یہ شمالی انڈیا کے شہر لکھنؤ کی ایک سرد شام ہے۔ ماضی میں اودھ کے نواب کبھی اس شہر پر راج کرتے تھے۔
ہم اس وقت ساراکا اسٹیٹ کے لابوا بوتیک ہوٹل میں موجود ہیں۔ ہم ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے کھانوں کی بھرمار ہے۔ ہمارے سامنے ایسے نان ہیں جن پر پوست کے بیج چھڑکے ہوئے ہیں اور اس میں زعفران شامل ہے جبکہ یہاں کباب اور لکھنوی بریانی بھی ہے۔
لیکن شیف محسن قریشی بتاتے ہیں کہ اس شام کی سب سے خاص ڈش ایک میٹھا پکوان ہے جو ’آپ نے کبھی پہلے نہیں کھایا ہوگا۔‘
یہ کہنے کے بعد جو ڈش انھوں نے پیش کی، پہلی نظر میں دیکھی دیکھی محسوس ہو رہی تھی۔
اس میں زعفرانی رنگ کے چاولوں کے دانوں پر کاجو، کشمش، بادام اور کھویا شامل تھا، اور چاندی کا ورق لگا ہوا تھا۔
اس میں زعفران اور مسالوں کی خوشبو گھی میں تلے کاجو اور بادام سے مزید مہک رہی تھی۔ مگر اس میں گوشت کے ٹکڑے بھی تھے۔
محسن قریشی مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ متنجن ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ پکوان عید الاضحیٰ پر کسی ماہر پکوان کے میز پر لازمی ہوتا تھا۔‘
متنجن کو اب ڈھونڈھنا مشکل ہے لیکن آپ اس سے مایوس نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بالکل ایک عام ڈش نہیں ہے۔
متجن ایرانی و عربی لفظ متاجن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’برتن میں تلنا‘۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ متنجن مشرق وسطیٰ سے آیا ہے۔ لیکن عرب پکوانوں میں جس چیز کو متاجن کہا جاتا ہے، یہ اس سے مختلف ہے۔
مثال کے طور پر ایک قسم کے متاجن میں پالک کو تیل میں تل کر اس میں لہسن، زیرہ، خشک دھنیہ اور دار چینی شامل کی جاتی ہے۔ دوسری قسم کا متاجن ابلے ہوئے انڈوں کی ڈش ہے جسے پہلے پورا تلا جاتا ہے اور پھر اسے مسالے اور نمک میں رول کیا جاتا ہے۔
16ویں صدی کی فارسی ڈش متنجن کو صفوی شہنشاہ عباس کا پسندیدہ پکوان سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک دھیمی آنچ پر خاص طریقے سے بنایا گیا گوشت کا شوربہ ہوتا ہے۔
کتاب ’قدیم لکھنؤ کی آخری بہار‘ میں مصنف مرزا جعفر حسین 13 تحائف کے بارے میں لکھتے ہیں جو ان کے خیال میں پرانے لکھنؤ نے دنیا کو عطا کیے تھے۔ ان میں سے ایک متنجن ہے۔
مورخین نے یہ بھی لکھا کہ کیسے نواب کے گھر پر رات کے کھانے اور دوسرے لوگوں کو بھیجے گئے کھانوں میں ہمیشہ متنجن ہوتا تھا۔
لیکن شاید نواب کے گھر میں یہ پکوان مغلوں کے شاہی باورچی خانے سے آیا ہو گا۔
16ویں صدی کے مغل بادشاہ اکبر کے عظیم وزیر ابوالفضل نے اپنی تحریروں میں شاہی دسترخوان پر پیش کیے جانے والے پکوانوں میں متنجن کا ذکر کیا ہے۔
کتاب ’دی مغل فیسٹ‘ 17ویں صدی کے مغل دستاویز نسخہ شاہجہانی (شاہجہاں کی ترکیبیں) کی ایک نقل اور ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ تاریخ دان سلمیٰ حسین بتاتی ہیں کہ نسخہ شاہجہانی میں متنجن پلاؤ کی ترکیب بھی موجود ہے۔
14ویں صدی کے عرب تاریخ دران شہاب الدین العمری نے اپنی کتاب میں سلطان محمد بن تغلق کے دور کے انڈیا کے بارے میں لکھا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریر میں انڈیا کے بازاروں میں فروخت ہونے والے پکوانوں میں متنجن کا ذکر کیا۔
انھوں نے اس کے بارے میں لکھا کہ یہ ایک ایسا پکوان ہے جسے گلی محلے میں عام لوگ کھاتے ہیں۔ یہ صرف شاہی خاندانوں کے لیے نہیں ہے۔
