عام انتخابات کے موقع پر سکیورٹی خدشات: کیا پاکستان میں پُرامن الیکشن کا انعقاد یقینی ہو پائے گا؟

بی بی سی اردو  |  Aug 15, 2023

BBCشاہ مینہ: ’مجھے اُس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ میں رونا چاہتی تھی مگر میں رو نہیں پا رہی تھی‘

35 سالہ شاہ مینہ پریشانی کے عالم میں روایتی پختون برقعہ اوڑھے کبھی ہسپتال کے ایک وارڈ تو کبھی دوسرے کے درمیان بھاگ رہی تھیں۔ اُن کے ساتھ اُن کی والدہ بھی تھیں جو ہر کچھ دیر بعد بلند آواز میں رونا شروع کر دیتیں۔ایسے میں شاہ مینہ پہلے اپنی والدہ کو تسلی دیتیں اور جب والدہ خاموش ہو جاتیں تو شاہ مینہ اسی پریشانی کے عالم میں دوبارہ وارڈ میں پڑے زخمیوں کو پہچاننے کے عمل میں مصروف ہو جاتیں۔

پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ میں کچھ دیر پہلے ہی ایک بڑا خودکش حملہ ہوا تھا اور شاہ مینہ اس پریشانی میں مبتلا تھیں کہ اُن کے دس سالہ بیٹے ابوزر کو کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد باجوڑ کے علاقے خار میں اپنے چھوٹے سے گھر کے آنگن میں بیٹھی شاہ مینہ نے بتایا کہ ’وہ قیامت کا دن تھا۔‘

اُن کے بیٹے ابوزر ایک قریبی مدرسے گئے تھے اور وہیں سے جلسہ گاہ جہاں جمیعت علمائے اسلام (ف) کی ایک تقریب جاری تھی۔ اُن کے والد نے بتایا کہ ابوزر جلسہ گاہ کے باہر چپس بیچنے گئے تھے۔

’میری چھے بیٹیاں ہیں اور صرف ایک بیٹا تھا۔ ہم سب کا لاڈلا۔ اللہ۔۔۔ وہ دن قیامت تھا،‘یہ کہتے ہوئے شاہ مینہ کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ دھماکے کی خبر ملنے کے کچھ دیر بعد وہ اپنی والدہ کے ہمراہ ہسپتال کی جانب چلی گئیں اور اسی دوران اُن کے شوہر اور بھائی بھی وہاں پہنچ گئے۔

’مجھے اُس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مجھے ہوش نہیں تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ میں رونا چاہتی تھی مگر میں رو نہیں سکتی تھی۔ ہسپتال میں لوگ پوچھ رہے تھے کس کو ڈھونڈ رہی ہو؟ پھر میرے شوہر نے کہا کہ جو بھی ہو گا خدا کی طرف سے ہو گا۔‘

اُن کے شوہر نے کچھ دیر بعد اپنے بیٹے کی لاش پہچان لی۔ مگر شناخت کا یہ عمل شاہ مینہ کے لیے ایک اور امتحان تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی شناخت ایک شلوار میں پہنے ’کمربند‘ سے ہوئی تھی جو انھوں نے ہی اپنے بیٹے کے لیے بنایا تھا۔

’میرے شوہر نے اپنی جیب سے کمربند نکالا۔ میں نے اسے پہچان لیا۔ میں نے کہا یہ مجھے دے دو۔ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا، میں چیخی نہیں۔ میں نے اپنی والدہ کو بلایا کہ ’آ جاؤ ابوزر مل گیا‘ ہے۔ میرے شوہر نے کہا ہمارا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ میں کہتی تھی کہ میں یہ غم کیسے برداشت کروں گی؟‘

اس دن باجوڑ کے صدر مقام خار کے اس سرکاری ہسپتال میں صرف شاہ مینہ ہی اس پریشان کُن صورتحال سے دوچار نہیں تھیں، درجنوں میتوں کی شناخت کے لیے سینکڑوں لوگ ہسپتال میں جمع تھے۔ جمیعت کے اجتماع پر ہونے والے اس حملے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو تک تھی۔

Getty Images

حکام نے اسے ایک ’خودکش حملہ‘ قرار دیا اور اس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے جنوبی ایشیا چیپٹر ’آئی ایس کے پی‘ (آئی ایس خراسان) نے قبول کی تھی۔

یہ رواں سال ہونے والے بڑے شدت پسندوں کے حملوں میں سے تھا اور عام انتخابات سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت (جے یو آئی ف) پر ہونے والا پہلا حملہ۔

