روپلو کولھی: وہ جنگجو جو انگریزوں کے سندھ پر قبضے میں آخری دم تک رکاوٹ بنے رہے

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2023

’ہار مت ماننا۔۔۔‘ مینا وتی نے اپنے 41 سالہ شوہر کے کان میں کہا۔

مینا وتی کو جیل میں اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ وہ انھیں انگریزوں کے خلافمزاحمت ترک کرنے اور ساتھیوں کے نام بتانے پر آمادہ کریں گی۔

لیکن الٹا انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’ہار مت ماننا۔ میں ایک غدار کی بیوی کی بجائے ایک بہادر کی بیوہ کے طور پر زندہ رہنا چاہوں گی۔‘

آخر وہ روپلو کولھی کی بیوی تھیں۔

1843 تک ایسٹ انڈیا کمپنی سندھ کے بڑے حصے پر قابض ہو چکی تھی لیکن روپلو کولھی کی قیادت میں انھیں سندھ کے جنوب مشرقی صحرا تھرپارکر میں مزاحمت کا سامنا تھا۔

خوبصورت کارونجھر اور تھرپارکر دنیا کا 20 واں سب سے بڑا صحرا ہے جو ہندوستان اور پاکستان میں 22,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

1843 سے 1858 تک یہ حیدر آباد کلکٹریٹ کا حصہ تھا۔ 1858 میں سر چارلس نیپیئر نے اس علاقے کو کَچھ پولیٹیکل ایجنسی میں شامل کر دیا۔ اس تمام عرصے میں سندھ کے اس حصے میں انگریزوں کے قدم نہ جم سکے۔

صحافی محمد عباس خاص خیلی لکھتے ہیں کہ انگریز جدید ہتھیاروں، فریب اور تفرقہ انگیز حربوں سے سندھ پر قبضہ کر چکے تھے لیکن انھیں تھرپارکر کو فتح کرنے میں 16 سال لگے۔ وہاں انھیں راجپوت فوج کا سامنا کرنا پڑا۔

اسفوج میں روپلو کولھی کی کمان میں زیادہ تر کولھی برادری (آج کل سندھ کی ایک شیڈول ہندو ذات) کے جنگجو شامل تھے۔

سندھ کے پارکر اور انڈین راجستھان کے تھر کے علاقے میں کولھیوں کو یہاں کے قدیم باشندے تسلیم کیا جاتا ہے، جن کی روزی روٹی تھر کے حیوانات، پھلوں اور جنگلی مصنوعات جیسے شہد پر قائمہے۔

کولھیوں کی ایک شاخ گویل ہے۔ اسی شاخ کے کارونجھر کے پاس کنبھاری گاؤں میں رہنے والے شامتو رام کے ہاںروپلو سنہ 1818 میں پیدا ہوئے۔

پارو مل پریمی اپنی کتاب ’لوک ساگر کے موتی‘ میں لکھتے ہیں کہ روپلو کی والدہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ جب ہندوستان کے مشہور ڈاکو ٹھاکر بلونت سنگھ چوہان نے پارکر میں پناہ لی تو روپلو کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ روپلو ہمارا بھانجا ہے کیونکہ اُن کی ماں چوہان ہیں۔‘

ظلم و جبر کے خلاف روپلو کولھی کی جدوجہد کا آغاز پارکر کے سوڈھوں (ٹھاکروں) کے خلاف آواز اٹھانے سے ہوا۔

’ہوا یوں کہ، لدھو سنگھ اور ان کے بیٹوں نے اپنی جاگیر کے علاوہ آس پاس کے گاؤں میں بسنے والے تمام افراد کو حکمدیا کہ وہ اپنے جانوروںکے دودھ کا ایک حصہ دربار کو فراہم کریں۔ افیم کھاتے ٹھاکروں کو دودھ اور دہی کی بہت زیادہ طلب ہوتی تھی۔ لوگوں کے گھروں میں لسی بلونا بند ہو گیا، دودھ، دہی اور لسی کے لیے معصوم بچوں نے رونا پیٹنا شروع کردیا۔‘

’روپلو نے علاقے کے لوگوں سے کہا کہ وہ دودھ کی فراہمی بند کر دیں اور سوڈھوں سے کہیں کہ یہ روپلو نے بند کروائی ہے۔ اس واقعے کی خبر جب سوڈھوں کو ہوئی تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور اپنے حواریوں سمیت مسلح ہو کر کنبھاری جا پہنچے۔‘

