BBC
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں اور ان واقعات میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ اور اس کے گردونواح میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی۔
جلاؤ گھیراؤ کا یہ واقعہ بدھ کو پیش آیا تھا جب قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی توہین کے الزامات سامنے آنے کے بعد ہجوم نے جڑانوالہ کے مختلف علاقوں میں مسیحی آبادیوں کو نشانہ بنایا تھا۔
جمعے کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان عیسیٰ نگری کے علاقے میں ہوا جہاں 40 مکانات اور تین چرچ جلائے گئے جبکہ محلہ چمڑہ منڈی میں بھی دو چرچ اور 29 مکانات نذرِ آتش کیے گئے۔
اب تک پولیس نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور کار سرکار میں مداخلت جیسی دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے جمعرات کی شب ایک بیان میں کہا ہے کہ جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعے سے جڑے دو مرکزی ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ فی الحال سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں۔
ٹوئٹر پر پیغام میں انھوں نے ’ریکارڈ وقت میں گرفتاریوں‘ پر پنجاب کے چیف سیکریٹری اور پولیس سربراہ کی کوششوں کو سراہا جبکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
جڑانوالہ میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ پر تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درج مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور اس میں کہا گیا ہے کہ 500 سے 600 مشتعل مظاہرین نے مسیحی برداری کے گھروں اور گرجا گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔
اس مقدمے کے مطابق آٹھ لوگوں نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور مظاہرے کی قیادت کی جن میں سے دو کا تعلق مذہبی گروہ جماعت اہل سنت اور تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔
پاکستان علما کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مسیحی برادری کے نقصان کا ازالہ کرے جبکہ جمعرات کو ایک اجلاس کے دوران محسن نقوی کا کہنا تھا کہ جڑانوالہ میں سرکاری عمارتوں اور مسیحی برادری کی املاک کی بحالی کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور اس میں اگلے تین سے چار روز لگیں گے۔
محسن نقوی نے کہا کہ ’مسلم سکالرز سے گزارش ہے کہ طویل مدتی پلان بنانا ہوگا جس میں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہمارا دین کیا کہتا ہے۔ ہم بطور پاکستانی ایک ہیں، ہر قسم کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔‘ انھوں نے زور دیا کہ ’ان واقعات کی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔‘
عبادتگاہوں کو نقصان پہنچنے پر ’دہشتگردی کی دفعات کے تحت‘ مقدمات درج
ترجمان سٹی پولیس فیصل آباد نوید احمد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جڑانوالہ ڈویژن میں ’دہشتگردی اور جلاؤ گھراؤ کی دفعات سمیت مختلف مذہبی عبادت گاہوں کی توہین کی دفعات میں پانچ مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ پولیس کی اولین ترجیح ہے کہ امام بارگاہ اور چرچ کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔
ادھر پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں امن کی فضا کا خراب کرنے کی ’منظم سازش‘ تھا جس میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کی آسیہ انصر کو بتایا کہ مجموعی طور پر اس وقت شہر میں صورتحال پُرامن ہے اور جڑانوالہ میں رینجرز سمیت پولیس کے 3500 جوان امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
آئی جی پنجاب نے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث 128 ملزمان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کی حفاظت کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
اس واقعے کے بعد بدھ کو رات گئے ضلع فیصل آباد میں آئندہ سات روز کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا تھا جس کے تحت ہر قسم کے احتجاج اور جلسے جلسوں پر پابندی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں آج (جمعرات) تمام سرکاری اور پرائیوٹ ادارے بند رہیں گے۔
یاد رہے کہ بدھ کے صبح قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بعد مشتعل مظاہرین کی جانب سے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جبکہ کرسچین کالونی میں واقع مسیحی شہریوں کے گھروں کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔
حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی خبریں سامنے آنے کے بعد جڑانوالہ کے مختلف مقامات پر پانچ سے چھ ہزار افراد پر مشتمل بڑا ہجوم شہر کے مختلف مقامات پر جمع ہوا اور انھوں نے مسیحی برادری کے مختلف علاقوں اور عمارتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
دوسری جانب امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان ودانت پٹیل نے ایک بریفنگ کے دوران مسیحی آبادی پر حملے کے تناظر میں بیان جاری کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ پاکستان میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے ردِ عمل میں گرجا گھروں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم پرامن انداز میں اظہار آزادی رائے کی حمایت کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل کرنے کے حق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تشدد یا تشدد کی دھمکی دینا کبھی بھی اظہار کا قابلِ قبول طریقہ کار نہیں ہے اور ہم پاکستانی حکام سے اس بارے میں تفصیلی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جو افراد بھی ملوث ہیں انھیں پرامن رہنے کی تلقین کی جائے۔‘
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو مسیحی املاک میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور اس دوران پولیس صرف خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج کا یہ سلسلہ بدھ کی صبح اُس وقت شروع ہوا جب عیسیٰ نگری نامی علاقے میں چند نوجوانوں کی جانب سے قرآن کے اوراق کی مبینہ بےحرمتی کی اطلاعات شہر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس کے نتیجے میں صبح نو بجے کے قریب مشتعل افراد سنیما چوک کے پاس اکٹھے ہونے لگے۔
بی بی سی کی حمیرا کنول کے مطابق اہلکار کا کہنا ہے کہ اس مشتعل ہجوم نے متعدد گرجا گھر تباہ کیے اور مسحیوں کے گھروں اور املاک میں شدید توڑ پھوڑ کی۔
جڑانوالہ ایک چھوٹا شہر سا ہے جہاں مسیحی آبادی کی تعداد مجموعی آبادی کے پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ عیسی نگری میں ہی آباد ہیں۔
اس واقعے کے بعد عہدے سے ہٹائے جانے والے اے سی جڑانوالہ شوکت مسیح نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ 'صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں مشتعل مظاہرین کی جانب سے عیسیٰ نگری میں احتجاج اور آگ لگائے جانے کی اطلاعات ملیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مشتعل مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے اے سی جڑانوالہ کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔'
