کو بھی آپریٹ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایکویرل ہیلی کاپٹر بھی اس آپریشن میں استعمال ہوا‘۔
انھوں نے کہا کہ 'بچوں کی موجودگی ایک بہت بڑا رسک ہے کیونکہ وہ گھبرا سکتے ہیں اور یہ کیبل کار بھی کُھلی ہے، اس لیے آج کا پورا دن زیرو ایرر (یعنی کوئی بھی رسک لیے بغیر)کی بنیاد پر آپریشن ہوتا رہا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایوی ایشن کے ہی ایک افسر نے بتایا کہ یہاں ایس ایس جی کے اہلکار سلنگ آپریشن کر رہے تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس آپریشن کے دوران لفٹ کے پاس پہنچ کر ریسکیو کرنے والے شخص کو 20 سے 30 سیکنڈ کا وقت چاہیے ہوتا ہے تاکہ وہ رُک سکے اور اپنا توازن قائم کر سکے۔
BBC’ڈولی‘ کیا ہوتی ہے؟
پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں جنھیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہیں ہوتے۔
پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔
ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