’یہ بہت تیز بھاگ رہا تھا۔ میں نے اپنی سپیڈ بڑھائی اور اسے پکڑ ہی لیا۔‘ رولر سکیٹس پر ایک نوجوان ہاتھوں میں سکردو کا مشہور گولڈن مارموٹ اٹھائے ہوئے یہ بہت خوشی سے بتا رہا ہے۔
یہ منظر ایک ٹک ٹاک ویڈیو کا ہے جس میں نظر آنے والا مارموٹ یا تو سہما ہوا یا پھر نیم بے ہوش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی مزاحمت نہیں کر رہا۔
ویڈیو بنانے والا پوچھتا ہے ’کیا یہ زندہ ہے؟‘ تو ٹک ٹاکر قاضی حسیب کہتے ہیں کہ ’ہاں ہلکا سا زندہ ہے، تھوڑا بے ہوش ہے۔ اب مجھے اس سے ڈر بھی لگ رہا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟‘
اس کے بعد وہ نوجوان اپنے دیکھنے والوں سے کہتا ہے کہ ’آپ کو پتا ہے تو مجھے بھی بتانا۔‘
یہ ویڈیو اب مذکورہ ٹک ٹاکر کے اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ کب کی ہے اور آیا یہ جانور زندہ رہا یا نہیں۔
پاکستان میں ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ پارمز پر ایسی ویڈیوز کی مذمت کی جا رہی ہے جن میں محض کونٹینٹ بنانے اور ویوز حاصل کرنے کے لیے جانوروں سے بدسلوکی کی جاتی ہے۔
بی بی سی کی جانب سے اس ٹک ٹاکر سے رابطہ کر کے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سیاحوں کے رویے سے سوشل میڈیا صارفین ناراض
اس ویڈیو نے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ بعض لوگ ایک بے ضرّر جانور کے ساتھ ناروا سلوک پر ناراض ہیں تو کچھ کا کہنا ہےکہ ضرورت سے زیادہ سیاحوں کا گلگت بلتستان جانا قدرتی مناظر اور جنگلی حیات دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ ایسے سیاحوں کو سمجھ نہیں ہوتی کہ تہذیبی حساسیت یا قدرتی رہائش گاہ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
رمشا سیّد نامی صارف کا کہنا تھا ’جانوروں کے حقوق ہیں کہ ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں، نہ کہ اس طرح کا جو انسان چاہتے ہیں۔ انسانوں کے لیے جانوروں کو خوراک، لباس، تجربات یا کسی اور چیز کے لیے استعمال کرنا غلط ہے۔‘
حسن رانا کا کہنا تھا کہ ’اسے (نوجوان) خنجراب پاس سے پاسو کونز تک اسی طرح گھسیٹ کر لے جانا چاہیے، ورنہ اسے سمجھ نہیں آنی۔ بدترین یہ ہے کہ لوگ آج کل صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکتے ہیں۔‘
پاکستان میں موسم گرما کے دوران سیاحوں کی ایک بڑی تعداد شمالی علاقہ جات کا رخ کرتی ہے۔ رواں سال بعض سیاحوں کا مقامی آبادی اور ماحول کے ساتھ غیر حساس سلوک زیرِ بحث رہا ہے۔
قیصر عرفان کا کہنا تھا ’میں نے بار بار کہا ہے کہ ’شمالی علاقہ جات پاس‘ کی ضرورت ہے۔ سیاحوں کو محفوظ قدرتی علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے ایک خاص رقم ادا کرنی چاہیے۔ غیر ملکی زیادہ ادائیگی کرتے ہیں اور پیسہ کمیونٹی میں واپس جاتا ہے۔ سیاحوں کی سکریننگ ہونی چاہیے۔‘
ویڈیو میں اس ٹک ٹاکر کے رویے نے کئی لوگوں کو پریشان بھی کیا ہے۔ جیسے فاطمہ کہتی ہیں کہ انھیں ویوز کی خاطر ایسا کونٹینٹ بنانے سے ’کسی نے بھی نہیں روکا۔ ایسے لوگوں پر اس طرح کے علاقوں میں داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔‘
Getty Imagesسکردو کے رہائشیوں کے بقول مارموٹ دوستانہ مزاج رکھتے ہیں’انفلوینسر سوشل میڈیا پر کچھ بھی بنا کر وائرل ہونا چاہتے ہیں‘