دوسری جانب وفاق، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نگراں حکومت برسراقتدار آ چکی ہے اور آئین کے مطابق نگراں حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان کی صورتحال یقینی بنا کر شفاف انتخابات منعقد کرنا ہے تاکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے اور ووٹ ڈالنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔

مگر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال اور حالیہ دنوں میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں کے بعد سوال یہ ہو رہا کہ کیا پرامن انداز میں انتخابات کا انعقاد یقینی ہو پائے گا؟

مگر پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں کے ہر انتخابی سال گذشتہ برسوں کی نسبت زیادہ خونی رہا ہے۔

پاکستان میں سنہ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کو دنیا بھر کے اخبارات نے پاکستان کا ’مہلک ترین الیکشن‘ قرار دیا تھا۔ 2013 میں انتخابات سے قبل درجنوں دھماکے اور حملے ہوئے جن میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان دھماکوں کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ خیبرپختونخوا میں بعض سیاسی جماعتوں جیسا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو اپنی انتخابی مہم ہی روکنا پڑی اور یوں انھیں انتخابات میں ناکامی ہوئی جبکہ لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا۔

Getty Images

’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2013 میں پاکستان میں دہشتگردی کے دو ہزار سے زائد چھوٹے بڑے واقعات ہوئے جن میں پانچ ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثریت انتخابی جلسے جلوسوں میں شریک عام شہری اور سکیورٹی فورسز کےاہلکار تھے۔

2018 میں انتخابات کا سال 2013 کی نسبت بہتر رہا مگر ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکوں کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا۔ 2018 میں دیکھا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے اجتماعات کے بجائے امیدواروں اور رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 2018 میں مجموعی طور پرملک بھر میں 164 چھوٹے بڑے حملے ہوئے جن میں 600 سے زائد سکیورٹی اہلکار، عام شہری اور دیگر افراد ہلاک ہوئے۔

اب 2023 کے اختتام یا 2024 کے آغاز کو الیکشن کا سیزن قرار دیا جا رہا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہ واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ ریاست امن و امان برقرار رکھنے میں اگر ناکام نہیں تو مشکل کا شکار ضرور ہے۔ سنہ 2023 کے پہلے چھ ماہ میں ہونے والے شدت پسندی کے واقعات اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد2018کے پورے سال سے زیادہ ہے، کیونکہ اس سال کے ابتدائی چھ ماہ میں 230 سے زائد شدت پسندی کے چھوٹے بڑے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 500 سے زیادہ ہے۔

تاہم ماہرین کے مطابق جمیعت علمائے اسلام ف جیسی مذہبی سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا ان واقعات کو ایک ’نیا موڑ دے رہا ہے۔‘

عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی کے سینیئر رہنما میاں افتخار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی پر 2008 اور 2013 میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی نسبت سب سے زیادہ حملے ہوئے تھے یہاں تک کہ اس جماعت کو انتخابات سے عین قبل اپنی سرگرمیاں روکنی پڑیں تھیں۔

میاں افتخار یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ہمارا ورکر پارٹی کا جھنڈا نہیں لگا سکتا تھا۔ اگر اے این پی کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی جاتی تو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتیں۔‘

BBC

میاں افتخار نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ’باچا خان مرکز‘ کے نام سے مشہور اے این پی کے مرکزی دفتر میں ہمیں اپنی انتخابی مہم کا احوال سُنایا۔

’میرا 2013 میں بھی یہی دفتر تھا۔ اس وقت جب دیگر جماعتوں کے قائدین اور امیدوار باہر نکل کر اپنی بھرپور انتخابی مہم چلا رہے تھے تو میں یہاں دفتر میں بیٹھنے پر مجبور تھا۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے تھے کہ ہم باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ مجھے بتایا جاتا کہ آپ کو خطرہ ہے۔ جان کا خطرہ ہے۔کبھی کہا جاتا کہ ایک خودکش عورت آپ کو نشانہ بنائے گی، کبھی بتایا جاتا کہ ایک بچہ جسم کے ساتھ بم باندھ کر آپ کو مارنے آئے گا۔ میں پوچھتا تھا کہ اگر انھیں (سکیورٹی ایجنسیز) کو یہ پتا تھا کہ ہمیں مارنے کون آئے گا یا کون منصوبہ بندی کر رہا ہے تو ہمیں بتانے کی بجائے انھیں پکڑا کیوں نہیں جاتا تھا؟‘

