BBC
افضال مسیح کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان چند گھنٹوں میں وقت کے کانٹے نے کئی دہائیاں پیچھے کا سفر کیا اور جو مناظر وہ دیکھ رہے ہیں وہ سنہ 1947میں ہندوستان کے بٹوارے کے ہیں جب بڑے پیمانے پر دنگے فساد ہوئے، جلاؤ گھیراؤ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔
جس نے بھی دیکھا وہ بتاتا ہے کہ جڑانوالہ کے علاقے سنیما چوک کے پہلو میں واقع عیسٰی نگری میں بدھ کے روز ایسا ہی منظر تھا۔مسلمانوں کے محلے کی ایک گلی کی نکڑ سے چند اوراق ملے تھے، جس کے بعد وہاں لوگوں میں سخت غصہ تھا۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے اوراق تھے جن کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی تھی۔ ان کے مطابق مبینہ بے حرمتی کرنے والے باپ اور بیٹے کی تصویر بھی ایک ورق پر موجود تھی اور ان کا نام پتا بھی لکھا ہوا تھا۔
اس بات کی اطلاع ساتھ جڑے مسیحی برادری کے محلے تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
بہت سے لوگ اسی وقت سے اپنے بچوں کو اٹھائے، خواتین کو ساتھ لیے سب کچھ گھروں میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کچھ اب بھی وہیں موجود رہے اس امید پر کہ حالات زیادہ نہیں بگڑیں گے۔ آخر ان کے مسلمان ہمسائے انھیں اچھی طرح جانتے ہیں، وہ دہائیوں سے یہاں اکٹھے رہتے آ رہے ہیں۔
کچھ ہی دیر میں پاس کی مسجد سے اعلانات ہونے لگے۔ ان اعلانات میں مسلمانوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ کسی امید پر پیچھے رکے تھے وہ بھی گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جن کے رشتہ دار قریب فیصل آباد شہر میں رہتے ہیں وہ ان کے پاس چلے گئے، جن کا کوئی اور نہیں تھا انھوں نے اپنی خواتین اور بچوں سمیت کھیتوں میں پناہ لی۔
کچھ ہی دیر میں جتھوں کی شکل میں ہجوم عیسٰی نگری کے کیتھولک سینٹ پال چرچ کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گیا۔ ان میں سے کچھ نے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے، کچھ کے پاس مٹی کے تیل کی بوتلیں تھیں۔ وہ چرچ کو جلانا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر چند پولیس اہلکاروں اور مقامی مسیحی برادری کے چند بچے کچھے مردوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور جلد ہی انھوں نے چرچ پر دھاوا بول دیا۔
اس کے بعد افضال مسیح کہتے ہیں کہ ’قیامت کا منظر تھا۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا یہ پاکستان نہیں، ہم اس کے شہری نہیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بٹوارے کے وقت لوگوں کے گھروں کو جلا دیا گیا، انھیں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا، اسی طرح ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔‘
ہجوم نے چرچ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، سامان اٹھا کر باہر پھینکا اور پھر چرچ کو آگ لگا دی۔ وہ وہاں سے مڑے تو چرچ کے آس پاس اور سامنے والے کئی گھروں کو آگ لگائی۔ یہ دو یا تین مرلے کے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو پرانے طرز پر بنے ہیں۔
BBC
پھر ہجوم میں سے کسی نے آواز دی کہ ان مردوں کا گھر چرچ کے عقب والی گلی میں ہے جنھوں نے مبینہ طور پر قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کی تھی۔ توڑ پھوڑ کرتا ہوا ہجوم اس گلی کی طرف چل پڑا۔
کچھ افراد وہاں پہلے ہی سے جلاؤ گھیراؤ کر رہے تھے۔ اس بستی کو کرسچیئن کالونی بھی کہا جاتا ہے اور یہاں چند گلیوں میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے درجنوں خاندان آباد ہیں۔
پھر اگلے چند ہی منٹوں میں اس خاندان کا گھر، موٹرسائیکلیں، گھر کا سامان مکمل طور پر جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔
