کراچی کا وہ علاقہ جہاں پانی اب بھی ماشکی پہنچاتا ہے

بی بی سی اردو  |  Aug 13, 2023

BBCمحمد اقبال نسل در نسل سے مشک کے ذریعے شہریوں کو پانی فراہم کرنے کا کام کر رہے ہیں

’کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی سپلائی لائن ٹھیک کروانے کے لیے 80 ہزار روپے خرچ کیے، لیکن تھوڑے دن پانی آنے کے بعد وہ لائن پھر بند ہوگئی۔ پہلے ہم نے پلاسٹک کے بڑے ڈبوں میں پانی سپلائی کرنے والوں سے رابطہ کیا اور روزمرہ استعمال کے لیے اُن سے پانی خریدنا شروع کیا لیکن پھر گھر والوں کی طبعیت خراب ہونا شروع ہو گئی کیونکہ ایک تو ڈبے میں پانی کھلا آتا ہے، دوسرا اسے سپلائی کرنے والے حفظان صحت کے اصولوں کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔‘

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برنس روڈ کے رہائشی منظور علی نے اپنی کہانی کی ابتدا کچھ یوں کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے پلاسٹک کے ڈبوں میں سپلائی کیے جانے والے پانی کو خیرباد کہا اور ماشکی سے پانی کی سپلائی شروع کروائی۔

’ماشکی سے پانی لینے کا اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ مشک کا منھ بند کر کے لے کر آتے ہیں۔ مشکیزے والا ایک چکر کے50 روپے لیتا ہے۔ پھر رہائشی عمارتوں میں نیچے کی منزل پر پانی پہنچانے کی الگقیمت ہے اور جیسے جیسے منزل اوپر چڑھتے جائیں گے قیمت بڑھتی جائے گی۔ہم سے اوپر والی منزل کے 75روپےہیں اور اس سے اوپر کے 100روپے۔‘

منظور علی برنس روڈ کے رہائشی ہیں جو کراچی کا ایک قدیم علاقہ ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں اس علاقے کے کئی گھروں اور دکانوں میں پینے کا صاف پانی مشکیزے کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے۔

مشکیزے یا ماشکی کے ذریعے صاف پانی کا حصول پاکستان میں رہنے والوں کے لیے ماضی میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ ماضی میں بلدیہ کراچی میںماشکی یا سقہکی باقاعدہ نوکریاں ہوتی تھیں جن کی بنیادی ذمہ داری گھر گھر صاف پانیپہنچانا تھا۔ بشیر سدوزئی کی کتاب ’بلدیہ کراچی سال بہ سال‘ کے مطابق 1930 میں کراچی کے علاقے گارڈن میں باقاعدہ ’بہشتی واڑاہ‘ تھا جہاں بہشتی کمیونٹی آباد تھی۔

تاہم یہ ضرور حیرانی کی بات ہے کہ کراچی کے چند علاقوں میں آج کے دور میں بھی صاف پانی کا ذریعہ یہی ماشکی اور مشکیزے ہیں۔

BBC’اب ہم کڑوا پانی خریدتے ہیں اور وہ بھی پیسے دے کر‘

محمد اقبال کی عمر لگ بھگ 62 برس ہے اور ان کی پیدائش فیصل آباد میں ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے کراچی میں ماشکی کا کام شروع کیا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اقبال کے مطابق ان کا خاندان پچھلی کئی نسلوں سےسقہ گری کا کام کر رہا ہے۔ ’آج بھی ہم منھ اندھیرے اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ کسی گھر میں آدھیمشک ڈلتی ہے اور کہیںپوری اور کہیں ایک ہی وقت میں دو، دو۔ میں اپنے بچوں میں اس فیلڈ میں نہیں لایا کیونکہ پہلے لوگ ہماری عزت کرتے تھے اور ہمیں ’بہشتی‘ کہتے تھے مگر اب وہ وقتنہیں رہا۔

اقبال سمجھتے ہیں کہ آج بھی لوگ مشکیزے سے اس لیےپانی بھرواتے ہیں کیونکہ اس سے ’سو بیماریاں دور ہوتی ہیں‘ جبکہ پانی کی سپلائی کا مسئلہ تو ہے ہی۔