میاں افتخار اپنی جماعت کے اُن قائدین میں سے ایک ہیں جن کی سیاست اور سیاسی نظریات کی وجہ سے اُن کے اہلخانہ کو بھی شدت پسند گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔

اُسی دفتر کی ایک دیوار پر اُن کے جواں سال بیٹے میاں راشد حسین کا سکیچ ایک سادہ سے فریم میں لگا ہوا ہے۔ انھوں نے وہ تصویر دیوار سے اُتاری اور ہمیں دکھاتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بیٹے کو اُن کے گھر کے باہر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اُن کے قاتل کو بعدازاں پولیس نے گرفتار کیا اور تصدیق کی کہ اس حملے میں تحریک طالبان پاکستان ملوث تھی جنھوں نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

’میرے بیٹا اپنے کزن کے ہمراہ تھا۔ دہشت گرد آئے اور پوچھا کہ تم ہی میاں افتخار کے بیٹے ہو؟ میرے بیٹے نے جواب دیا، ہاں میں ہوں۔ پھر انھوں نے چار گولیاں سینے میں اور چار سر میں مار دیں۔ میں اس وقت صوبے کا وزیر اطلاعات تھا۔ ایک وزیر کے بیٹے پر حملہ یہ پیغام تھا کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ تیسرے دن میرے گھر کے باہر خودکش دھماکہ کیا گیا۔‘

’سمجھ نہیں آتا کہ یہ لڑائی کب تک چلے گی۔ کیا اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا؟ سوال یہ ہے کہ اس خطے میں یہ دہشتگردی افغان بارڈر پر موجود ممالک میں سے صرف پاکستان میں ہی کیوں ہے؟ انڈیا، ایران یا چین میں کیوں نہیں ہے؟ ہمیں اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہو گا۔ ہماری اندرونی اور خارجہ پالیسی صرف ملکی مفاد میں ہونی چاہیے، کسی کے ذاتی مفاد میں نہیں۔‘

میاں افتخار کہتے ہیں کہ اس وقت پورے صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا خطرہ موجود ہے۔ ’یہ خطرناک بات ہے، دہشتگردوں کے بھی گروپس ہیں۔ کوئی (ریاست کے لیے) اچھا ہے، کوئی بُرا۔ مگر دہشتگرد گروہوں میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گرد تو دہشتگرد ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ اب اگر اس خطرے پر قابو پا لیا گیا تو (انتخابات میں) امن ہو گا۔ ورنہ اس بار حالات اس قدر خراب ہو جائیں گے کہ ماضی کے انتخابی سالوں کی شدت پسندی بہت کم محسوس ہو گی۔‘

Getty Images

پشاور کے ہی قصہ خوانی بازار میں چہل قدمی کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر میاں افتخار سے متفق نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس بار انتخابات میں دہشتگرد تنظیمیں ’منظم ہیں نہ ہی ان میں طاقت ہے کہ وہ بڑے شہروں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا سکیں۔‘

البتہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے انھوں نے ہمیں قصہ خوانی بازار میں انڈیا کے مشہور فلمی خاندان کپور فیملی کی آبائی حویلی کے قریب ایک سکول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں 2013 میں انتخابی میٹنگ مکمل کر کے اس وقت کے سینیئر سیاستدان بشیر بلور باہر نکلے تھے۔

گلی کی نکڑ پر اُن کے انتظار میں کھڑے ایک خودکش بمبار نے ان پر حملہ کیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ بلور خاندان کے کئی سیاستدان ایسے ہی حملوں کی نذر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان کا اُن فوجی آپریشنز کی حمایت کرنا ہے جو پاکستانی فوج نے طالبان کے خلاف خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں کیے۔

محمود جان بابر بتاتے ہیں کہ ’ماضی کے دو تین انتخابات میں ان لوگوں کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا تھا تاکہ یہ اسمبلیوں میں نہ پہنچ سکیں۔ جب بھی ایسے حملے ہوتے ہیں سیاسی جماعت نقصان اٹھاتی ہے۔ لوگ ڈر جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔ سیاسی امیدوار اپنی مہم نہیں چلا سکتے، لوگوں سے مل نہیں سکتے اور یوں ان کا پیغام عوام تک نہیں پہنچ پاتا۔ ان کا ووٹر بھی ڈر جاتا ہے کہ اس جماعت کے حق میں ووٹ دیا یا ان کی مہم کا حصہ بنے تو وہ دہشتگردی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘

