Getty Images
آوازیں، شور، افراتفری۔۔۔ ایک ہنگامہ برپا ہے۔ کانوں پر ہاتھ ہیں اور آنکھوں پر پٹیاں، ہونٹ مضطرب، ہلتے ہیں مگر بغیر آواز کے، زندگی ایک مشق سی ہو گئی۔
ہم بے حس ہو گئے یا احساس کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔ سانحے پہ سانحہ، حادثے پہ حادثہ، ایک کے بعد ایک خبر، دو پل سوچنے کا وقت اور پھر رواں دواں، یہ زندگی ہے یا مصلحت۔
فصلوں کی رکھوالی کے لیے تخلیق کردہ بجوکے موسموں کی شدت میں بے رنگ اور بے جسم ہو چکے ہیں۔ بجوکے گھاس پھونس کے بنے وہ انسان نُما ہیں جو فصلوں کو نوچنے والے پرندوں سے بچاتے ہیں مگر جب بجوکے ہی مرداروں کے پروں کے نیچے بنائے جائیں، جب بجوکے نامکمل اور بے ترتیب ہوں، جب ادھورے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں، اُدھڑا ہوا جسم، سہاروں سے لٹکتا ہوا ڈھانچہ کھیت کے عین وسط میں بے چارگی کی تصویر ہو تو گدھ، کوّے، چیلیں کب کچھ چھوڑتے ہیں۔ یہی ہماری ریاست کے ساتھ ہوا ہے۔
دو رُخی اور مفادات میں لپٹی پالیسیوں نے ریاست کو وہ بجوکا بنا دیا ہے جس کے اُدھڑے جسم سے لٹکتے چیتھڑے ہماری بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
عیسیٰ نگری کے باسی پرچم کے سفید رنگ کو جسم سے لپیٹے حق مانگ رہے ہیں، قبروں سے اکھاڑے جانے والے احمدی اب منوں مٹی تلے بھی امان مانگتے ہیں تو کبھی کافر کافر کے فتووں میں اسلام بچاتے مسلمان بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔
فرقہ واریت، انتہا پسندی اور تشدد سے مسلح یہ معاشرہ وہاں آ کھڑا ہوا ہے جہاں تین دہائیاں پہلے تھا۔ چپکے چپکے چوری چوری انتہاپسندی سے روکنے والا قانون ایک بار پھر مملکت کو وہیں دھکیل رہا ہے جہاں سے آگ کا کھیل شروع ہوا تھا۔
تشدد کو روکنے کے لیے مزید تشدد، انتہا پسندی کو روکنے کے لیے مزید انتہا پسندی، غداری سے روکنے کے لیے مزید غدار بنانے کے قوانین تو حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے جمہوری جماعتوں کے جلو میں منظور کیے ہیں جبکہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔
Getty Images
تشدد اور انتہا پسندی کا حالیہ قانون کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک اور خوف بن گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزیر مملکت برائے قانون کے ہاتھوں پیش کردہ قانون سے خود وزیر مملکت انکاری، ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ن لیگ کے وزیر قانون اور وزیر داخلہ۔۔۔ اس ہڑبونگ اور بھیڑ چال میں وہ متنازعہ قانون سازی ہوئی جس پر کالعدم تنظیمیں بھنگڑے ڈال رہی ہیں اور انتہاپسند جشن منا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کی راہداریوں میں اس قدر قانون سازی کی بے حرمتی نہ دیکھی جو اتحادی حکومت کے آخری دنوں میں ملاحظہ کی۔ البتہ شیری رحمن کے اعتراضات ریکارڈ پر رہے کہ انتہا پسندی سے متعلقہقانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ یہ بل نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ اس پر اتفاق موجود نہیں۔
شیری رحمٰن کی آواز نقار خانے میں طوطی سے بھی کم ثابت ہوئی اور تمام جماعتوں بشمول تحریک انصاف، ن لیگ اور یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے چند سینٹرز کی خاموشی رضامندی بن گئی۔
ایک اور متنازعہ بل ایوان سے منظور ہوا۔اکا دُکا کے علاوہ سب نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر صدا آئی کہ وہ ایک صفحہ پھر میسر ہوا جس کے لیے اپوزیشن میں سیاسی جماعتیں انقلاب اور حکومت میں اتفاق جبکہ حزب اختلاف میں مخالفت اور اقتدار میں مصالحت سے تشبیہ دیتی ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ صدر صاحب کی نیم رضامندی، نکی جئیہاں اور نکی جئی ناں کے درمیان، معافی اور تلافی کے سوشل میڈیائی بیان اور کمال صدارتی چال کے سامان لیے ’اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے‘ کے اسلامی ٹچ کے ساتھ قانون بنا۔
صدر علوی شاید اپنی ہی جماعت کے بے پناہ سوشل میڈیا دباؤ میں آتے ہوئے کہ اُن کے نوک قلم سے محفوظ مگر غیر محفوظ قانون سازی کا پہلا شکار اُن کا ہی چیئرمین ہو گا اُلٹے پیروں پھر گئے۔ کیا کمال چال ہے کہ اپنے تئیں خدا بھی راضی اور وصال صنم کا بندوبست بھی۔۔۔
ہم تیس سال پُرانے سیاسی دور میں لوٹ رہے ہیں جہاں نہ نیا پاکستان ہے نہ ہی پُرانا بلکہ ہلکی سی ترمیم کے ساتھ بقول شاعر
میرا خاکستری گھروندا
جس کے چٹخے ہوئے کواڑوں میں
جس کی دہلیز کی نشیب کے پاس
فن تعمیر کا پُرانا پن
ایک ویرانہ بن کے بیٹھا ہے