’روپلو پہلے ہی تیار تھے۔ وہ بھی کنبھاری سے کچھ فاصلے پر اپنے مسلح ساتھیوں سمیت ان کے مدِمقابل آ پہنچے۔ روپلو نے سوڈھوں سے کہا کہ راجاؤں کی یہ ریت نہیں جیسا آپ کر رہےہیں۔ اس ظلم کے سبب رعایا مصیبتوں میں مبتلا ہے۔‘

کسی دانش مند کے مشورے پر ٹھاکروں نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے روپلو کو گلے لگایا، اپنی غلطی کی معافی مانگی اور واپس لوٹ گئے۔ اس واقعے کے بعد روپلو کی شان میں اضافہ ہوا اور وہ کولھیوں کے قومی سردار کہلانے لگے۔

پریمی لکھتے ہیں کہ ’1857 کے آخری عشرے میں بلوے کی آگ بجھ گئی لیکن جاگیرداروں، نوابوں، مقامی ریاستوں اور وطن پرستوں کی دلوں میں آزادی کے دیپ جگمگا رہے تھے۔ پارکر کے سوڈھے انگریز اہلکاروں کے حکمسے بے پروا تھے۔ سیندھوری والے ناکےپر گجرات کی طرف آنے اور جانے والوں سے ٹیکس ٹھاکروں کی جانب سے پرمار کولھی وصول کر رہے تھے۔ چراگاہوں اور نمک کی کان پر بھی ٹھاکروں کا قبضہ تھا۔ انگریزوں نے ان کے یہ حقوق ختم کر دیے اور دیو مل نامی ایک شخص کو مختار کار مقرر کر کے اسے ٹیکس وصولی کا ہدف دے دیا۔‘

مقامی سوڈھا، کولھی اور کھوسہ قبائل نے انگریزوں کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا اور بغاوت کر دی۔ اس سے خطے میں راجپوت مزاحمت کا آغاز ہوا۔

پارکر کی سرحدیں کَچھ اور بھوج کو چھوتی تھیں۔ یہاں چھوٹی ریاستوں پر مہاراجہ اور رانا راج کرتے تھے اور یہیاس مزاحمتی تحریک کا مرکزبنا۔

Getty Imagesکارونجھر اور تھرپارکر دنیا کا 20 واں سب سے بڑا صحرا ہے۔ سنہ 1858 میں سر چارلس نیپیئر نے اس علاقے کو کچھ پولیٹیکل ایجنسی میں شامل کر دیا

رانپور کے راجہ رانا سنگھ کے بُلاوے پر ویر واہ کے ٹھاکر لدھو سنگھ، پیتھا پور کے سوڈھو کالجی اور نگرپارکر کے روپلو کوہلی نے کارونجھر پہاڑوں پر اپنا میدان قائم کیا۔

پریمی کہتے ہیں کہ ٹھاکروں کے پاس کوئی منظم لشکر نہیں تھا، وہ جنگ کے موقعے ہی پر تیاری کرتے تھے۔ ٹھاکروں کی فوج کا دار و مدارکولھی سپاہیوں پر تھا۔ اسی بنا پر لدھو سنگھ خود کنبھاری پہنچے اور روپلو سے جنگ کے لیے مدد طلب کی۔

’روپلو نے ایک شعر پڑھا اوراپنے برادر نسبتی ڈجی مکوانی سے مشورہ کیا۔ یہ پُرجوش شعر سنتے ہی ڈجی فوراً گھوڑے پر سوار ہو گئے اور دو دن کے اندر اندر تیروں، بھالوں، چھریوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہزاروں کولھی افراد اکٹھے کر لیے۔‘

رانا محبوب اختر کے مطابق ٹھاکر لدھو سنگھ، لدھو کے بیٹا ادے سنگھ، سوڈھا کلجی، روپلو کولھی، شادی خاں کھوسو، کاپڑی خاں کھوسو، راجہ خاں کھوسو اور بہار خاں کھوسو اس تحریک ِمزاحمت کے روح ِرواں تھے۔ کولھی قبیلے کے آٹھ ہزار لڑاکا جوان اس جنگ میں شریک تھے جن کے لیڈر روپلو کولہی، مادو کولہی اور چھترو کولہی تھے۔

