پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع آلائی میں ایک ڈولی یعنی دیسی ساختہ کیبل کار میں زمین سے نو سو فٹ کی بلندی پر لگ بھگ 15 گھنٹے سے پھنسے تمام آٹھ افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ریسکیو آپریشن کے کامیابی سے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہکا اعلان کرتے ہوئے مسلح افواج کی کاوشوں کو سراہا ہے۔
کامیابی سے آپریشن مکمل ہونے کے بعد جائے وقوعہ پر کھڑے افراد نے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر نےپانچ بچوں کو ریسکیو کرنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ رہ جانے والے تین افراد کو بحفاظت نکالنے کے لیے امدادی کارروائی رات کو بھی جاری رہے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس ریسکیو آپریشن کی نگرانی فوج کے جی او سی ایس ایس جی خود کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ ابتدا میں دو بچوں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر ریسکیو کیا گیا تھا تاہم ریسکیو 1122خیبر پختونخوا کے ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق فضائی آپریشن رات کے اندھیرے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا جس کے بعد مقامی لوگ اورریسکیو اہلکار مل کر زمینی آپریشن کا آغاز کیا۔
ریسکیو ترجمان کے مطابق فضائی آپریشن معطل ہونے کے بعد ’ایک چھوٹی ڈولی لگا دی گئی ہے جس کے ذریعے مقامی لوگ متاثرہ بچوں تک پہنچے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کیبل کار میں پھنسے افراد کو ایک، ایک کر کے واپس لایا گیا۔
حکام کے مطابق کیبل کار میں پھنسے بچے منگل کی صبح سکول جا رہے تھے جس دوران ڈولی کی ایک کیبل ٹوٹ گئی، جس سے وہ زمین سے 274 میٹر کی بلندی پر فضا میں معلق ہو گئی۔
یہ ڈولی دو رسیوں کی مدد سے آپریٹ کی جاتی ہے اور حادثے کا شکار ہونے والی ڈولی کی ایک رسی ٹوٹ گئی تھی۔
حادثے کے بعد کیبل کار میں پھنسے گلفراز نامی شخص نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو فون پر بتایا تھا کہ ان کے ساتھ سات افراد اس ڈولی میں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈولی میں موجود بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان تھیں جن میں سے ایک طالبعلم بےہوش بھی ہو گیا تھا۔ خدا کے لیے ہماری مدد کریں۔‘
اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پہلے مقامی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 اور پھر دوپہر ایک بجے کے قریب پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے چار ہیلی کاپٹروں کی مدد سے امدادی کارروائیاں شروع کی تھیں۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے امدادی کارکنوں کو بٹگرام کے نزدیک پیش آنے والے اس ’خطرناک‘ واقعے میں شرکت اور نگرانی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تیز ہواؤں کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے جانے والے سلنگ آپریشن میں ابتدا میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے ایک کمانڈو نے منگل کی دوپہر جب ڈولی کے قریب آنے کی کوشش کی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ڈولی نے جھولنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد مختلف طریقوں سے بچوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی اور پھر شام ساڑھے چھ بجے کے قریب دو بچوں کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ہی ڈولی سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی تصدیق کی گئی۔
موقع پر موجود مولانا کفایت اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کچھ دیر پہلے جب لوگ مایوس ہو رہے تھے تواس وقت ہیلی کاپٹر ڈولی کے قریب پہنچا اس میں سے ایک کمانڈو باہر نکل کر رسی کی مدد سے ڈولی تک پہنچا اور اس نے ایک بچے کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اس کو ہیلی کاپٹر تک پہنچا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بچے کو ڈولی سے نکالنے کے بعد دوبارہ وہ رسی سے نیچے اترا اور ایک اور بچے کو لے کر ہیلی کاپٹر میں چلا گیا۔
ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کے مطابق جائے حادثہ کے سامنے والی پہاڑی پر ہیلی پیڈ بنا دیا گیا تھا، جہاں ریسکیو آپریشن کے لیے ضروری تمام سامان سے لیس گاڑی پہنچا دی گئی تھی۔
حادثہ کہاں پیش آیا
کیبل کار کو جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہ ضلع آلائی کا ایک دوردراز علاقہ ہے جہاں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے کے لیے مقامی طور پر ایک چیئرلفٹ نصب کی گئی تھی۔
ڈولی میں پھنسے طلبا کا تعلق جانگری سے ہے اور وہ بٹنگی میں واقع سکول جا رہے تھے۔
جانگری سے بٹنگی تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کیبل کار کی مدد سے یہ فاصلہ چند منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔
ایڈیشنل ایس ایچ او بٹنگی محبت شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نزدیکی ضلع بٹگرام کے ایک مقامی مکینک نے یہ کیبل کار نما لفٹ بنائی تھی جس کے لیے اس نے مقامی انتظامیہ سے این او سی بھی حاصل کر رکھا ہے۔
لوگ اس لفٹ کے ذریعے سفر کرتے تھے کیونکہ انھیں اس لفٹ کے ذریعے ’بٹنگی‘ تک پہنچنے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق آج صبح اس کیبل کار نے حادثے کا شکار ہونے سے قبل دونوں گاؤں کے درمیان چار چکر لگائے تھے اور پانچویں مرتبہ بچوں کو لے جاتے ہوئے اس کی رسی ٹوٹ گئی۔
ریسکیو آپریشن کہاں تک پہنچا ہے اور اس میں کیا مشکلات درپیش ہیں؟
بی بی سی نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ریسکیو آپریشن اتنا طویل کیوں ہوا اور اس میں کیا مشکلات درپیش رہی ہیں۔
بی بی سی کی فرحت جاوید سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایئر فورس کے ایک افسر نے بتایا کہ 'اس علاقے میں سب سے بڑا مسئلہ موسم اور ہوا کاہے۔ یہاں ہوا بہت تیزی سے چلتی ہے۔ جیسے جیسے ہوا بڑھتی ہے ہیلی کاپٹر کا پاور مارجن کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں کوئی کلیئر اپروچ نہیں ہے جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیبل کار محض ایک رسی کے ساتھ لٹک رہی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'اس پر ایک طرف بھی وزن بدلتا ہے تو یہ رسی ٹوٹ سکتی ہے۔' انھوں نے بتایا کہ آپریشن میں حصہ لینے ولا اے ڈبلیو 139 ایئرفورس کا ہیلی کاپٹرہے جو ایسے مشنز کے لیے بہترین ہے اور اگر موسم خراب نہ ہو تو یہ ہیلی کاپٹر رات کو بھی آپریٹ کر سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایکویرل ہیلی کاپٹر بھی اس آپریشن میں استعمال ہو رہا ہے اور آج ان دونوں ہیلی کاپٹرز نے کوشش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'بچوں کی موجودگی ایک بہت بڑا رسک ہے کیونکہ وہ گھبرا سکتے ہیں اور یہ کیبل کار بھی کُھلی ہے، اس لیے آج کا پورا دن زیرو ایرر (یعنی کوئی بھی رسک لیے بغیر)کی بنیاد پر آپریشن ہوتا رہا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایوی ایشن کے ہی ایک افسر نے بتایا کہ یہاں ایس ایس جی کے اہلکار سلنگ آپریشن کر رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس آپریشن کے دوران لفٹ کے پاس پہنچ کر ریسکیو کرنے والے شخص کو 20 سے 30 سیکنڈ کا وقت چاہیے ہوتا ہے تاکہ وہ رُک سکے اور اپنا توازن قائم کر سکے۔
BBC’رات ہونے کو ہے اور سب پریشانی کا شکار ہیں‘
جائے حادثہ پر موجود مقامی افراد طویل انتظار کے باعث اب خدشات کا شکار ہو رہے ہیں۔
مولانا عبدالقیوم منگل کی صبح سے اس مقام کے قریب موجود ہیں جہاں کیبل کار کی رسی ٹوٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ عبدالقیوم کا ایک بیٹا اور چھوٹا بھائی ان آٹھ افراد میں شامل ہیں جنھیں ریسکیو کرنے کے لیے آپریشن فی الحال جاری ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ کچھ دیر میں اندھیرا پھیل جائے گا۔ ہمیں اس علاقے کا علم ہے،ایک دفعہ اندھیرا پھیل گیا تو آپریشن بہت مشکل ہو جائے گا۔ پہلے گلفراز کا موبائل چل رہا تھا اور اس سے بات ہو رہی تھی مگر اب بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے اس کا موبائل بھی بند ہو چکا ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ اب ہمارے بچے کس حال میں ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالقیوم نے بتایا کہ اُن کا بیٹا سکول جا رہا تھا جبکہ اُن کے بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ بھتیجے کو سکول چھوڑ کر واپس آ جائے گا مگر دونوں ہی حادثے کا شکار ہونے والی کیبل کار میں پھنس گئے۔
عبدالقیوم کے علاوہ ڈولی میں پھنسے درجنوں پریشان حال رشتہ دار اس جگہ پر موجود ہیں اور اپنے بچوں کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔
مقامی رہائشی عرفان اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صبح ہی سے پھنسی ہوئی چیئر لفٹ والے مقام پر موجود ہیں جہاں ان کے گاؤں کے علاوہ نزدیکی دیہات سے بھی لگ بھگ تین ہزار افراد پہنچ چکے ہیں۔
انھوںنے بتایا کہموقع پر موجود سب لوگ ذکر اذکار کر رہے ہیں۔ لوگوں کو پہلے امید تھی کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلدی سے پھنسے ہوئے افراد کو نکال لیا جائے گا مگر جب تیز ہوا چلتی ہے تو ایسا ممکن نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’تیز ہوا کے باعث جب کمانڈو رسی سے نیچے اترتا، تو رسیجھول جاتی اور وہ کیبل کار سے بہت دور چلا جاتا تھا۔‘
عرفان اللہ کا کہنا تھا کہ اب جب رات ہونے کو ہے تو ہر طرف پریشانی بڑھ رہی ہے اور سب سوچ رہے ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔
’ڈولی‘ کیا ہوتی ہے؟
پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں جنھیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہیں ہوتے۔
پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔
ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