جڑانوالہ کے رہائشی 31 سالہ یاسر بھٹی ان افراد میں سے ایک تھے جنھیں اس صورتحال کے باعث اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انھوں (مظاہرین) نے کھڑکیاں اور دروازے توڑے، ہمارے فریج، صوفے، کرسیاں اور دیگر گھریلو سامان بھی لے گئے اور پھر اسے گرجا گھر کے سامنے لے جا کر جلا دیا گیا۔‘
’انھوں نے مقدس کتاب کی بیحرمتی کی، وہ انتہائی بے رحم تھے۔‘
واقعہ کیا پیش آیا؟EPA
اس واقعے کے عینی شاہد اور جڑانوالہ کے مقامی صحافی حسام نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کرسچین کالونی میں عامر نامی نوجوان نے مبینہ طور پر چند توہین آمیز پمفلٹ لکھے اور مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق کی بھی بےحرمتی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘
حسان کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے 15 مکانات کو بھی آگ لگا دی۔
انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔
جڑانوالہ کے تھانہ سٹی کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ مظاہرین کی جانب سے مسیحی بستی میں موجود کچھ گھروں کو آگ لگائے گئی ہے جبکہ وہاں لوٹ مار کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔
EPA
جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں چھ گرجا گھر جلائے گئے جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ ’پیرش پاسٹر ہاؤس‘ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔
فادر خالد مختار کے مطابق ’کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران مشتعل ہجوم ایک دوسری بستی میں قائم گرجا گھر کو نذر آتش کرنے کا ارادہ لیے ان کے گھر سے دور ہوا جس کے فوراً بعد وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ہجوم نے پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔
مقدمے کی ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
جڑانوالہ پولیس کی جانب سے بدھ کو دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآن کی بےحرمتی اور توہینِ رسالت کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انھیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کلینڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزمان موقع سے فرار ہو چکے تھے۔
فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں‘۔
پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے ہیں تاہم وہ فرار ہو چکے ہیں۔
یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزامات لگائے جانے کے بعد مسیحی برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
سنہ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی پر ایسے ہی ایک حملے اور آتشزنی کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی بے گھر ہو گئے تھے جبکہ علاقے میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا تھا۔
اس سے قبل اگست 2009 میں ضلع فیصل آباد کی ہی ایک اور تحصیل گوجرہ میں مسلم مسیحی فسادات کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔
گوجرہ کے ایک گاؤں میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب مسیحی برادری کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کی مسلمان آبادی نے ایک مسیحی بستی پر دھاوا بول کر چالیس کے قریب مکانات کو آگ لگا دی تھی۔
سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت
جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے میسحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنانے سے متعلق سب سے پہلے بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل نے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ ہم، بشپ، پادری اور عام لوگ پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں جڑانوالہ کے واقعے پر گہرے دکھ اور غم میں مبتلا ہیں۔ جب میں یہ پیغام لکھ رہا ہوں تو اس وقت چرچ کی عمارت کو جلایا جا رہا ہے۔ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور مسیحیوں کو اذیتیں دی گئی ہیں اور ان پر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ ہمارے لوگوں کی جان و مال ہمارے ملک کے لیے قیمتی ہیں جس نے ابھی ابھی جشن آزادی منایا ہے۔‘
https://twitter.com/BishopAzadM/status/1691729068889354251
جس کے بعد سوشل میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جانب سے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کا واقعے پر سیاستدانوں، صحافیوں سمیت تمام مکتوب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر دیکھ کر میں پریشان ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر ہمارے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘
https://twitter.com/anwaar_kakar/status/1691777275975352499
اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے لکھا کہ ’ یہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت فعل ہے۔ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کو بچانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟
https://twitter.com/ShireenMazari1/status/1691770164252143966
محمد تقی نامی ایک صارف نے پاکستان میں بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’محترم بشپ، فیصل آباد میں پاکستانی مسیحیوں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ہم اس بے لگام، منظم تعصب اور نفرت سے تحفظ نہیں، صرف دکھ اور تسلی دے سکتے ہیں۔
https://twitter.com/mazdaki/status/1691763366002385125
صحافی ماریہ میمن نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ریاست بار بار اپنے شہریوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی خاص طور پر کمزور اقلیتوں کے لیے اور اس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘
https://twitter.com/Maria_Memon/status/1691750751935099107
ایکٹیوسٹ عمار علی جان نے لکھا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ آپ کو جبری طور پر اس اذیت کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ مذہبی تعصب کے خلاف احتجاج کا قومی دن ہونا چاہیے۔‘
جبکہ صحافی حامد میر نے بھی بشپ چرج آف پاکستان کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں بھی رو رہا ہوں، گرجا گھر پر حملہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔‘
https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1691753094470615452
سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ قابل مذمت ہے۔ پاکستانی ریاست اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کو استثنیٰ نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘
https://twitter.com/a_siab/status/1691735760284811485