پریمی لکھتے ہیں کہ روپلو کی قیادت میں کولھیوں کا یہ لشکر اونٹوں، گھوڑوں اور پیادوں پر مشتمل تھا۔ وہ کنبھاری سے انگریزوں کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے رانپور کی جانب روانہ ہوئے۔ انھوں نے علاقے سے رلیاں (روایتی سندھی چادریں) جمع کیں۔ وجہ یہ تھی کہکرنل ٹِروِٹ نے اپنے کیمپ کے باہر مضبوط باڑ لگائی ہوئی تھی۔ ارادہ یہ تھا کہ باڑ پر رلیاں بچھا کر پھر حملہ کیا جائے گا۔

15 اپریل 1859 کو حملہ کیا گیا۔ انگریزوں کے بے شمار سپاہی مارے گئے اور کچھ فرار ہو گئے۔ ٹِروِٹ ایک خفیہراستے سے نگر پارکر کے شمال میں گوٹھ پورن واہ میں لدھو میگھواڑ کے گھر میں ایک بہت بڑے مٹی کے برتن میں جا کر چھپ گئے۔ ( وہ جوتے بناتے تھے اور کھالوں کو مٹی کے اسی برتن میں گیلا کرنے کے لیے رکھتے تھے۔ اس برتن سے بہت زیادہ بدبو اٹھتی تھی اس لیے گھر میں آنے والے افراد اس طرف جانے سے پرہیز کرتے تھے)۔

کولھی وہاں پہنچے، پورے گھر کی تلاشی لی لیکن تعفن کے سبب اس برتن کی جانب نہیں گئے۔ لدھو نے حلف دے کر اپنی جان چھڑائی۔

اگلی رات لدھو نے ایک تیز رفتار اونٹ پر ٹِروِٹ کو حیدرآباد روانہ کیا۔ پارکری فوج نے مختار کار آفس پر حملہ کر کے خزانہ لوٹ لیا۔ پولیس کے باغی سپاہی بھی ان کی فوج میں شامل ہو گئے۔ کچہری (عدالت) کو بھی آگ لگا دی گئی، محکمہ مال کا ریکارڈ جلا دیا گیا، ٹیلی گراف کے تار کاٹ کر پول گرا دیے گئے۔ گجرات اور سندھ کی جانب جانے والے راستے بھی بند کردیے گئے۔

ٹھاکروں کی نگر پارکر پر حکمرانی دوبارہ قائم ہو گئی۔

پریمی کا کہنا ہے کہ اس عارضی فتح کے بعد ٹھاکر اور کولھی یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے مکمل فتح حاصل کرلی ہے لیکن ٹِروِٹ نے حیدرآباد پہنچتے ہی کرنل ایونز کی نگرانی میں ایک بڑی فوج تیار کروائی اور کراچی سے توپ خانہ بھی طلب کر لیا۔

مکمل تیاری کے بعد وہ میرپور خاص، مٹھی اور اسلام کوٹ فتح کرتے ہوئے ویر واہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے ٹھاکرلدھو سنگھ کے لشکر میں شامل راجپوت سپاہیوں سے رابطہ کیا اور انھیں جاگیراور مال و دولت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور نگر پارکر پر حملہ آور ہو گئے۔

’کولھی سپاہ کو دو طرفہ حملوں کا سامنا تھا، ایک جانب راجپوتوں نے ان پر یورش کی تو دوسری طرف برطانوی فوج جدید ہتھیاروں اور توپ خانے سے لیس ان پر حملہ آور ہوئی۔‘

انھوں نے روایتی اسلحہ، تلوار، تیر، نیزوں، بھالوں کی مدد سے کافی دیر تک انگریز فوج کا مقابلہ کیا، سوڈھو کالجی اس لڑائی میں مارے گئے ۔

پریمی کا کہنا ہے کہ ’لدھو سنگھ کو قید کرلیا گیا اور رانپور کے راجا کرن سنگھ، بال بچوں سمیت روپلو کی سربراہی میں کارونجھر کے پہاڑی علاقے میں جا چھپے۔ رانا کرن سنگھ اور روپلو نے روپوش ہو کر گوریلا جنگ جاری رکھی۔ وہ چھپ کر دشمن پر حملہ کرتے اور کارونجھر پہاڑ کی پناہ میں چلے جاتے۔‘

ٹِروِٹ نے توپوں کی مدد سے پارکر پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پریمیکے مطابق ’اس جنگ میں آٹھہزار کولھی جان سے گئے۔ بے شمار گھر اجڑ گئے، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے۔‘