اقبال گدھا گاڑی پر موجود اپنی ٹنکی میں 17 سے 18 مشکیزے بھر کر لاتے ہیں۔ وہ صبح سے دوپہر 12 بجے تکتین سے چار چکر لگاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مشکیزے کی تیاری کے لیےبکرے کی کھالیں پنجاب سے منگوائی جاتی ہیں۔ اقبال کے مطابق مشکیزے سے پانی سپلائی کر کے وہ روزانہ 600 روپے تک کما لیتے ہیں۔

60 سالہ نگہت امین کراچی ہی کے علاقے ’پاکستان چوک‘ میں ایک رہائشی عمارت کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ شادی ہو کر یہاں آئی تھیں تو حکومت کی جانب سے پینے کا میٹھا پانی سپلائی لائنوں کے ذریعے گھر گھر بھیجا جاتا تھا۔ مگر پھر کراچی میں پانی مافیا آ گیا اور اب تو مسئلہ گھمبیر ہو گیا ہے۔ ہم ترس گئے ہیںمیٹھے پانی کے لیے۔ اب بورنگ کا پانی بوتلوں سے لیتے ہیں اور اس مد میں 750روپے ماہانہ تک خرچہ آ جاتا ہے۔‘

اسی سے ملتی جلتی کہانی نازیہ معیز کی ہے جن کا بچپن کراچی کے ضلع غربی کے علاقے آصف کالونی میں گزرا اور اب وہ خود بچوں کی ماں ہیں۔ یہ علاقہ منگھو پیر روڈ پر واقع ہے جہاں ایشیا کی سب سےبڑی ماربل انڈسٹری ہے جس میں پانیکا استعمالبہت زیادہ ہوتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے علاقے میں زیر زمین پانی اتنا نیچے جا چکا ہے کہ اب یہاں بورنگ بھی کامیاب نہیں اور بور سے جو پانی نکلتا بھی ہے وہ کڑوا ہوتا ہے۔

’ہماری کالونی میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کنویں بھی کھدوائے لیکن مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اب ہم کڑوا پانی خریدتے ہیں اور وہ بھی پیسے دے کر۔‘

BBCکراچی کی آبادی کو کتنے پانی کی ضرورت؟

کراچی کو دھابیجی اور حب ندی سےپانی مہیا کیا جاتا ہے۔ کراچی کو آبادی کے لحاظ سے 650 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے تاہم نیسپاک کے 2019 کے سروے کے مطابق کراچی کو فقط512 ملین گیلن ہی پانی ملتا ہے۔

سنہ 2016 میں سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ کے لیے صاف پانی تک رسائی پر ایک واٹر کمیشن بنایا گیا تھا جس نے سنہ 2017 میں پیش کی گئی 53 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ کراچی کو مہیا کردہ30 فیصد پانی خراب اور پرانی واٹر سپلائی لائنوں اور غیر قانونی ہائیڈرینٹ کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 118 مختلف مقامات سے حاصل کردہ پانی کے نمونوں میں سے 107مقامات کا پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں تھا۔

کراچی میں اس وقت سات ہائیڈرینٹ ہیں، یعنی کراچی کی ہر ڈسٹرکٹ میں واٹر بورڈ کی طرف سے لوگوں کو میٹھے پانی تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی سات اضلاع میں سے چھ اضلاع میں سرکاری ہائیڈرینٹ پمپ چل رہے ہیں۔ ان پمپس کے ٹھیکوں کے لیے ہر دو سال بعدآکشن کیا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر انسان کو روزانہ استعمال کے لیے 50 سے 100 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے بڑے شہروں کے لیے مقرر کیے گئے معیارکے مطابق کراچی کو 1100ملین گیلن پانی یومیہ ملنا چاہیے کیونکہ 20ملین آبادی والے شہرکے لیے کم از کم اتنا پانی درکار ہے۔

سندھ واٹر کمیشن نےاپنی سفارشات میں کہا تھاکہ کراچی کو اس کی آبادیکے تناسب میں پانی ملنا چاہیے بلکہ کمیشن نے 1200 ملین گیلن پانی کی سفارش کی تھی۔

سخی حسن ہائیڈرینٹ کےسپروائزر مشرف علی صدیقی بتاتے ہیں کہ وہ کراچی واٹر بورڈ کی جانب سے مہیا کردہ پانیلوگوں کی ضرورت کے مطابق آگے مہیا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی واٹر بورڈکی ایپ موجود ہے جس پر پانی کی بکنگ ہوتی ہے۔ ’ہم روزانہ 400 درخواستوں پر کام کرتے ہیں۔ سمجھ لیں چار لاکھ گیلن پانی روزانہ یہاں سےلوگوں تک پہنچ رہا ہے۔اس سے زیادہ ممکن نہیں کیونکہ ہمارے پاس سپلائی کے لیے درکار ٹینکر نہیں ہیں۔‘