ان کے پڑوس والا گھر مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے محمد راشد کا ہے۔ وہ اپنے گھر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تو ان کے گھر کی طرف کوئی نہیں گیا۔
محمد راشد کہتے ہیں کہ ابتدا میں جب ہجوم کم تھا تو انھوں نے اور اس بستی کے رہنے والے دوسرے کئی مسلمانوں نے مل کر کئی مسیحی برادری کے ہمسایوں کے گھروں کو ہجوم سے بچانے کی کوشش کی۔
’ہم اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ہم نے کہا یہ ہمارے گھر ہیں۔ کچھ تو ہم نے بچا لیے، ہجوم وہاں سے چلا گیا لیکن یہ ہجوم مسلسل بڑھ رہا تھا اور اتنے بڑے ہجوم کر روکنا مشکل ہو گیا، انھوں نے کئی گھر جلا دیے اور سامان لوٹ کر لے گئے۔‘
افضال مسیح اور محمد راشد دونوں کہتے ہیں کہ بدھ کے روز چرچ کو آگ لگانے اور ان کے مسیحی ہمسایوں کے گھروں کو آگ لگانے والے ’ہماری بستی کے لوگ نہیں تھے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے تھے۔‘
BBCباہر سے آنے والے کون تھے؟
محمد ارشد گذشتہ 45 برس سے عیسٰی نگری میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تمام برسوں میں انھوں نے کبھی یہاں رہنے والے مسیحی اور مسلمان برادری کے افراد کو آپس میں لڑتے نہیں دیکھا۔
’وہ ہمارے گھروں میں آتے ہیں، ہم ان کے گھروں میں جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف کھانے بھجواتے ہیں، شادی بیاہ کے مواقع پر ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘
سنیما چوک کے پہلو میں واقع کرسچیئن کالونی میں ایک قدرے کشادہ اور پکی گلی سے داخل ہونے کا راستہ ہے۔ اس گلی میں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر ہیں۔ اسی گلی کے پہلو سے دائیں جانب ایک چھوٹی گلی نکلتی ہے اور یہیں نکڑ سے وہ اوراق ملے تھے۔
کئی فرلانگ اسی طرح کشادہ رہنے کے بعد یہ گلی قدرے تنگ ہوتی ہے اور جہاں یہ ختم ہوتی ہے اس کے آگے مسیحی برادری کے گھر شروع ہو جاتے ہیں اور یہاں گلی ایک مرتبہ پھر کشادہ ہو جاتی ہے۔ یہاں چرچ کے علاوہ مسیحی برادری کے 15 سے 20گھر موجود ہیں۔
محمد ارشد کہتے ہیں کہ ’ہماری خواتین نے بھی مسیحی برادری کے محلے میں رات کے پہر جاتے ہوئے خود کو کبھی غیر محفوظ محسوس نہیں کیا، اسی طرح ان کی خواتین بھی ہمارے گھروں میں آسانی سے آتی جاتی ہیں۔ ہمارے تو آپس میں اس قسم کے تعلقات ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ان کے محلے کا کوئی مسلمان شخص مسیحی ہمسائیوں کے گھروں کو جلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ’جن لوگوں نے یہ کام کیا، وہ یہاں کے نہیں تھے۔ وہ لوگ آس پاس کے دیہات سے آئے تھے یا دوسرے علاقوں سے یہاں آئے ہوئے تھے۔‘
محمد ارشد کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا بہت جلدی جلدی ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ صبح چھ بجے کے قریب ان کے محلے کی خواتین اور نماز پڑھ کر آنے والوں نے وہ اوراق دیکھے اور لگ بھگ دس گیارہ بجے کے قریب جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اس کرسچیئن کالونی کے علاوہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مختلف مقامات پر مسیحی برادری کے افراد کی کالونیاں موجود تھیں۔ ان سب میں اسی طرح چرچ اور گھر جلائے گئے۔
بات کیا تھی؟
محمد ارشد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب خواتین اور مرد ٹہلنے کے لیے گھروں سے نکلے تو گلی کی نکڑ پر انھوں چند اوراق نیچے بکھرے ہوئے دیکھے، جن پر سرخ سیاہی سے کچھ تحریر ہوا تھا۔ ساتھ ہی اسی سرخ سیاہی سے لکھی ایک ہاتھ کی تحریر بھی تھی۔
اسی تحریر کے اوپر دو لوگوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں اور ساتھ میں ان کے نام، ٹیلیفون نمبر اور پتے بھی درج تھے۔