متنجن شاید ان عربی اور فارسی کھانوں سے نکلا ہے جن میں چینی، چاول اور گوشت کو ملایا جاتا ہے۔ الوراق کی 10 ویں صدی کی کتاب ’اینالز آف دی کیلیفز کچن‘ میں ایک ایسی ڈش کا ذکر ہے جس میں چاولوں اور مسالہ دار چکن دودھ میں پکایا جاتا ہے اور آخر میں اس میں شہد ڈالا جاتا ہے۔
انڈین متنجن پلاؤ فارسی ’مرصع پلو‘ یعنی زیورات سے بھرے چاول جیسا بھی لگتا ہے۔ اس پکوان میں چاول میں باربیری، پستے، کشمش اور نارنجی کے چھلکے کے ساتھ چکن بریسٹ کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔
برصغیر میں زیادہ تر چیزوں کی طرح متنجن یا اس کی ابتدا کے بارے میں باتیں اور ترقیب ایک نہیں ہے۔ ڈش نہ صرف ثقافتی تبادلے کی روانی بلکہ کھانا کیسے سفر کرتا ہے اور اس میں تبدیلی کی پیچیدگیوں کا ثبوت ہے۔
یہ واضح ہے کہ برصغیر کے متنجن پلاؤ پر اگرچہ غیر ملکی اور دیسی اثرات مرتب ہوئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پلاؤ کی شکل میں متنجن نے اپنی ایک الگ شناخت حاصل کر لی۔
متنجن پلاؤ بنانے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے رام پور میں بنائی جانے والے متنجن کو لے لیجیے۔
مصنفہ ترانہ حسین خان نے اپنی کتاب ’دیگ ٹو دسترخوان‘ میں متنجن کو میٹھے اور لذیذ چاولوں کی ڈش کے طور پر بیان کیا ہے جس میں میٹھے گلاب جامن اور کوفتے شامل ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ’ترقیب میں چاول کے وزن سے چار گنا چینی کا کہا گیا ہے۔‘
ترانہ حسین خان کا خیال ہے کہ متنجن کے لیے رام پور کے شاہی کچن میں اودھی باورچیوں کو خاص طور پر لایا گیا تھا۔ لیکن رام پور کے شاہی باورچی خانے نے گوشت کے ٹکڑوں کو کوفتوں سے بدل دیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے متنجن ایک خاص پکوان ہے جس میں ثقافتی یادیں اور جذبات شامل ہیں۔ ترانہ حسین کہتی ہیں ’ملک کے کچھ حصوں میں، خاص طور پر اتر پردیش کے سہارنپور علاقے میں، جب ایک نئی دلہن اپنے شوہر کے لیے اپنے والدین کے گھر سے نکلتی تھی تو اسے متنجن کی ایک بڑی ہانڈی کے ساتھ بھیجنے کا رواج تھا۔‘
وہ کہتی ہیں ’ایک میٹھی اور نمکین ڈش، جس میں لیمو کی کھٹاس بھی ڈالی جاتی تھی، شاید ان ملے جلے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے جو اس طرح کے موقع پر محسوس ہوتے ہیں۔‘
پاکستانی فوڈ بلاگر فاطمہ نسیم بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ’متنجن کبھی بھی عام موقع کا میٹھا پکوان نہیں ہوتا۔ میں نے اسے صرف شادیوں، مذہبی تہواروں (عرس، میلاد) یا لنگر کے حصے کے طور پر پیش ہوتے دیکھا ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک خاص ڈش سمجھی جاتی ہے۔‘
لیکن پاکستان میں جس قسم کا متنجن آج کل مقبول ہے اس میں گوشت نہیں ہوتا۔
اس کے بجائے اس میں سیرپ میں بھیگے ہوئے سفید چاول، جن کو مختلف رنگ دیے جاتے ہیں، ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خشک میوہ جات اور گری دار میوے، چیری، چمچم، کاٹج چیز اور ٹوسٹڈ ناریل ہوتے ہیں۔ کچھ میں تو ابلے ہوئے انڈے بھی ڈالے جاتے ہیں۔
آج کے دور میں ایک اچھا متنجن تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ اس ڈش کو اکثر زردہ اور دیگر میٹھے چاولوں والے پکوانوں کے ساتھ الجھایا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے چند لوگ اب بھی یہ ڈش بناتے ہیں۔
ترانہ حسین کہتی ہیں کہ دلی میں پرانے قلعے کے قریب بابو شاہی باورچی کے بھٹیارخانے (باورچی خانے) میں آرڈر دینے پر حافظ میاں آپ کے لیے خوشبودار متنجن تیار کرتے ہیں۔