اپنے مواد کو سوشل میڈیا پر وائرل بنانے یا ویوز حاصل کرنے کے لیے جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی ویڈیو میں نہ صرف جانوروں کو ہراساں کیا جاتا رہا بلکہ عید کے موقع پر جانور ذبح کرنے کی ویڈیوز تک اپ لوڈ کی گئیں جو کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ مناظر تھے۔
کیا ویوز کے لیے کانٹینٹ یا مواد بنانے کی کوئی اخلاقی حد یا ضابطے بھی ہیں؟
پاکستانی انفلوینسر حمزہ بھٹی یوٹیوب پر کافی مقبول ہیں اور کونٹینٹ بنانے کے لیے پورے ملک کے دوردراز مقامات تک جاتے رہتے ہیں۔
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ بعض کونٹینٹ کریئیٹر محض ویوز کی خاطر اخلاقی حدود کا احترام کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب تھا کہ ’بدقسمتی سے بعض لوگوں میں آگاہی کی کمی ہوتی ہے اور وہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر مواد کی نگرانی کے کمزور قوانین کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ سیاحتی مقام ہنزہ کی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں لوگ پھلوں کے لیے ٹہنیاں توڑتے ہیں یا جانوروں سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اجازت لیے بغیر کسی کی ذاتی اٹالک کی فلمبندی کرتے ہیں یا ویڈیوز میں مقامی لوگوں کے چہرے دکھاتے ہیں۔
وہ ہنزہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مقامی لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سیاحوں اور انفلواینسرز کی جانب سے ان سے غیر حسّاس سوال پوچھے جاتے ہیں جس سے ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔‘
حمزہ نے بتایا کہ ’بطور انفلواینسر اور سیاح یہ احساس ہونا ضروری ہے کہ آپ اپنی صرف تصاویر اور ویڈیوز کے لیے کسی مقام کے مخصوص ماحول اور حساسیت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا اب بھی ایک نئی چیز ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے لوگوں میں آگاہی نہیں مگر ان کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ کچھ بھی بنا کر ویوز حاصل کر سکتے ہیں اور وائرل ہوسکتے ہیں۔‘
حمزہ نے مذکورہ ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شاید اس انفلوینسر نے یہ سمجھ کر اس جانور کو پکڑا کہ ’ایسا پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا ہوگا۔‘
’سچ بھی یہی ہے کہ جب بھی آپ ایسی کوئی حرکت کرتے ہیں تو اس سے مزید ویوز ملتے ہیں۔ کسی چیز پر جتنا تبصرہ کیا جائے گا، اسے اتنے ہی ویوز ملیں گے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بھی یہ مسئلہ ہے کہ وہاں چیز اپ لوڈ ہوتے وقت نظرثانی کے لیے کوئی تاخیر نہیں ہوتی اور فوراً ویڈیو اپ لوڈ بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ یہ چیز جاری رہے گی جب تک پلیٹ فارم ان واقعات کا نوٹس نہیں لیتے یا اس حوالے سے نگرانی سخت نہیں کرتے۔‘
گولڈن مارموٹ یا دیگر جنگلی حیات کو نقصان پہنچانے پر کیا سزا ہے؟
مارموٹ سال کے کچھ دن ہی دکھائی دینے والا جانور ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے ٹھکانوں میں سست پڑے رہتے ہیں یا سردیوں میں زیادہ تر سوئے رہتے ہیں لیکن گرم موسم میں باہر نکلتے اور خوراک تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
سکردو کے رہائشیوں کے بقول یہ پُرامن اور دوستانہ مزاج رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں مارموٹ کی کم سے کم 15 اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک سبزی خود جانور ہے جو زیادہ تر صرف گھاس کھاتا ہے۔