یہی ڈر اور خوف باجوڑ کے علاقے خار میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ جنید کی عمر 17 سال ہے اور وہ اُس دن اپنے بھائی کے ہمراہ اسی جلسہ گاہ میں موجود تھے جہاں جمیعت علمائے اسلام کے کارکنوں کو داعش کے خودکش بمبار نے نشانہ بنایا۔ اُن کے بھائی ضیا اللہ خان جمیعت کے مقامی امیر تھے اور کئی مہینوں سے انھیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔

BBCجنید خان: ’میرے بھائی کی آخری سانس میری گود میں نکلی۔ میں انھیں نہیں بچا سکا‘

’انھیں یہ تو بتایا جاتا تھا کہ تمہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے مگر تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ ہم نے پشاور میں گھر لیا کہ بھائی وہیں رہیں اور باجوڑ نہ آئیں کیونکہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ مگر وہ تو سیاستدان تھے، لوگوں کی خدمت کرتے تھے اس لیے وہ باجوڑ آتے۔‘

جنید یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ وہ اپنے بھائی کی قبر پر زاروقطار رو دیے۔ اس قبرستان میں ان کے بھائی کے علاوہ اسی دھماکے میں ہلاک ہونے والے چار دیگر افراد بھی دفن تھے۔ ان کی قبروں کی مٹی تازہ تھی جس پر پلاسٹک کے شیٹ ڈالی گئی تھی تاکہ بارش اور جنگلی جانوروں کو دور رکھا جا سکے۔

’میرے بھائی کی سانس میری گود میں نکلی۔ میں انھیں نہیں بچا سکا۔‘ جنید خان اس حملے کے دوران سٹیج کے قریب موجود تھے مگر وہ بال بال بچ گئے۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’میں اپنے قائدین سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ پوچھیں کہ یہ لوگ کیوں شہید ہو رہے ہیں۔ اور پارٹیوں کے لوگ تو نہیں مارے جا رہے۔ ہمیں بتائیں کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ ہمیں بتائیں تاکہ ہم وہ غلطی نہ کریں۔‘

دوسری جانب حسرت و یاس کی تصویر بنی شاہ مینہ بھی اس جواب کی منتظر ہیں کہ ’یہ دھماکے یہاں کیوں ہوتے ہیں؟ میرے بیٹے کا کیا قصور تھا۔ وہ تو دس، بارہ سال کا چھوٹا سا بچہ تھا جس نے کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار عامر ضیا کا کہنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے دوران بدامنی پر مبنی شدت پسندی کی کارروائیوں کا خطرہ موجود ہے اور اس نوعیت کے خطرات الیکشن کے سال میں عموماً ہوتے ہیں کیونکہ شدت پسندوں کے لیے ٹارگٹ کرنا آسان ہوتا ہے۔

وہ پاکستان بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کی وجہ گذشتہ دور حکومت میں افغانستان سے لوگوں کی واپسی کو بھی قرار دیتے ہیں۔

’میرے خیال میں صورتحال خراب ہو سکتی ہے مگر شاید یہ ویسی سکیورٹی صورتحال نہ ہو جیسی 2008 اور 2013 میں درپیش تھی۔ وہ بدترین حالات تھے۔ اس وقت ریاست کی رٹ تمام تر علاقوں پر قائم ہے مگر 2008 اور 2013 میں یہ صورتحال نہیں تھی۔ ہاں، یہ ضرور ممکن ہے کہ سرحد پار سے شدت پسند آئیں، کارروائی کریں اور دوبارہ فرار ہو جائیں جیسا کہ چند حالیہ واقعات میں دیکھا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سکیورٹی ادارے 20 حملے ناکام بنا بھی لیں تب بھی ایک حملہ کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں اس لیے سیکیورٹی ادارے اور حکومت بہتر حکمت عملی سے اس صورتحالپر قابو پا سکتے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل پاکستان کو افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کے ساتھ سخت لب و لہجہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا اور ایک حل کی بات کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ افغان طالبان کے لیے بھی صورتحال مشکل ہے۔ ایک جانب ٹی ٹی پی ہے جس نے ان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف جنگ لڑی، اور دوسرا انھیں یہ ڈر بھی ہے کہ اگر وہ اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ردعمل میں پاکستانی طالبان داعش کی صفوں میں نہ جا بیٹھیں جو اس وقت افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More