وہ کہتے ہیں محلے والے ان تصاویر میں موجود باپ بیٹے کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے۔ ’محلے میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا اقدام کر سکتے ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے انھیں جانتے ہیں۔‘
محمد ارشد کو اس بات پر بھی تعجب ہے کہ ’اگر کوئی شخص غلط کام کرے گا تو وہ خود اپنا نام اور پتا کیوں بتا کر جائے گا۔‘
وہ اور ان کے ساتھ محلے میں رہنے والے دیگر افرادسمجھتے ہیں کہ مسیحی برادری کے ان افراد کو کسی نے پھنسانے کی کوشش کی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہو سکتا ہے اور ایسا کیوں کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ لگ بھگ سات بجے کے قریب جن افراد پر الزام آ رہا تھا ان کے ایک بھائی ایک فیکٹری سے کام ختم کر کے واپس گھر لوٹ رہے تھے، جب لوگوں نے گلی کی نکڑ پر ان کو روک کر اوراق دکھائے۔
انھوں نے بھی لا تعلقی اور حیرانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے چند اوراق لوگوں سے لیے اور اپنے والد اور بھائی کو دکھانے کے لیے گھر لے گئے۔
محمد ارشد نے بتایا کہ ان کے بھائی اور والد اس وقت سو رہے تھے جب انھوں نے دونوں کو اٹھا کر اوراق دکھائے اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ ’ان دونوں باپ بیٹے نے بھی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ وہ تینوں یہاں ہمارے پاس آ بھی گئے، انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا اور پھر بھی انھوں نے لوگوں سے معافیاں مانگیں۔‘
محمد ارشد کے بھائی فرید احمد نے بتایا کہ جب وہ باپ بیٹے واپس چلے گئے تو اس کے کچھ دیر بعد مسجد سے اعلان ہونا شروع ہو گئے جن میں لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر مبینہ بے حرمتی کے خلاف احتجاج پر اکسایا جا رہا تھا۔
’شروع میں بہت تھوڑے سے لوگ جمع ہوئے اور ان میں بھی زیادہ تر نوجوان لڑکے شامل تھے۔‘
وہ کہتے ہیں اس وقت اگر انتظامیہ جلدی نوٹس لیتی اور پولیس حرکت میں آتی تو بعد میں ہونے والی بڑی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔
BBCبات پھیلی کیسے؟
جڑانوالہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں جڑانوالہ کے اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر کو معاملے کا علم ہوا۔ ان کا تعلق بھی مسیحی برادری سے تھا۔
پولیس اہلکار کے مطابق اس وقت جو چند لوگ مشتعل تھے انھوں نے اسسٹنٹ کمشنر سے مطالبہ کیا کہ جن افراد کی تصاویر اور نام پتے بے حرمتی کیے جانے والے اوراق کے ساتھ موجود ہیں، انھیں گرفتار کیا جائے تاہم اس وقت تک وہ تینوں باپ بیٹے گھر والوں سمیت گھر چھوڑ کر جا چکے تھے۔
پولیس اہلکار کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر نے لوگوں سے چند گھنٹے کا وقت مانگا ’لیکن جب لوگوں کو پتا چلا کہ تینوں باپ بیٹا بھاگ گئے ہیں تو انھیں یہ غلط فہمی ہو گئی کہ اسسٹنٹ کمشنر نے دانستاً ان کو بھاگنے میں مدد دی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں وہاں سے لوگ مشتعل ہوئے، مساجد میں اعلانات ہونا شروع ہو گئے اور ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا۔
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح ایک علاقے کی مسجد سے دوسرے علاقے کی مسجد میں اعلانات ہوتے ہوئے بات آس پاس کے دیہات تک بھی پہنچ گئی اور وہاں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ جڑانوالہ شہر میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔
پولیس اہلکار کے مطابق شہر میں مختلف مقامات پر واقع مسیحی برادری کی بستیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 چرچ جلائے گئے جبکہ 85 گھروں کو نقصان پہنچایا گیا تاہم جن عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا، ان کی گنتی کا عمل اب بھی جاری ہے۔