یہ گرمیوں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ کھانا کھا کر وزن بڑھاتے ہیں تاکہ یہ توانائی موسم سرما میں ان کے کام آ سکے۔ یہ اپنا وزن کم سے کم 13 کلو تک بڑھا لیتے ہیں۔
دیوسائی نیشنل پارک کے اہلکار مہدی نے بتایا کے یہ مارموٹ عموماً 12000 فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے جہاں انسانی آبادی نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سیزن کے آغاز پر یہ انسانوں سے دور دور رہتا ہے لیکن سیاحوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کے بعد جب لوگ اسے کھانے پینے کی چیزیں دیتے ہیں تو یہ آہستہ آہستہ ان کے قریب آ جاتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اگرچہ دنیا میں اس کی اور بھی اقسام ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر صرف گولڈن مارموٹ ہی پایا جاتا ہے۔ چونکہ اس جانور کا شکار نہیں کیا جاتا اس لیے انسانوں کے ہاتھوں اس کے ناپید ہونے کا خطرہ نہیں ہے تاہم یہ مقامی ریچھوں کی خوراک ضرور بن جاتا ہے جو قدرتی نظام کا حصہ ہے۔‘
مہدی کا کہنا تھا کہ ’یہ ننھے جانور تو انسانوں کے لیے خطرہ نہیں لیکن انسانوں کی آبادی ان کی آماجگاہیں کم کر رہی ہیں۔‘
Getty Images
دیوسائی نیشنل پارک کے اہلکار مہدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارک کی حدود میں ر وائلڈ لائف لا کا سیکشن 7لاگو ہے جس کے تحت آپ جانوروں کو ہراساں یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
انھوں نے کہا کہ 1975 کے اس قانون میں سزائیں اور جرمانے بہت کم ہیں۔ ’کچھ معاملات میں محض دو ہزار روپے جرمانہ اور تین ماہ قید ہے۔ اور ان پر بھی سزا نہیں ہوتی کیونکہ یہ کہہ کر معاملے کو کمزور کیا جاتا ہے خیر ہے جانور کی بات ہی تو ہے۔ ‘
وائلڈ ایف ایکٹ 1975 کے تحت نہ تو جانوروں کو پکڑا جا سکتا ہے نہ انھیں ہراساں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ مارموٹ پکڑنے والے نوجوان کی یہ ویڈیو جس علاقے کی ہے وہ نیشنل پارک کا علاقہ ہے۔
وہاں کے لیے وائلڈ ایف ایکٹ 1975 سیکشن 7 میں کچھ باتیں سختی سے ممنوع ہیں جو سیاحوں کے لیے جاننا بہت ضروری ہیں:
نیشنل پارک کے علاقے میں رہائش نہیں رکھی جا سکتیکسی جانور کو ہلاک، یا قید نہیں کیا جا سکتااس علاقے میں ہتھیار نہیں لے جایا جا سکتایہاں پالتو اور گھریلو جانور لے جانے کی اجازت نہیں، اگر لے جایا گیا تو محکمہ جنگلی حیات سے قبضے میں لے سکتا ہےیہاں کسی پودے یا جڑی بوٹی کو توڑا یا نقصان نہیں پہنچایا جا سکتایہاں سے پتھر یا کوئی پودا نہیں لے جایا جا سکتادرختوں یا چٹانوں پر لکھنا ممنو ع ہے یہاں کچرا پھینکا یا گندگی پھیلانا منع ہے
اگر سیاح ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کرتے تو قانون کے مطابق دو سال قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔
Getty Imagesجنگلی جانور خصوصاً ریچھ اب خوراک کے حصول کے لیے انسانوں کے قریب آنے لگے ہیں’ہم اس ویڈیو کو عوام کی آگاہی کے لیے استعمال کریں گے‘