BBCکارونجھر کے پہاڑ

کارونجھر کے 144 مربع میل پر پھیلے پہاڑی سلسلے میں رانا کرن سنگھ اور ان کے اہلِخانہ جو روپلو کی نگرانی اور پناہ میں تھے، کو ٹِروِٹ آسانی سے گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا ٹھاکروں کی مدد سے رشوت اور لالچ کے عوض لوگ خریدے گئے۔

آغا نیاز مگسی کی تحقیق ہے کہ جب انگریز سرکار روپلو کولھی سے شکست کھا گئی تو اس نے مقامی افراد کو پیسوں کی لالچ دے کر ان کو استعمالکیا۔ ساڑدھری مندر کے پجاری سیٹھ مہاوجی لوہانو اور ہنس پوری باؤ نے جاسوسی کر کے روپلو کولھی کو گرفتار کروایا۔

ہنس پوری باؤ نے مشورہ دیا کہ کارونجھر کی پہاڑیوں کے اندر کنوؤں کی نگرانی کی جائے، روپلو اور ان کے ساتھی پانی حاصل کرنے ضرور وہاں آئیں گے۔ یہ بات سب کو بھا گئی اور ٹِروِٹ نے ان کنوؤں کی تلاش کے بعد اپنے فوجی وہاں مقرر کر دیے۔ پگ واہ نامی کنویں پر روپلو روزانہ رات کو آتے تھے، وہیں فوجیوں نے چھپ کر انھیں گرفتار کیا۔

ٹِروِٹ نے روپلو سے ان کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی بہتکوشش کی۔

روپلو سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ انگریز سرکار کی اطاعت کریں تو انھیں رہا کر دیا جائے گا اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا لیکن روپلو نے صاف انکار کر دیا۔

اس پر روپلو کی اہلیہ مینا وتی کو بلایا گیا کہ وہ اپنے شوہر کو سمجھائیں۔ مینا وتی بھی اپنے شریک حیات کی طرح بہادر نکلیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’روپلو اپنی دھرتی سے غداری نہ کرنا ورنہ لوگ مجھے لعن طعن کریں گے۔ اگر آپ اپنی دھرتی پر اپنی جان قربان کریں گے تو میں اپنے بہادر شوہر کی بیوہ کہلاتے ہوئے فخر محسوس کروں گی۔‘

ساتھیوں کی خبر دینے سے انکار پر روپلو پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ ان کی انگلیوں پر روئی لپیٹ کر انھیں تیل میں بھگو کر آگ لگا دی گئی، جس سے ان کی انگلیاں بری طرح جھلس گئیں۔

آخر تھک ہار کر ٹِروِٹ نے روپلو کے مستقبل کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے رائے طلب کی۔ راجپوت سردار لوہانو، جو کچھ عرصے قبل تک روپلو کے ساتھ تھے، نے انھیں مشورہ دیا کہ روپلو کو فی الفور پھانسی دے دی جائے۔

ٹِروِٹ کو ان کی تجویز پسند آئی اور انھوں نے بغیر مقدمہ چلائے روپلو کو سزائے موت سنا دی اور ساتھ دینے والے میگھواڑ کو پورن واہ، پنڈت ہنس پوری کو کارونجھر اور لوہانو کو کاسبو میں جاگیریں دی گئیں۔

22 اگست 1859 کو سخت پہرے میں نگر پارکر کے جنوب مشرقی علاقے میں سوئی گام کے مقام پر گوردھڑو ندی کے کنارے کیکر کے درخت کی ایک ڈال پر روپلو کو پھانسی دے دی گئی۔

اختر بلوچنے لکھا ہے کہ کیکر کے جس درخت پر روپلو کو پھانسی دی گئی تھی وہ تو باقی نہیں رہا لیکن وہاں پیلو کے ایک درخت نے جنم لے لیا، جو اب بھی وہاں موجود ہے۔

روپلو کولھی کی موت کے بعد ان کی لاش غائب کر دی گئی۔ ان کی والدہ، بیوی اور دیگر لواحقین کنری چلے گئے جو اب میرپور خاص میں ہے۔

پاکستان بننےکے بعد ان کے پوتے دوبارہ نگر پارکر میں مقیم ہو گئے۔ ان کی پڑپوتی، کرشنا کولھی عرف کشو بائی، 12 مارچ 2018 کو پاکستان کی پہلی ہندو دلت خاتون سینیٹر منتخب ہوئیں۔

نگر پارکر میں سیاحوں اور یاتریوں کے لیے کارونجھر پہاڑ کے دامن میں ’روپلو کولھی‘ کے نام سے ایک ریزورٹ بنایا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More