BBC

عاطف صدیقی واٹر بورڈ کے کال سینٹر میں کمپیوٹر آپریٹر ہیں۔ اُن کے مطابق ڈسٹرکٹ سینٹرل میں سب سے زیادہ پانی کی کمی نارتھ کراچی ہے میں جہاں سب سے زیادہ پانی کے ٹینکر کی طلب رہتی ہے۔

نجی تنظیم ’شہری‘ کی جنرل سیکریٹری امبر علی سمجھتی ہیں کہ صاف پانی تک رسائی کراچی کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’حکومت سندھ کو لازمی واٹر کمیشن کی سفارشات پرعمل کرنا چاہیے، جو کراچی کا کوٹہ بڑھانے کی بات کرتا ہے۔ اتنے سال گزرنے کے باجود صاف پانی تک رسائیکے لیے حکومتی سطح پر کوئیکام نہیں کیا گیا جبکہ پرائیوٹ ہائیڈرینٹس نےکراچی میں پانی کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی کی شہری حکومت کو فوراًتمام غیر قانونی ہائیڈرینٹپلانٹس بند کروا دینے چاہیے کیونکہ سندھ ہائی کورٹ اپنی کمیشن رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ مقررہ حدود کے اندر ایک ہی واٹر ہائیڈرینٹ چل سکتا ہے اور وہ بھی حکومت کی نگرانی میں۔

’کہیں 24 گھنٹے پانی تو کہیں چھ ماہ سے نہیں ملا‘

کراچی کے اربن لیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد توحید کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔

’کئی وجوہات کی وجہ سے کراچی کے لوگ صاف اور میٹھے پانی کو ترس رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ کراچی کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی مہیا ہی نہیں کیا جا رہا، پھر جو پانی مہیا کیا جا رہا ہے اس میں توازن نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں 24 گھنٹے پانی آتا ہے جبکہ کچھ علاقوں میںہفتے میں چند گھنٹوں کے لیے پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پچھلے چھ ماہ یا سال بھر سے پانی مل ہی نہیں سکا۔ ان کے پاس کراچی واٹر بورڈ کے کنکشن موجود ہیں لیکن لائنوں میں پانی نہیں۔‘

BBC

انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کے پیش نظر اب لوگوں میں بورنگ اور کنویں کھدوانے کا رجحان بڑھ چکا ہے جس کے باعث پورے شہر میںزیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔

انھوں نے کہا کہ ٹینکر کے ذریعے پانی فراہم کرنے والے واٹر بورڈکے طے شدہ قیمت سےدس اور پندرہ گنا زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں جبکہ کراچی میں وہ علاقے بھی ہیں جہاں پلاسٹک کے کین اور بوتلوں کے ذریعے مہنگا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

کراچی کے میئر مرتضی وہابنے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’کراچی میں غیرقانونی ہائڈرینٹ نہیں ہونے چاہییں۔ صرف ان ہایڈرینٹس کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جن کے پاسقانونی پرمٹ ہو۔ بدقسمتی سے شہر کے کئی علاقوں میں غیر قانونی ہائیڈرینٹ کا جال مشروم گروتھ کی طرح پھیلا ہے۔

’کئی علاقوں میں میٹھے پانی کی وافر مقدار میں موجود ہے جو عوامکا پانی ہی انھیں مہنگے داموں میں فروخت کر دیتے ہیں۔

’کراچی میں پانی چوری اور اس کا تجارتی استعمال بھی عام ہے۔ ہم نے مافیا کے خلاف مہم شروع کی ہے اور اسے منطقی انجامتک پہنچائیں گے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اپوزیشن جماعتیں واٹر بورڈ پر پانی کی چوری کا الزام لگاتی ہیں اور جب واٹر بورڈ ان مافیا کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو پھر سب واٹر بورڈ پر الزام لگاتے ہیں۔‘

30 جولائی کو میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پانی کراچی کے عوام کی امانت ہے جو انھیں جائز طریقے سے ملے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سندھ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہ پانی جو عوام خرید کر استعمال کر رہے ہیں وہی ان کو باآسانی مفت مل سکے اور اسی سلسلے میں پانی کے غیرقانونی کنکشنز کے خلاف مہم جاری ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More