دیوسائی نیشنل پارک کے اہلکار مہدی کا کہنا تھا ’ہمارے ہاں جانوروں کو مارنا یا ہراساں کرنا جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ جانور کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں اسے پکڑو یا مارو۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دیوسائی نیشنل پارک میں دو چیک پوسٹس ہیں جہاں آنے والے ہر سیاح کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جانوروں کو ہراساں نہ کریں اور نہ یہاں شکار کریں۔ پارک میں جکہ جگہ سائن بورڈز لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹری فیس کے ٹکٹ کی پشت پر بھی یہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کے سیاحوں کی جانب سے جنگلی جانوروں کو خوراک دینے اور خاص طور پر کچرا پھینکے کی وجہ سے کئی جنگلی جانور اب خوراک کے لیے انسانوں کے قریب آنے لگے ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک بھورے ریچھ کا سیاحوں کے کیمپوں تک آنا ہے۔
اس حوالے سے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پاکستان میں صدر ندیم خالد کا کہنا تھا کہ نہ صرف قدرتی ماحول بلکہ چڑیا گھروں میں بھی لوگوں کا رویہ جانوروں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ ’لوگ جانوروں کو پریشان کرتے ہیں، انھیں پتھر اور ڈنڈے مارتے ہیں اور اردگرد موجود لوگ ہنستے رہتے ہیں۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ دیکھیں تو لوگ ان ویڈیوز کو لائیک کرتے اور شیئر کرتے ہیں۔ جانوروں پر تشدد ایک عمومی معاشرتی رویہ بن گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کو بھی عوام کی آگاہی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ندیم خالد یہ تجویز دیتے ہیں کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’جگہ جگہ بورڈز لگائے جائیں گے۔ انتظامیہ اور گارڈز کو لوگوں کو کسی بھی ایسی حرکت سے روکنے اور انھیں سمجھانے کی ذمہ دار دی جائے گی۔ ‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ ’ہماری اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تازہ قانون سازی کی جائے اور قانون کی وضاحت کی جائے تاکہ سزائیں لاگو ہو سکیں۔‘
Getty Imagesزین مصطفی کے مطابق جانوروں سے بدسلوکی اور ناروا رویہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے جو وقتی تفریح کے لیے عام ہو رہی ہے
زین مصطفی اور ان کی تنظیم سپر جانوروں کے حقوق سے متعلق قانون سازی کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں سے بدسلوکی اور ناروا رویہ ایک افسوس ناک چیز ہے جو وقتی تفریح کے لیے عام ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کی روک تھام کے لیے ’محکمہ سیاحت کو اپنے ضابطوں اور اصولوں کو عام کرنا ہوگا۔۔۔ سیاحوں کی ہر جگہ رسائی کو روکنا ہوگا، خاص طور پر جہاں ایسے جاندار ہیں۔‘
زین کے مطابق سماج میں ’مردانہ طاقت دکھانے کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ مرد شکار کرتے نظر آئیں گے۔ یہ تفریح کے لیے آوراہ کتوں تک کو لٹکاتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’حد تو یہ ہے کہ عید الاضحی پر چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں چھریاں دے کر جانوروں کو ذبح کروایا جاتا ہے اور اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی ہیں۔‘
زین کہتے ہیں کہ اب ’جانوروں سے حسنِ سلوک سکولوں میں سکھایا جانا چاہیے۔ مردوں میں حساسیت پیدا کرنی ہو گی کہ انھیں تکلیف پہنچا کر تفریح حاصل نہ کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر جن پلیٹ فارمز پر ایسا مواد وائرل ہوتا ہے اور ویوز حاصل کیے جاتے ہیں، انھی کے ذریعے قواعد ضوابط کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ وہ محکمہ سیاحت اور جنگلی حیات کو بھی ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے آگہی دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