EPA
تھانہ سٹی جڑانوالہ نے انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں کہا ہے کہ بدھ کو مبینہ توہین مذہب کے واقعے کے بعد علاقے کے بعض مذہبی رہنماؤں کی ترغیب پر 500 سے 600 مشتعل مظاہرین نے مسیحی برداری کے گھروں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کیا۔
بی بی سی نے ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی متعدد پوسٹس دیکھی ہیں جن میں واقعے کے دو روز گزرنے کے بعد بھی مسیحی برادری کے خلاف فیک نیوز پھیلا کر لوگوں کو اشتعال دلایا جا رہا ہے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی روک تھام ضروری ہے جس سلسلے میں ایف آئی اے اور پی ٹی اے جیسے اداروں کو اقدامات کرنا ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ مرکزی ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور پولیس نے اس ضمن میں گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ ’ہم ان تمام عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے جنھوں نے توڑ پھوڑ میں حصہ لیا اور (مسیحی برادری) کے گھروں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کیا۔‘
عثمان انور نے کہا کہ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی بھرمار ہے اور ’ہم اس زاویے سے بھی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔‘
’واقعے میں انتشار پسند لوگ ملوث‘
پاکستان کے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے مطابق 16 اگست کے پُرتشدد واقعات میں مشتعل افراد نے کل 19 گرجا گھروں کو نذر آتش کیا جن میں 12 رجسٹرڈ اور سات چھوٹے غیر رجسٹرڈ چرچ شامل ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں اور ان واقعات میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ اور اس کے گردونواح میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی۔
جمعے کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان عیسیٰ نگری کے علاقے میں ہوا جہاں 40 مکانات اور تین چرچ جلائے گئے جبکہ محلہ چمڑہ منڈی میں بھی دو چرچ اور 29 مکانات نذرِ آتش کیے گئے۔
پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ جن املاک کو نقصان پہنچا ان کی بحالی کے لیے پنجاب حکومت اقدامات کرے گی۔
پاکستان کے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن رابعہ زبیری نے بتایا ہے کہ بعض لوگوں نے کمیشن کو بتایا ہے کہ یہ مسئلہ دو فریقین کے درمیان مالی تنازع سے شروع ہوا تاہم تاحال اس حوالے سے بی بی سی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
https://twitter.com/BishopAzadM/status/1691729068889354251
جڑانوالہ کے پاسٹر عمران بھٹی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی آنکھوں میں اب بھی تباہی کا منظر تازہ ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ کوئی لین دین کا مسئلہ تھا جسے ’انتشار پسند‘ عناصر کے لاؤڈ سپیکر پر اعلانات نے بڑھاوا دیا۔
انھوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث لڑکے ’انھی راستوں سے آتے جاتے تھے۔۔۔ ان کا آپس میں کوئی جھگڑا ہوا۔۔۔ جس کے بعد انتشار پھیلتا چلا گیا۔‘
’کچھ انتشار پسند لوگ (ملوث) تھے۔ انھوں نے اس سے متعلق اعلانات کیے، ان کے ساتھ بعض کالعدم جماعتوں کے لوگ مل گئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ 16 اگست جڑانوالہ کی مسیحی برداری کے لیے ایک انتہائی مشکل دن تھا جس دوران ان کے گھر اور عبادت گاہیں نذر آتش کر دی گئیں۔ ’ہمارے بچے بھوکے رہے، تمام راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیے گئے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ڈر کے مارے بعض خاندانوں کو اپنے بچوں سمیت زرعی زمینوں پر لیٹ کر رات گزارنا پڑی۔
عمران بھٹی کے مطابق مشتعل مظاہرین کے سامنے پولیس اہلکار بے بس دکھائے دیے۔ ’پولیس نے انھیں کچھ ہی کہا۔ بلکہ اہلکار ان کے ساتھ کھڑے تھے جب وہ گھر جلا رہے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس مدد کے لیے کوئی بھی نہیں پہنچا۔ جب چرچ پر آگ لگی تو ہم نے فائر بریگیڈ کو فون کیا مگر وہ بھی وقت پر نہ پہنچ سکے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس نوعیت کے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے تو انھیں کہا کہ ’ہمیں ایک ملک میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو قبول کرنا ہو گا۔‘
BBCہنگامہ آرائی کے دوران مسجد کے لاؤڈ سپیکر اور سوشل میڈیا کا استعمال
مسیحی برادری کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملوں کی ترغیب دینے کے الزام میں تھانہ سٹی جڑانوالہ نے جماعت اہل سنت اور تحریک لبیک پاکستان کے مقامی رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا ہے۔
پولیس نے اس مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعات شامل کی ہیں اور بتایا کہ 16 اگست کو مبینہ توہین مذہب کے واقعے کے بعد صبح نو بج کر 20 منٹ پر کہ سنیما چوک کے قریب جامع مسجد مہتاب کے لاؤڈ سپیکر پر ایک شخص نے مسیحی برادری کے خلاف اشتعال انگیز اعلان کیا جس کے بعد ’ناخوشگوار واقعے کی اطلاع سوشل میڈیا و دیگر ذرائع سے عوام الناس میں پھیل گئی۔۔۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے۔‘
پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جڑانوالہ میں امیر جماعت اہل سنت اور ٹی ایل پی کے رہنماؤں کی قیادت میں 500 سے 600 لوگ ڈنڈوں، پتھروں اور پیٹرول کی بوتلوں کے ساتھ سنیما چوک کے قریب جمع ہوئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔
اس کے مطابق بعض مذہبی رہنماؤں نے ’لوگوں کو اشتعال میں لاتے ہوئے مسیحی بستیوں و چرچ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی۔‘
مقدمے کے متن میں لکھا ہے کہ ’ملزمان نے پولیس پارٹی کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے بستی میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ شروع کر دی اور گھریلو اشیا کو نقصان پہنچایا۔ پوری بستی میں خوف و حراس و دہشت کا ماحول پیدا کر دیا۔‘
اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے گھروں سے سامان باہر بازار میں پھینک کر آگ لگانا شروع کر دی اور چرچ میں داخل ہو کر وہاں بھی آگ لگائی۔
پولیس نے مسیحی برادری کے علاقے میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے اور عبادت گاہیں نذر آتش کرنے اور لوگوں کو اشتعال دلانے پر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
BBC’مذہبی اقلیتوں کے خلاف مواد کو رپورٹ کرنا ہماری ترجیح ہی نہیں‘
ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم بولو بھی کے اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈس انفارمیشن کا مسئلہ سوشل میڈیا سے بھی پرانا ہے مگر اب ان پلیٹ فارمز کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے۔
ان کے مطابق اس کی وجہ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو سزائیں نہ دینا ہے۔ ’مذہبی و نسلی اقلیتوں کے خلاف کچھ کہنے پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، پولیس بھی ڈرتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بعض عناصر توہین مذہب کے بیانیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس سے اقلیتوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
اس معاملے پر بائٹس فار آل پاکستان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں آن لائن سپیسز میں نفرت انگیزی میں اچانک اضافہ پریشان کن ہے اور شدت پسندی کے اثرات محدود رکھنے کے لیے سائبر سپیس کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
اس نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ مسیحی برداری کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔
اس سوال پر کہ آیا مذہبی منافرت سے متعلق آن لائن مواد کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود ہے، اسامہ نے بتایا کہ ایسا مواد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے اور اسے ہٹانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ صارفین اسے رپورٹ کریں۔ ’جب آپ نفرت انگیزی اور دہشتگردی سے متعلق مواد کو رپورٹ کرتے ہیں تو کمپنیاں اس پر ایکشن لیتی ہیں۔‘
BBC
انھوں نے کہا کہ جب ریاست کی جانب سے خود ہی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنائے جائے اور کالعدم تنظیموں کی حمایت کی جائے وہاں اس قسم کے مواد کو ہٹانے کے لیے کوئی ایکشن نہیں لیتی لہذا اس کا حل سوشل میڈیا کمپنیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی زبانوں میں کونٹینٹ کی نگرانی کے لیے ’ہمیں سوشل میڈیا کمپنیوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔‘
اسامہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطہ کر کے ایسے مواد کو ہٹانے کا کہے تو اس پر فوری طور پر ایکشن کیا جاتا ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ یہ حکومت کی ترجیح نہیں کہ ایسے مواد کو رپورٹ کیا جائے جس میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بشپ چرچ آف پاکستان ڈاکٹر آزاد مارشل نے کہا کہ ’میں اب تک کسی ایسے مسلم سکالر سے نہیں ملا جو (جڑانوالہ کے واقعات کو) صحیح سمجھتا ہو۔
’مگر مجھے نہیں معلوم کہ یہ نفرت کہاں سے ابھر رہی ہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔ ہم یہاں پیدا ہوئے۔۔۔ یہ ایک ناقابل یقین صورتحال۔‘
اسامہ نے سائبر کرائم کی روک تھام کے اداروں پر تنقید کی کہ ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے خلاف مواد کو ہٹانے کا کہا جائے بلکہ عموماً سوشل میڈیا کمپنیوں کو رپورٹ کیا جاتا ہے کہ کسی اور ملک میں ہونے والی توہین آمیز پوسٹوں کو ہٹایا جائے۔
’باہر کے ملک میں مذہب کی بنیاد پر تشدد کی بات کی جاتی ہے لیکن اپنے ہی ملک میں اقلیتوں کے خلاف ظلم پر ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ہمیں اپنی ترجیحات از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔‘
ساتھ ہی انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی مطالبہ کیا کہ پاکستانی اقلیتیوں کے خلاف ایسے آن لائن مواد کو فوراً ہٹایا جائے جو کہ ان کی اپنی پالیسیوں کے خلاف ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن رابعہ زبیری نے کہا ہے کہ یہ ایک حساس علاقہ ہے اور حکومت کو بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