دوسری جانب مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ کرسچیئن کالونی میں کیتھولیک سینٹ پال چرچ اور شہر کے تاریخی دی سالویشن آرمی چرچ سمیت مختلف مقامات پر ہنگاموں میں 20سے زیادہ چرچ جلائے گئے۔ جڑانوالہ پولیس کے اہلکار نے بھی بی بی سی سے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر وہ چھوٹے چرچ تھے جو لوگوں نے عبادت کے لیے محلوں میں بنا رکھے تھے۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آس پاس کے دیہات سے شہر میں داخل ہو گئے تھے کہ جڑانوالہ پولیس کے وسائل میں ان کو قابو کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
’پولیس ایک جگہ پر لوگوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی تھی تو معلوم ہوتا تھا کہ دوسری جگہ جلاؤ گھیراؤ شروع ہو گیا ہے۔ کئی مقامات پر مشتعل ہجوم اتنے بڑے تھے کہ پولیس موجود تھی مگر بے بس تھی۔‘
رات گئے تک کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں چلتی رہیں تاہم دیگر شہروں سے مزید نفری کے آنے کے بعد پولیس حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی۔
اب تین ہزار سے زیادہ پولیس اہلکار مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ جن علاقوں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے وہاں کاروبار زندگی منجمد نظر آتا ہے۔
BBCسندس کو نہیں معلوم کہ اب اتنے کم وقت میں ان کے جہیز کا سامان کہاں سے آئے گا’انھوں نے سب جلا دیا، جو بچا تھا وہ لوٹ کر لے گئے‘
مسیحی برادری کے گھر چھوڑ کر جانے والے کچھ لوگ جمعرات کی صبح واپس آئے تھے۔ ان میں پروین بی بی اور ان کی پڑوسی سندس بھی شامل تھیں۔ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی ان دونوں کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔
پروین بی بی کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں صبح جب مسجدوں میں اعلان ہوئے تو اس کے بعد لوگوں نے ان کو کہا کہ اپنے بچوں کو لے کر بھاگ جاؤ۔ مسجدیں اور مسلمانوں کا محلہ زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ بچوں کو لے کر بھاگیں اور اس طرح کہ انھوں نے سارا سامان گھر پر چھوڑ دیا۔
’لوگوں نے کہا وہ آ رہے ہیں، سب کو مار دیں گے، آگ لگا دیں گے۔ اپنے بچے لو اور یہاں سے بھاگ جاو۔‘
پروین بی بی کے بات کرتے وقت آنسو نہیں رک رہے تھے۔ ان کے عقب میں ان کے چھوٹے سے مکان کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر دیکھ کر معلوم ہوتا تھا جیسے ہہاں ڈاکہ پڑا ہے۔ سامان ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا پڑا تھا۔ کچھ ٹوٹی ہوئی چیزیں باہر پڑی تھیں۔
پروین بی بی جب واپس لوٹی ہیں تو ان کے گھر میں کچھ باقی نہیں۔ وہ کہتی ہیں ’کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں چھوڑا انھوں نے۔ کھانے والے برتن بھی لے گئے ہیں، پہننے والے کپڑے بھی لے گئے ہیں۔‘
آنسو پونچھتی ہوئے وہ کہتی ہیں کہ چارپائیاں تک نہیں۔ ان کے شوہر معمولی سی نوکری کرتے ہیں اور وہ خود گھروں میں کام کر کے گزر بسر کرتی ہیں۔ برسوں میں جو کچھ انھوں نے جمع کیا تھا وہ چند گھنٹوں میں چلا گیا۔
ان کے گھر کے بالکل سامنے سندس کا گھر ہے۔ سندس کی رواں برس نومبر میں شادی ہونی ہے۔ ان کے والد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی سے ان کے جہیز کا سامان جمع کیا تھا۔
’اب اس میں سے کچھ نہیں بچا۔ زیور لے گئے ہیں، نقد پیسے تھے وہ نہیں۔ کچھ یہاں جلے پڑے تھے۔ میرے جہیز کا سارا سامان چلا گیا، صرف ایک فریج بچی ہے وہ اوپر پڑی ہے ورنہ انھوں نے کچھ نہیں چھوڑا۔‘
سندس کو نہیں معلوم کہ اب اتنے کم وقت میں ان کے جہیز کا سامان کہاں سے آئے گا اور ان کی آئندہ کی زندگی کیسی ہو گی لیکن وہ اکیلی نہیں کیونکہ جڑانوالہ کی مسیحی برادری کی زیادہ تر بستیوں کی یہی کہانی ہے۔
انھیں نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ کبھی اسی بستی میں اسی طرح بغیر خوف اور خطرے کے رہ پائیں گے۔